چینی زبان کا عالمی دن، پاک چین دوستی اور نئی سپر پاور بننے کا دیرینہ خواب

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

چینی زبان کا عالمی دن، پاک چین دوستی اور چین کا نئی سپر پاور بننے کا دیرینہ خواب
چینی زبان کا عالمی دن، پاک چین دوستی اور چین کا نئی سپر پاور بننے کا دیرینہ خواب

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

ریاستہائے متحدہ امریکا کو اگر کوئی ملک آنکھیں دکھا سکتا ہے تو وہ چین ہے جبکہ آج چینی زبان کا عالمی دن منایا جارہا ہے جس کا مقصد اقوامِ عالم پر چینی زبان کی اہمیت اجاگر کرنا ہے۔

پاک چین دوستی سمندر سے زیادہ گہری اور ہمالیہ سے زیادہ اونچی قرار دی جاتی ہے۔ آئیے چینی زبان کے عالمی دن کے موقعے پر عوامی جمہوریہ چین اور چینی زبان کے متعلق مختلف حقائق کا جائزہ لیتے ہیں۔

چینی زبان کا عالمی دن اور 20 اپریل کی تاریخ

سن 2010ء میں اقوامِ متحدہ نے چینی زبان کا عالمی دن منانے کا آغاز کیا اور پہلا بین الاقوامی دن 12 نومبر کو منایا گیا۔ بعد ازاں چینی کیلنڈر میں گویو کی مناسبت سے یہ دن 20 اپریل کو منایا جانے لگا۔

گویو چینی لوگ کینگ جی نامی ایک تاریخی کردار کو خراجِ تحسین پیش کرنے کیلئے مناتے ہیں جو چینی تاریخ میں نمایاں مقام رکھتا ہے۔ بعض روایات کہتی ہیں کہ کینگ جی قدیم چینی بادشاہوں کا سرکاری تاریخ دان رہا جس نے 5 ہزار برس قبل چینی کردار تخلیق کیے۔

کینگ جی کے بارے میں مشہور بعض طلسماتی کہانیوں میں کہا گیا کہ اس کی 4 آنکھیں ہوا کرتی تھیں۔ تاریخی اعتبار سے چینی زبان میں اولین تحریری ریکارڈ 3000 سال پرانا ہے۔ دنیا بھر میں کم و بیش 1 ارب 31 کروڑ افراد چینی زبان بول سکتے ہیں۔ چینی زبان چین، سنگاپور، مکاؤ اور تائیوان میں بولی جاتی ہے۔

سپر پاور کون؟ سروے کے نتائج

سن 2013ء میں کیے گئے ایک سروے میں جو 39 ممالک کے 37 ہزار 653 افراد کے انٹرویوز پر مبنی ہے، یہ بات سامنے آئی کہ چین ایک بڑی معیشت کے طورپر دنیا کی قیادت کرسکتا ہے۔ 39 میں سے 22 اقوام امریکا کو سپرپاور سمجھ رہی تھیں جبکہ 8 ممالک نے چین کو دنیا کی سب سے بڑی معیشت قرار دیا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ ان ممالک میں امریکا کے اتحادی ممالک برطانیہ، کینیڈا، فرانس اور جرمنی بھی شامل ہیں جنہوں نے امریکا کے مقابلے میں چین کو اہمیت دی۔ سروے 2 ماہ میں مکمل ہوا تھا اور 2 مارچ سے یکم مئی 2013 تک بالمشافہ ملاقاتوں اور فون کالز کے ذریعے معلومات اکٹھی کی گئیں۔ 

ایشیاء کی صدی اور ابھرتے ہوئے ممالک

ماہرینِ معاشیات کا کہنا ہے کہ 21ویں صدی ایشیاء کی صدی ہے کیونکہ اس میں کئی ایشیائی ممالک غربت کے دھارے سے نکل کر خوشحال اور ترقی پذیر سے ترقی یافتہ ممالک بن جائیں گے۔ ایشیائی ممالک کی فہرست میں سب سے پہلا نمبر چین کا ہے۔

پوری دنیا کی نظریں چین پر لگی ہوئی ہیں۔ بحث یہ نہیں کہ چین سپر پاور بن سکتا ہے یا نہیں بلکہ بحث یہ ہے کہ اسے سپر پاور بننے میں اور کتنا عرصہ لگے گا۔ تاحال اس حوالے سے کوئی واضح بیانیہ سامنے نہیں آسکا۔ 

پاک چین دوستی اور سی پیک

سن 50ء کی دہائی میں پاکستان اور چین کبھی بہترین دوست ہوں گے، یہ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ پاکستان نے مسلم ممالک میں سب سے پہلے چین کو تسلیم کیا جبکہ دنیا بھر کے ممالک میں چین کو تسلیم کرنے والا تیسرا ملک پاکستان تھا جس نے سوشلسٹ انقلاب کی آمد کے بعد چین کو عوامی جمہوریہ تسلیم کیا۔

بلاشبہ دو ممالک کے مابین تعلقات دلی جذبات کی بجائے باہمی مفادات کی بنیاد پر قائم ہوتے ہیں۔ اگر چین عالمی طاقت بننے کا خواب دیکھ رہا ہے تو پاکستان اس کا جزوِ لاینفک ہے۔ چین کیلئے بننے والی پائپ لائنز، سڑکیں اور ریلوے کا جال اہم ہے جبکہ مشرقِ وسطی میں تیل اور گیس کے کنووں کے چین کے شہروں سے رابطے کا خطہ صرف پاکستان ہوگا۔ پاکستان کی خطے میں اہمیت اس کے اسٹرٹیجک مقام کی وجہ سے ہے۔

چین نے ہر ممکن حد تک مختلف معاشی مسائل اور بین الاقوامی تنازعات کے حل میں پاکستان کی مدد کی ہے۔ پاکستان نے بھی چین کا ہر موقعے پر بڑھ چڑھ کر ساتھ دیا ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ یہ دوستی پختہ ہوتی جارہی ہے۔ پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کے ذریعے پاک چین دوستی کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا اور اب توقع کی جارہی ہے کہ چین اور پاکستان دونوں ممالک کے عوام کیلئے مل کر کام کریں گے۔ 

سپر پاور بننے کا خواب

گزشتہ ماہ یعنی مارچ 2021ء میں بیجنگ میں 5000 سے زائد افراد دو اہم اجلاسوں کیلئے اکٹھے ہوئے۔ عموماً ایسے اجلاسوں میں چین کی پیپلز پولیٹیکل کنسلٹیٹو کانفرنس اور نیشنل پیپلز کانفرنس کے اراکین آئندہ سال کیلئےمنصوبہ سازی کرتے ہیں۔

برطانوی نشریاتی ادارے (بی بی سی) نے دعویٰ کیا کہ ان اجلاسوں کے دوران چین نے امریکا کے بعد دنیا کی نئی سپر پاور بننے کیلئے اپنا آئندہ کا لائحۂ عمل مرتب کیا ہے تاہم اس حوالے سے چین کی جانب سے کوئی بیان سامنے نہیں آیا اور ماہرینِ امورِ خارجہ کے مطابق عوامی جمہوریہ چین کی خارجہ پالیسی سپر پاور بننے سے قبل ایسے کسی بیان کی متحمل بھی نہیں ہوسکتی۔

Related Posts