”بھیک بند“ کاپیغام، بھکاریوں کی حوصلہ افزائی ختم کرنا ہوگی

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

”بھیک بند“ کاپیغام، بھکاریوں کی حوصلہ افزائی ختم کرنا ہوگی
”بھیک بند“ کاپیغام، بھکاریوں کی حوصلہ افزائی ختم کرنا ہوگی

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

کراچی: ملک میں رمضان المبارک کے مقدس مہینے کی آمد کے ساتھ ہی کراچی میں بھکاریوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے، ہزاروں کی تعداد میں کراچی آنے والے یہ بھکاری شہر کی سڑکوں پر گھومتے لوگوں کی جیبیں خالی کرا رہے ہوتے ہیں، اس حوالے سے ایم ایم نیوز کی ٹیم نے سماجی کارکن عابد بیلی سے رائے طلب کی انہوں نے اس حوالے سے جو بات کی وہ قارئین کی نظر ہے۔

سماجی کارکن عابد بیلی نے ایم ایم نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ”بھیک بند“ایک چھوٹا سا پیغام اُن تمام کراچی والوں اور پورے پاکستان کے لئے ہے کہ بھیک دینا بند کردیں، کیونکہ آپ کی جو یہ بھیک دینے کی عادت ہے وہ بھکاریوں کی تعداد کم نہیں کررہی، بلکہ اُن کی تعداد بھی بڑھا رہی ہے اور اُن لوگوں کو ایک ایسے روزگار کی طرف لے کر جارہی ہے، جس میں اس ملک کا گزارا نہیں اور اس سے نہ اس ملک کی حالت بدلے گی۔

انہوں نے کہا کہ جب ہم بھیک دینا بند کردیں گے تو یہی بچے اور یہی مرد اور عورتیں جو گلی محلوں میں گھوم رہے ہوتے وہ شاید کسی صحیح کام پر لگ جائیں، انہوں نے کہا کہ 2010سے میں اس پر کام کررہا ہوں، اور اُس وقت بھی میں نے ایک کمپین کی تھی کہ بچوں کو ہم زندگی ٹرسٹ میں پڑھنے کے لئے بھیجیں گے وہاں سے انہیں پیسے بھی ملیں گے، اور شام میں وہی بچے سگنلز پر مختلف چیزیں بیچنے کے ساتھ روزگار حاصل کریں گے۔

کورونا وباء کے بعد اس کمپین کو نئے نام سے ایک عام کراچی والا کے بیس سے اس کی شروعات کی ہے، اور تقریباً2سال کے بعد آن لائن اس پر پوری کمپین بنانے کے بعد پھر ہم نے اس کی گراؤنڈ ایکٹیویٹی شروع کی، جب ہمارے پاس اچھے ٹیم ممبرز ہوگئے۔

عابد بیلی نے کہا کہ کراچی والوں کو ایک ایک چیز کا پتہ ہے کہ صبح کتنے بجے ان بھکاریوں کو سزوکیوں اور رکشوں میں چھوڑا جاتا ہے، شام کو کتنے بچے اٹھا لیا جاتا ہے، کون اپاہج ہے، کون نابینا ہے، کون دوسری طرح سے ایکٹنگ کرکے پیسے بٹور رہا ہے، سب کو اس حوالے سے پتہ ہے۔

اندازاً 2004سے ان بھکاریوں کے معاملات شروع ہوئے ہیں، اس سے قبل یہ معاملات اتنے زیادہ نہیں تھے، لوگ اپنے علاقوں میں، اپنے گھر والوں میں اور اپنے دوستوں میں ان کی مدد کرنے کا ایک رجحان تھا اور یہ جو سحر و افطار کرانے کا رجحان بھی صرف مساجد کی حد تک تھا، سڑکوں پر نہیں تھا۔

انہوں نے کہا کہ آپ کو پوری تحقیق کے بعد کسی کی مدد کرنی چاہئے، وہ بھی اس طرح کرنی چاہئے کہ وہ شخص اپنی زندگی میں کسی مقام پر کھڑا ہوجائے، عابد بیلی نے کہا کہ میرا ایک ریسٹورنٹ تھا کلفٹن برج کے پاس وہاں پر ایک کبڑا آتا تھا، یعنی جھکا ہوا بھکاری تھا، اس کے ہاتھ میں ایک ڈنڈا ہوتا تھا، ہر کسی کو اس شخص پر ترس آتا تھا، اس بندے کو میں نے اپنے ریسٹورنٹ کے آس پاس بھی بھٹکنے سے منع کیا ہوا تھا۔

وہی بندہ بزرٹہ لائن کے علاقے میں پانی کا کین بالکل صحیح حالت میں اُٹھا کر گھر جارہا تھا، اس کی ویڈیو ہمارے ایک ویٹر نے لے کر مجھے بھیج دی کہ یہ وہی کبڑا فقیر ہے جس کے بارے میں ہمارے تمام اسٹاف ممبران دکھی ہوتے ہیں کہ آپ اس شخص کو بھیک نہیں دینے دیتے، یہ تو میں نے آپ کو اپنا ذاتی تجربہ بتایا ہے، اس کے علاوہ بہت ساری مثالیں موجود ہیں۔

سفید پوش خاندان آپ کو راشن کی لائن میں اس طرح نظر نہیں آئیں گے، نہ آپ کو لنگر خانوں میں نظر آئیں گے، ان کی مدد کے لئے ہمیں سوچنا چاہئے، اس کے لئے ہمیں چاہئے کہ ہم سستا راشن اسٹالز جگہ جگہ لگالیں۔

اس سے یہ ہوگا کہ اگر وہ شخص 300روپے والی بوری اگر 100روپے میں خرید کر لے کر جائے گا اس سے یہ ہوگا کہ وہ شخص خوش ہوگا کہ میں اپنے بچوں کو کوئی چیز خرید کر کھلا رہا ہوں، نہ کہ مانگ کر کھلا رہا ہوں، اپنی سوچ میں تھوڑی سے تبدیلی کی ضرورت ہے، باقی ہماری قوم پر منحصر ہے کہ وہ اس پر کس طرح سے عمل کرتی ہے۔

Related Posts