پی آئی اے فلائٹس پر پابندیوں کے باعث داؤ پر لگی ملکی ساکھ اور حکومتی فرائض

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

پی آئی اے فلائٹس پر پابندیوں کے باعث داؤ پر لگی ملکی ساکھ اور حکومتی فرائض
پی آئی اے فلائٹس پر پابندیوں کے باعث داؤ پر لگی ملکی ساکھ اور حکومتی فرائض

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

ملک کی تاریخ میں پہلی بار پاکستان انٹرنیشنل ائیر لائنز (پی آئی اے) کی فلائٹس پر یورپی یونین ممالک نے پابندی عائد کردی ہے جس سے ملکی ساکھ داؤ پر لگ چکی ہے۔

اگر آپ کو ملک سے باہر یا کسی بھی ایسے ملک سے پاکستان کیلئے سفر کرنا ہو جس نے پی آئی اے پر پابندی عائد کر رکھی ہے تو آپ کو پی آئی اے کے علاوہ کوئی اور ائیر لائن ڈھونڈنی ہوگی۔

آئیے ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ یورپی یونین ممالک کو اچانک کیا ہوا کہ انہوں نے پاکستان انٹرنیشنل ائیر لائنز جیسی زبردست فضائی آپریشنز کرنے والی کمپنی پر پابندی عائد کردی۔

کراچی میں ہونے والا طیارہ حادثہ

رمضان المبارک کا مہینہ تھا اور جمعۃ الوداع کا دن جب قومی ائیر لائن کی فلائٹ نمبر پی کے 8303کراچی کے رہائشی علاقے پر گر کر تباہ ہو گئی اور 97 افراد جاں بحق جبکہ 2 معجزانہ طور پر زندہ بچ گئے۔

یہ کوئی پہلا سانحہ نہیں تھا جو پی آئی اے کو پیش آیا بلکہ اس سے قبل پی آئی اے کی دیگر پروازوں کو بھی حادثے پیش آچکے ہیں۔ خاص طور پر وہ فلائٹ تو آپ کو ضرور یاد ہوگی جس میں جنید جمشید اِس دارِ فانی سے رخصت ہو گئے۔

حادثے کا ذمہ دار کون؟

ابتدائی رپورٹ میں طیارے کے کپتان یعنی پائلٹ کو واقعے کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔ وزیرِ ہوا بازی نے قومی اسمبلی میں کھڑے ہو کر بتایا کہ مذکورہ پائلٹ پرواز کے دوران اپنی بیگم سے گفتگو میں مصروف تھے۔

وفاقی وزیر کے مطابق پائلٹ کورونا وائرس کے بارے میں گفتگو کر رہا تھا کیونکہ وائرس اس کے اہلِ خانہ کو بھی متاثر کرچکا تھا جس کے سبب محسوس ہوتا ہے کہ شاید پائلٹ کی توجہ فلائٹ سے ہٹ گئی ہو۔ 

تحقیقات اور پائلٹس کے مشکوک لائسنسز 

ایسا پہلے بھی ہوا تھا کہ تحقیقات کو دبایا گیا اور حادثے کے ذمہ داران کو کوئی سزا نہ مل سکی اور اب بھی شاید یہی تاریخ دہرائی جاتی، تاہم حادثے پر تحقیقات سے مختلف معاملات واضح ہوتے چلے گئے۔

تازہ ترین پیش رفتوں میں سے ایک یہ ہے کہ قومی ائیر لائن نے 426 میں سے 150پائلٹس کے لائسنس مشکوک قرار دے دئیے جس سے پاکستان سمیت دنیا بھر میں کھلبلی مچ گئی۔

مشکوک لائسنسز کا مطلب یہ ہے کہ خود پی آئی اے کے مطابق 150 پائلٹس ایسے ہیں جن کی تعلیمی اسناد مشکوک ہیں اور وہ یا تو رشوت دے کر یا پھر سیاسی اثر رسوخ کے باعث پی آئی اے میں بھرتی ہو گئے ہیں۔

دوسری جانب وفاقی وزیر غلام سرور نے کہا کہ 40 فیصد پائلٹس کے لائسنسز مشکوک ہیں یعنی کل 860 میں سے 262 پائلٹس جعلی لائسنس رکھتے ہیں جنہیں فوراً برطرف کردینا چاہئے۔

برطانیہ اور یورپی یونین کا اقدام 

یورپی یونین کی ایوی ایشن سیفٹی ایجنسی اور برطانوی سول ایوی ایشن نے قومی ائیر لائن کی پروازیں معطل کرنے کا عندیہ دیتے ہوئے چھ ماہ کیلئے پی آئی اے پر پابندی عائد کردی۔

غور کیا جائے تو یورپی یونین میں آسٹریا، اٹلی، بیلجیئم، بلغاریہ، کروشیا، ڈنمارک، پولینڈ، پرتگال، فن لینڈ، رومانیہ، فرانس، جرمنی، یونان، اسپین، ہنگری سویڈن اور آئرلینڈ سمیت 27 ممالک شامل ہیں۔

لہٰذا یورپی یونین اور برطانیہ کے فیصلے سے تقریباً 28 ممالک نے پی آئی اے کے فلائٹ آپریشنز معطل کردئیے ہیں جس کا ذمہ دار حکومت اور  پی آئی اے کی کرپٹ انتظامیہ کو قرار دیا جاسکتا ہے۔

فلائٹ آپریشنز کی معطلی کا اطلاق آج رات 12 بجے سے لے کر آئندہ چھ ماہ تک رہے گا۔ دریں اثناء یورپی یونین ممالک نے محض 3 روز کیلئے پابندی ہٹائی ہے تاکہ پی آئی اے اچانک پابندی سے پیدا ہونے والے بحران سے نکل سکے۔ 

مزید پابندیاں متوقع 

افسوس کی بات یہ ہے کہ یورپی یونین اور برطانیہ کے اقدام سے دیگر ممالک بھی متوجہ ہوئے ہیں اور عرب امارات سمیت دیگر ممالک بھی پی آئی اے پر پابندی عائد کرنے کے حق میں دکھائی دیتے ہیں۔

پیپلز پارٹی کی سینیٹر شیری رحمان بھی کہہ چکی ہیں کہ پی آئی اے کو یورپ میں تو کالعدم قرار دیا گیا ہے، مزید ممالک کسی وقت بھی پابندی عائد کرسکتے ہیں۔

پابندی کے خلاف ممکنہ چارہ جوئی

ای اے ایس اے کے مطابق قومی ائیر لائن پابندی کے فیصلے کے خلاف یورپی یونین اور برطانوی حکومت کو 2 ماہ میں اپیل دائر کرسکتی ہے جس پر غور کرکے حتمی فیصلے کا اختیار صرف برطانوی حکومت یا یونین کو ہوگا۔

قومی ائیر لائن کے یورپی یونین اور برطانیہ میں فلائٹ آپریشنز کی معطلی کا فیصلہ مبینہ طور پر پائلٹس کے مشتبہ لائسنسز کی بنیاد پر کیا گیا، کیونکہ دنیا کے ہر ملک کیلئے اس کے شہریوں کی سلامتی اہم ہے۔ 

حکومتی فرائض

قومی ائیر لائن پر پابندی ملکی ساکھ کو داؤ پر لگانے کے مترادف ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ پی آئی اے میں کرپشن پر فوری تحقیقات کو انجام تک پہنچائے اور طیارہ حادثے کے ذمہ دار بدعنوان عناصر کو سخت سزائیں دے۔

بدعنوانی قومی ائیر لائن میں اوپر سے لے کر نیچے تک سرایت کرچکی ہے۔ پائلٹس کی بھرتیاں اگر صاف و شفاف انداز میں کی گئی ہوتیں تو ملک کو ایسی صورتحال کا کبھی سامنا نہ کرنا پڑتا۔

اس لیے حکومت کو قومی ائیر لائن کو ایسی انتظامیہ کے حوالے کرنا چاہئے جو ادارے کے معاملات کو درست سمت میں چلائے اور تمام تر بین الاقوامی پابندیاں اور دیگر مسائل دور کرے۔ 

Related Posts