لانگ مارچ اور ممکنہ تصادم

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

سیاسی بحران اس وقت شدت اختیار کر گیا جب حکومت کی جانب سے تحریک انصاف کے اسلام آباد تک لانگ مارچ سے قبل پی ٹی آئی کے کارکنوں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کیا گیا، حکومت کی جانب سے کسی بھی قیمت پر مارچ کو روکنے کا فیصلہ کرنے کے بعد امن و امان کی صورتحال مزید خراب ہو سکتی ہے۔

پنجاب پولیس نے ان پی ٹی آئی رہنماؤں کے گھروں پر چھاپے مارے جو گرفتاری یا حراست سے بچنے کے لیے زیر زمین چلے گئے۔ تحریک انصاف کا دعویٰ ہے کہ گیارہ سو سے زیادہ چھاپے مارے گئے اور سینکڑوں کارکنوں کو پکڑا گیا ہے۔ پنجاب، اسلام آباد اور یہاں تک کہ سندھ میں جلسوں اور عوامی اجتماعات پر مکمل پابندی عائد کر دی گئی ہے۔

اسلام آباد میں حکومت نے ریڈ زون کو کنٹینرز لگا کر سیل کر دیا ہے اور دفعہ 144 دو ماہ کے لیے نافذ کر دی گئی ہے۔ کسی بھی عوامی نقل و حرکت کو روکنے کے لیے 22,000 سے زائد پولیس اہلکاروں اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی نفری تعینات کی گئی ہے۔ حکومت نے سیکیورٹی انتظامات فوج کے حوالے کرنے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔

افراتفری کے باوجود عمران خان لانگ مارچ کو جاری رکھنے پر بضد ہیں، ان کا کہنا ہے کہ حکومت وہی ہتھکنڈے اپنا رہی ہے جو فوجی آمروں نے اپنائے تھے۔ عمران خان نے لوگوں سے کہا کہ وہ خوف کی زنجیریں توڑ کر ان کے ساتھ چلیں۔ ہمیں تصادم کے لیے تیار رہنا چاہیے کیونکہ حکومت یقینی طور پر ہمیں روکنے کے لیے سخت اقدامات کرے گی۔

پی ٹی آئی کے کارکنوں پر کریک ڈاؤن اور ان کے اہل خانہ کو ہراساں کرنے کی مذمت کی جانی چاہیے۔ پرامن احتجاج کرنا ہر شہری کا حق ہے۔ یہاں تک کہ ریلیوں اور عوامی اجتماعات کے انعقاد کے پروٹوکول کے بارے میں سپریم کورٹ کا حکم ہے۔ تاہم، یہ واضح ہے کہ حکومت نے مظاہرین سے آہنی ہاتھو ں سے نمٹنے کا فیصلہ کیا ہے۔

پی ٹی آئی ایک مشکل ترین امتحان کا سامنا کر رہی ہے لیکن اس طرح کے حالات ان کے لئے نئے نہیں ہیں، اس سے قبل بھی عمران خان نے مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے خلاف بھرپور مہم چلائی۔ اس بار اس کے تصادم سے بچنے کا امکان نہیں ہے اور مزید افراتفری پھیلے گی۔ پی ٹی آئی اس بات کو یقینی بنائے کہ وہ قانون کو اپنے ہاتھ میں نہ لے جبکہ ن لیگ کو اوچھے ہتھکنڈوں سے گریز کرنا چاہیے۔

سوال یہ ہے کہ کیا لانگ مارچ مطلوبہ نتائج حاصل کرے گا؟ دونوں فریق اپنے فنانسرز کے تعاون کے بغیر ہیں جو ممکنہ طور پر ‘غیر جانبدار’ ہیں۔ اس لیے قوم کو ایک اور شو ڈاؤن کے لیے تیار رہنا چاہیے۔