پاکستان میں بلوچستان لبریشن آرمی کی دہشت گردی اور اسٹاک مارکیٹ حملے سے تعلق

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

پاکستان میں بلوچستان لبریشن آرمی کی دہشت گردی اور اسٹاک مارکیٹ حملے سے تعلق
پاکستان میں بلوچستان لبریشن آرمی کی دہشت گردی اور اسٹاک مارکیٹ حملے سے تعلق

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

بلوچستان لبریشن آرمی جسے مختصراً بی ایل اے بھی کہا جاتا ہے، پاکستان کے رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے بلوچستان میں ایک سرگرم غیر قانونی تنظیم ہے جو اپنے وطن دشمن عزائم کی تکمیل کیلئے مسلح جدوجہد پر یقین رکھتی ہے۔

گزشتہ روز پاکستان اسٹاک ایکسچینج پر حملہ ہوا تو بعض سوشل میڈیا صارفین نے اسے بلوچستان لبریشن آرمی سے جوڑنے کی کوشش کی، تاہم آزاد ذرائع سے اِس خبر کی کوئی تصدیق نہ ہوسکی۔ آج ہم بلوچستان لبریشن آرمی کے اغراض و مقاصد، وطن دشمن سرگرمیوں اور دہشت گرد تنظیم پر  اہم سوالات کے جوابات تلاش کریں گے۔

بلوچستان لبریشن آرمی کیا ہے؟

جیسا کہ نام سے ہی ظاہر ہے کہ بی ایل اے  بلوچستان میں علیحدگی پسند تحریک کا نام ہے جو ایک گوریلا تنظیم کی حیثیت سے صوبے کو ملک سے الگ کرنا چاہتی ہے جس کا مقصد قومی وحدت کو پارہ پارہ کرنا ہے۔

اگر ہم حکومتِ پاکستان کے مؤقف کی بات کریں تو اعلیٰ سرکاری عہدوں پر فائز سیاسی رہنماؤں کے مطابق بلوچستان لبریشن آرمی بلوچ عوام کے اندر سے نہیں اُٹھی بلکہ یہ ہمسایہ ملک بھارت کی سازشوں کا نتیجہ ہے۔

بی ایل اے کی تاریخ

پہلی بار بلوچستان لبریشن آرمی کا نام 70ء کی دہائی میں اُس وقت سننے میں آیا جب مشرقی پاکستان ہم سے جدا ہوچکا تھا اور بلوچستان کے قومیت پرستوں نے بھی ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھا لیے، تاہم ان کی تعداد اتنی زیادہ نہیں تھی کہ ریاست سے مقابلہ کیاجاسکتا۔

بعد ازاں ضیاء الحق نے ملک کے سربراہ کی حیثیت سے بلوچ قوم پرستوں سے مذاکرات کیے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بی ایل اے پس منظر میں چلی گئی اور پھر یہ لوگ 30 سال بعد یعنی سن 2000ء میں منظرِ عام پر آئے جب سابق آرمی چیف اور صدر پرویز مشرف کا دورِ اقتدار شروع ہوچکا تھا۔

جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور میں بلوچ قوم پرستوں کو نئی مصیبت کا سامنا کرنا پڑا۔ بلوچستان ہائی کورٹ کے جج جسٹس نواز مری کو قتل کردیا گیا۔ قتل کا الزام قوم پرست رہنما نواب خیر بخش مری پر لگایا گیا جنہیں جلد گرفتار کر لیا گیا۔

جب قوم پرست رہنما گرفتار ہوئے تو بی ایل اے ایک بار پھر منظرِ عام پر آگئی۔ انہوں نے بلوچستان کے مختلف علاقوں میں کھلم کھلا دہشت گردی اور سرکاری تنصیبات پر حملے شروع کردئیے۔ تشویشناک بات یہ تھی کہ جوں جوں وقت گزرتا گیا، بی ایل اے کی دہشت گردی بڑھتی چلی گئی۔ 

منظم دہشت گردی

بلوچستان لبریشن آرمی ابتدا ہی سے بلوچستان کے علاقے سوئی میں گیس کی لائنیں بم دھماکہ کرکے اڑانے اور ملکی ایندھن بڑے پیمانے پر ضائع کرنے کے ساتھ ساتھ پولیس اور فوج پر حملوں میں بھی ملوث رہی ہے۔

لبریشن آرمی نے غیر مقامی افراد پر بھی حملے کیے جبکہ میر بالاچ مری کی قیادت میں سن 2008ء تک بی ایل اے بے شمار اموات اور پاک فوج سمیت سیکورٹی فورسز اہلکاروں کی شہادت کا باعث بنی۔

میر بالاچ مری  کون؟

ہم نے اوپر ذکر کیا کہ میر بالاچ مری بلوچستان لبریشن آرمی کے پہلے سربراہ رہے اور یہ 2008ء میں انتہائی پراسرار حالات کے تحت ہلاک ہوئے۔

دہشت گردی کے ساتھ ساتھ میر بالاچ مری کا سیاست سے بھی گہرا تعلق رہا اور وہ بلوچستان سے رکنِ اسمبلی بھی منتخب ہوئے ، تاہم سیاست کی جگہ جب بلوچستان لبریشن آرمی نے لی تو حکومت نے انہیں مطلوب افراد کی فہرست میں شامل کر لیا۔

میر بالاچ مری کو روپے پیسے کی کوئی کمی نہیں تھی۔ 17 جنوری سن 1965ء میں میر بالاچ مری کوئٹہ میں پیدا ہوئے، ابتدائی تعلیم کے بعد روسی دارالحکومت ماسکو چلے گئے۔ سول انجینئر بننے کے بعد کئی سال لندن میں مقیم بھی رہے۔

صرف میر بالاچ مری ہی نہیں، ان کے والد نواب خیر بخش مری بھی زندگی بھر قوم پرست اور سوشلسٹ نظریات کے حامی رہے۔ لندن سے ہی انہوں نے کاغذاتِ نامزدگی جمع کرادئیے تھے۔

جب میر بالاچ مری نے اسمبلی میں حلف لیتے وقت پاکستان کی بجائے بلوچستان سے وفاداری کا نعرہ لگایا تو حکومتی زعماء کا ماتھا ٹھنکا۔ حکومت نے انہیں مسلم لیگ (ق) میں شامل ہو کر وزیر بننے کی پیشکش کی، لیکن انہوں نے انکار کیا۔

بعد ازاں ان کے پرانے مقدمات تازہ کردئیے گئے جس کو مدِ نظر رکھتے ہوئے میر بالاچ مری روپوش ہو گئے اور پھر کبھی سیاست کے ایوانوں میں نظر نہ آئے۔ بلوچستان لبریشن آرمی اسی دور میں ایک دہشت گرد تنظیم بن کر ابھری۔ 

بی ایل اے سربراہ کی پراسرار ہلاکت

میر بالاچ مری کے اہلِ خانہ کے مطابق سن 2008ء میں بلوچستان کے شہر نوشکی کے قریب سرلچ کے مقام پر سیکورٹی فورسز سے جھڑپ ہوئی جس میں بی ایل اے کے سربراہ کو ہلاک کردیا گیا، تاہم حکومت نے اس ہلاکت کاکوئی اعتراف نہیں کیا۔

دوسری جانب یہ قیاس آرائیاں بھی کی گئیں کہ دو قبائلی دھڑے آپس میں ذاتی دشمنی اور عناد کے باعث لڑ پڑے جن کے درمیان میر بالاچ مری ہلاک ہو گئے۔

بالاچ مری کے بعد اسلم بلوچ

بالاچ مری جب ہلاک ہوئے تو بی ایل اے کی سربراہی کی ذمہ داری اسلم بلوچ نے قبول کی۔ اسلم بلوچ کا دور بالاچ مری سے بھی زیادہ خطرناک قرار پایا کیونکہ انہوں نے خودکش حملے شروع کردئیے۔

بی ایل اے کے دہشت گرد مختلف سرکاری تنصیبات کو دھماکوں سے اڑاتے رہے۔ سرکاری دفاتر پر حملے کرتے رہے اور خود کش حملوں کے دوران خود بھی ہلاک ہوتے رہے۔

دہشت گردی کے واقعات

سی پیک منصوبوں کے خلاف بی ایل اے نے پاکستان میں موجود چینی تنصیبات کو نشانہ بنایا۔ اگست 2018ء میں بی ایل اے نے چاغی کے ہیڈکوارٹر کے قریب خود کش حملے کی ذمہ داری قبول کی جو اسلم بلوچ کے بیٹے نے کیا۔

خودکش حملے کے نتیجے میں چینی انجینئرز اور منصوبے پر کام کرنے والے دیگر افراد کی ایک بس کو نشانہ بنایا گیا۔ کالعدم بی ایل اے نے کراچی میں چینی قونصل خانے پر حملے کی ذمہ داری بھی 2018ء میں قبول کی۔

اسلم بلوچ کے بعد بشیر زیب

بعد ازاں اسلم بلوچ افغانستان کے علاقے قندھار میں خودکش حملے میں ہلاک ہوئے تو بی ایل اے کی قیادت بشیر زیب کے پاس آ گئی جس کے بعد گوادر میں پرل کانٹیننٹل ہوٹل کو نشانہ بنایا گیا۔

واضح رہے کہ بی ایل اے دہشت گردی میں اکیلی نہیں ہے، بلوچستان لبریشن فرنٹ اور بلوچستان ری پبلکن گاڑدز بھی سی پیک سمیت دیگر سرکاری تنظیموں کو نشانہ بنانے میں پیش پیش رہتے ہیں۔ 

اسٹاک ایکسچینج پر حملہ اور بی ایل اے

کراچی اسٹاک ایکسچینج پر گزشتہ روز حملہ ہوا جس میں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے چاروں حملہ آوروں کو جہنم واصل کردیا، تاہم آج یہ خبر آئی ہے کہ اسٹاک ایکسچینج اور چینی سفارت خانے پر ہونے والے حملے میں مماثلت پائی جاتی ہے۔

عین ممکن ہے کہ بی ایل اے اسٹاک ایکسچینج پر حملے میں ملوث نہ ہو، تاہم سوشل میڈیا صارفین کے درمیان ہونے والی بحث اور دہشت گردی کے طریقہ کار میں مماثلت کوئی اور ہی داستان بیان کرتی ہے جس پر تحقیقاتی ادارے پہلے ہی کام شروع کرچکے ہیں۔ 

Related Posts