اسلام آباد: وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی یونیورسٹی میں سیکیورٹی گارڈ کے قتل سے یونیورسٹی میں خوف و ہراس پھیل گیا۔ نوجوان سیکیورٹی گارڈ کو مبینہ طور پر گولی مار کر قتل کیا گیا ہے۔
کامسیٹس یونیورسٹی سے 18 سالہ سیکیورٹی گارڈ کی لاش برآمد ہوئی جس کے بعد فوری طور پر پولیس کو اطلاع کی گئی۔ یونیورسٹی انتظامیہ نے پولیس کو بتایا کہ مرحوم سیکیورٹی گارڈ کا تعلق بن پکا کے علاقے سے ہے جبکہ وہ نجی سیکیورٹی کمپنی سے تعلق رکھتا تھا۔
علاقہ پولیس کا کہنا ہے کہ محمد راسب نامی سیکیورٹی گارڈ یونیورسٹی کی پوسٹ نمبر 6 پر تعینات تھا جب اسے قتل کیا گیا۔ پولیس کی ابتدائی رپورٹ کے مطابق سیکیورٹی گارڈ کے جسم پر گولی کا نشان پایا گیا۔پولیس نے سیکیورٹی گارڈ کی رائفل اور لاش قبضے میں لے کر تفتیش شروع کردی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: نامعلوم ملزمان پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما تاج حیدر کے گھر چوری کی واردات کے بعد فرار
پولیس کا کہنا ہے کہ یونیورسٹی سے چوری یا ڈاکے کے کوئی شواہد نہیں ملے۔ اندازے کے مطابق نوجوان سیکیورٹی گارڈ کو ذاتی دشمنی کی بناء پر قتل کیا گیا۔ قتل کی وجہ اور آلۂ قتل برآمد ہونے پر ہی واقعے کے ذمہ داران کا تعین کیا جاسکے گا۔
ابتدائی قانونی کارروائی کے دوران موت کی درست وجہ کے تعین کے لیے گارڈ کی لاش کو پوسٹ مارٹم کے لیے بھیج دیا گیا ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ واقعے کے ذمہ داران کو جلد گرفتار کیا جائے گا۔
یاد رہے کہ اس سے قبل مبینہ طور پر بھتہ نہ دینے کی پاداش میں بلدیہ فیکٹری میں259 افراد کے زندہ جلائے جانے کے اندوہناک واقعے کو 7 سال مکمل ہو گئے لیکن آج تک زندہ جل جانے والوں کے لواحقین کو انصاف نہیں مل سکا۔
بلدیہ فیکٹری کیس اس وقت کراچی کی انسدادِ دہشت گردی کی عدالت میں زیر التوا ہے جبکہ واقعے کے مجرموں کو آج تک کیفر کردار تک نہیں پہنچایا جاسکا۔ بلدیہ فیکٹری کی جے آئی ٹی اور ٹریبونلز بھی ملزمان کو سزا دلوانے میں کامیاب نہ ہوسکے۔
مزید پڑھیں: بلدیہ فیکٹری میں 259 افراد زندہ جلائے جانے کے سات سال بعد بھی متاثرین کو انصاف نہ مل سکا