توشہ خانہ اسکینڈل کیا ہے؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

توشہ خانہ اسکینڈل کیا ہے؟
توشہ خانہ اسکینڈل کیا ہے؟

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

لفظ ‘توشہ خانہ’ آج کل خبروں کی زینت بنا ہوا ہے، وزیر اعظم شہباز شریف نے الزام عائد کیا ہے کہ عمران خان نے دبئی میں 140 ملین روپے کے سرکاری تحائف فروخت کیے تھے۔

بیرونی ممالک کے حکمرانوں کی طرف سے عمران خان کو پیش کی گئی اشیاء میں مبینہ طور پر سعودی عرب کے ولی عہد کی جانب سے دی گئی گھڑی بھی شامل تھی۔ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کو غیر ملکی سربراہان مملکت سے ملنے والے تحائف اور توشہ خانہ میں جمع کرائے گئے تحائف کی تفصیلات بتانے سے گریز کر رہی ہے۔

وزیر اعظم شہباز کے الزامات:

سینئر صحافیوں سے بات چیت کے دوران وزیراعظم شہباز شریف نے پی ٹی آئی رہنما اور سابق وزیراعظم خان پر غیر ملکی دوروں کے دوران ملنے والے تحائف فروخت کرنے کا الزام لگایا۔

انہوں نے الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ قیمتی سرکاری تحائف میں ہیروں کے زیورات، کنگن اور گھڑیاں شامل ہیں، شہباز شریف کے مطابق ”میں تصدیق کر سکتا ہوں کہ عمران خان نے دبئی کے توشہ خانہ سے 140 ملین روپے کے سرکاری تحائف فروخت کیے،”

وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا کہ انہیں بھی ایک بار گھڑی ملی تھی لیکن توشہ خانہ میں جمع کرا دی تھی، انہوں نے مزید کہا کہ انہیں ”کچھ چھپانے کی ضرورت نہیں“۔

صحافی کے سوال کا جواب دیتے ہوئے وزیراعظم نے وضاحت کی کہ قواعد کے تحت کسی دوسری ریاست یا ملک سے ملنے والے تحائف کو توشہ خانہ میں جمع کرایا جاتا ہے، یہ کہتے ہوئے کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) تحفے کی قیمت کا تعین کرتا ہے۔ وزیراعظم نے مزید کہا کہ نیلامی کی صورت میں، اسٹیٹ بینک اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو تحفے کی دوبارہ قدر معلوم کرتے ہیں۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق عمران خان کو اپنے ساڑھے تین سالہ دور میں عالمی رہنماؤں کی جانب سے 140 ملین روپے سے زائد کے 58 تحائف موصول ہوئے اور ان سب کو انہوں نے معمولی رقم ادا کرکے یا بغیر کسی معاوضے کے اپنے پاس رکھا۔

پی ٹی آئی کا ردعمل:

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنماء اس حوالے سے متضاد بیانات دیتے نظر آتے ہیں، جب کہ ڈاکٹر شہباز گل نے دعویٰ کیا ہے کہ سابق وزیراعظم نے کوئی تحفہ فروخت نہیں کیا، فواد چوہدری اس الزام کی تصدیق کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں کہ اس میں کچھ غلط نہیں تھا۔

فواد چوہدری کے مطابق اگر اس وقت کے وزیر اعظم نے حکومت سے خریدی ہوئی گھڑی بیچ دی تو اس میں کیا جرم ہے؟انہوں نے کہا کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ گھڑی کی قیمت 50 ملین ہے یا 100 ملین، اگر یہ میری ہے اور میں نے بیچی ہے تو کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ وزیر اعظم شہباز کا الزام کیا ہے۔

فواد چوہدری نے کہا کہ شہباز شریف کنفیوژن کا شکار ہیں اور وہ فیصلہ نہیں کر پا رہے کہ عمران خان پر الزامات کیسے لگائیں؟، فواد چوہدری نے وزیر اعظم شہباز شریف کو مشورہ دیا کہ وہ قومی مسائل پر توجہ دیں۔

قانون کیا ہے؟

توشہ خانہ کابینہ ڈویژن کے انتظامی کنٹرول کے تحت ایک سرکاری محکمہ ہے، جو 1974 میں قائم کیا گیا تھا، جو ہمارے حکمرانوں، اراکین پارلیمنٹ، بیوروکریٹس اور دیگر سرکاری افسران کو دیگر سربراہان حکومت، غیر ملکی معززین وغیرہ کی طرف سے دیے گئے قیمتی تحائف کو ذخیرہ کرنے کے لیے قائم کیا گیا تھا، چاہے وہ خیر سگالی کے طور پرہی کیوں نہ ہوں۔

جو لوگ تحفہ اپنے پاس رکھنا چاہتے ہیں وہ قیمت کی ایک مخصوص رقم ادا کر کے ایسا کر سکتے ہیں، دسمبر 2018 میں قوانین پر نظر ثانی کی گئی تھی جس کے تحت ان تحائف کو برقرار رکھنے کے لیے 50 فیصد ادائیگی کی ضرورت تھی۔ جو محفوظ نہیں ہیں وہ خزانے میں جمع رہتے ہیں یا انہیں نیلام کیا جا سکتا ہے اور فروخت کے ذریعے حاصل ہونے والی رقم سرکاری خزانے میں منتقل کر دی جاتی ہے۔

کیا کرنا چاہیے؟

محکمہ توشہ خانہ جس طرح سے چلایا جا رہا ہے وہ صرف بدعنوانی اور ایک اور سرکاری سہولت کے غلط استعمال کی حوصلہ افزائی کررہا ہے۔

دریں اثنا، تحریک انصاف کی حکومت نے غیر ضروری طور پر غم و غصے کا مظاہرہ کیا جب عمران خان کو 2018 سے پیش کیے گئے تحائف کی تفصیلات فراہم کرنے کے لیے کہا گیا، اس ناقابل فہم دلیل کا سہارا لیا گیا کہ اس طرح کے انکشاف سے بین الاقوامی تعلقات خطرے میں پڑ جائیں گے۔

معلومات کو پبلک ڈومین سے باہر رکھنے پر ان کے اصرار نے فطری طور پر قیاس آرائیوں کو جنم دیا کہ توشہ خانہ کا انتظام کس طرح کیا جا رہا تھا۔

پی ٹی آئی کو تحقیقات کے ساتھ مکمل تعاون کرنا چاہیے، جس میں یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ تحائف کی قیمت کا تعین عمران خان اور شاید دوسروں کو کم نرخوں پر فروخت کرنے سے پہلے کیا گیا تھا۔

Related Posts