اسٹیٹ بینک نے وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کیخلاف سپریم کورٹ سے کیا اپیل کی؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹس میں 4 ارب 60 کروڑ ڈالر جمع کرائے گئے
روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹس میں 4 ارب 60 کروڑ ڈالر جمع کرائے گئے

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

کراچی: اسٹیٹ بینک نے وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کیخلاف سپریم کورٹ سے اپیل کی ہے۔

تفصیلات کے مطابق وفاقی شرعی عدالت کی جانب سے 28 اپریل کو سود کیخلاف آنے والے تاریخ ساز فیصلے پر عمل درآمد نہ کرنے اور چار بینکوں کی جانب سے اس فیصلے کی بعض شقوں کیخلاف اور اس میں ترمیم کیلئے سپریم کورٹ سے رجوع کرنے پر ملک بھر میں بڑے پیمانے پر احتجاج ہورہا ہے اور اس احتجاج میں شامل علمائے کرام، عوام الناس سمیت صنعتی اداروں کے مالکان بھی شامل ہیں، جو 4 بینکوں سے اپنے اکاونٹ ختم کرکے احتجاج کا سلسلہ بڑھاتے جارہے ہیں۔

تاہم، اسٹیٹ بینک کی جانب سے سپریم کورٹ سے رجوع کیا گیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ شرعی عدالت کے فیصلے کی بنیادی روح قابل تحسین ہے، تاہم اس میں کچھ تضادات ہیں، جن پر معزز سپریم کورٹ سے توضیح مطلوب ہے، لہٰذا اس فیصلہ کو چیلنج کیا جارہا ہے۔

خط کے مطابق اسٹیٹ بینک کی ذمہ داریوں میں شامل ہے کہ ملک کے مالیاتی نظام کو کنٹرول کرے اور اُس نے ملک میں اسلامی بینکاری کے فروغ کے لیے اقدامات کیے ہیں، جس کی بدولت پانچ مکمل اسلامی بینکوں سمیت 17 کنوینشنل بینکوں کی ربا فری اسلامی برانچز کام کررہی ہیں، اسٹیٹ بینک پوری دنیا میں واحد ادارہ ہے جس نے اس حوالے سے اقدامات کیے ہیں۔

اس حوالے سے کیے جانے والے اقدامات اور آئندہ کے لائحہ عمل پر مبنی رپورٹ تیار کی گئی ہے، جس کا عنوان ’’اسلامی بینکاری انڈسٹری کے لیے منصوبہ بندی ۲۰۲۵- ۲۰۲۱ء‘‘ رکھا گیا ہے۔ اس لیے معزز وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے حوالے سے حسب ذیل پہلوؤں پر توضیح و رہنمائی درکار ہے۔

معزز وفاقی شرعی عدالت نے اپنے فیصلے میں عالمی قرضوں اور سرمایہ کاری کو شریعہ کمپلائنس طریقوں، جیسا کہ صکوک پر منتقل کرنے کا حکم نامہ جاری کیا ہے، حالانکہ بین الاقوامی سرمایہ کاری اور قرضے ریاست کے اختیار میں نہیں ہوتے اور نہ ہی بیرونی سرمایہ کاروں کو کسی ایک مخصوص طریقے پر قائل کیا جاسکتا ہے، یہ باہمی مفاہمت و مذاکرات کا نتیجہ ہوتے ہیں۔

مزید برآں یہ پاکستان کے کسی قانون کے تحت نہیں ہوتے جبکہ معزز وفاقی شرعی عدالت کو دستور پاکستان کے آرٹیکلز ۲۰۳ ڈی اور ۲۰۳ بی (سی) کے تحت ملک میں نافذ العمل قانون/ قوانین کو قرآن و سنت کے موافق ہونے یا نہ ہونے کا ہی دائرہ اختیار سماعت حاصل ہے۔ (لہٰذا عدالت کو ان عالمی قرضوں پر فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں) ہے ۔

وفاقی شرعی عدالت نے ایک عمومی حکم جاری کیا ہے کہ پوری معیشت کو پانچ سال کے اندر ربا سے پاک کیا جائے۔ عدالت کو آئین کے تحت ایسا عمومی حکمنامہ جاری کرنے کا اختیار نہیں ہے کیونکہ عدالت کا دائرہ اختیار قوانین کے بارے میں ہے، یہ عمومی حکم نامہ کسی مخصوص قانون کے بارے میں نہیں ہے، مزید یہ کہ پوری معیشت کو پانچ سال میں سود سے پاک کرنا ناممکن ہے۔ ابھی تک جو اسلامی بینکاری کا نظام اپنایا گیا ہے اُس میں بیس سال لگے ہیں، لہٰذا ساری معیشت کو سود سے پاک کرنے میں پانچ گنا زیادہ وقت درکار ہوگا، البتہ حکومت پاکستان، اسٹیٹ بینک اور دیگر سٹیک ہولڈرز ملکی معیشت کو سود سے پاک کرنے کے لیے مسلسل کوشاں ہیں۔

معزز وفاقی شرعی عدالت نے اپنے فیصلے میں تدریج کے شرعی اصول کا ذکر کرتے ہوئے معیشت کو سود سے پاک کرنے کے لیے پانچ سال کی مہلت دی ہے، یہ خالصتاً عدالت کا اپنا تخمینہ/ اندازہ ہے، جبکہ فی الحقیقت اس کام کے لیے زیادہ وقت درکار ہے۔

قوانین کے غیر مؤثر ہونے کے لیے (۱؍ جون ۲۰۲۲ء) کی تاریخ دی گئی ہے، یہ بھی آئین سے متصادم ہے، کیونکہ ان قوانین کا غیر مؤثر ہونا وفاق یا کسی صوبائی حکومت کی طرف سے اپیل نہ کرنے کی شرط سے مشروط ہے اور آئین وفاقی یا کسی صوبائی حکومت کو چھ ماہ تک اپیل کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ لہٰذا قوانین کے غیر مؤثر ہونے کی تاریخ ۲۷؍ اکتوبر ۲۰۲۲ء بنتی ہے، البتہ وفاقی اور صوبائی حکومت کے علاوہ دیگر جیسا کہ اسٹیٹ بینک وغیرہ کے لیے اپیل کی مدت ساٹھ دن ہے۔ جن قوانین کو اسلامی احکام سے متصادم قرار دیا گیا ہے، اُن میں ترامیم کے لیے ۳۱؍ دسمبر ۲۰۲۲ء کی تاریخ دی گئی ہے، جبکہ قانون ساز اداروں کو کسی تاریخ کا پابند نہیں کیا جاسکتا، قانون ساز اداروں کو ایسا وقت دینا آئین سے ماورا اور متصادم ہے۔

معزز سپریم کورٹ نے ۲۰۰۲ء میں فیصلہ واپس کرتے ہوئے (remand) کرنسی کی قدر میں گراوٹ کے لیے انڈیکسسیشن کے عمل پر رائے دینے کی ہدایت کی تھی، لیکن وفاقی شرعی عدالت نے انڈیکسسیشن پر رائے دینے سے اجتناب کرتے ہوئے انڈیکسسیشن سے متعلقہ قوانین کو اسلامی احکام سے متصادم قرار دے دیا ہے، اس حوالے سے معزز سپریم کورٹ کی واضح رہنمائی درکار ہے۔

بیکنگ کمپنیز قواعد ۱۹۶۳ء کے قاعدہ نمبر (۹) کو کالعدم کرنے پر معزز سپریم کورٹ کی رہنمائی مطلوب ہے، کیونکہ یہ قاعدہ اندورنِ ملک پاکستان میں سود کو جواز فراہم نہیں کرتا بلکہ بیرون ملک سے متعلق ہیں۔

سیونگ سرٹیفکیٹس اور ڈیفنس سیونگ سرٹیفکیٹس سے متعلق متعدد قواعد کو اسلامی احکام سے متصادم قرار دیتے ہوئے، ان سرٹیفکیٹس کو متبادل اسلامی طرق تمویل جیسا کہ صکوک وغیرہ پر منتقل کرنے کا حکم دیا گیا ہے، یہ عملی طورپر بہت مشکل ہے، لہٰذا معزز سپریم کورٹ اس حوالے سے واضح طورپر رہنمائی کرے۔ سپریم کورٹ نے 2002 میں فیصلہ واپس (remand) کرتے ہوئے دستور پاکستان کے آرٹیکل ۲۹، ۳۰ (۲)، ۳۸ (ایف)، ۸۱ (سی) اور ۱۲۱ (سی) کے اثرات سے متعلق معزز وفاقی شرعی عدالت کو فیصلہ کرنے کا کہا تھا، لیکن موجودہ فیصلہ میں اس حوالے سے احکام مذکور نہیں ہیں ۔

لہٰذا اپیل میں درج بالا امور کو پیش نظر رکھتے ہوئے معزز وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے میں ترامیم کی جائیں۔

Related Posts