فلسطین کی بہادر دلہن کی کہانی

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

دشمن نے گھر مسمار کر دیا، مگر گھر کے مکینوں کا حوصلہ، جرات اور جذبہ مسمار نہ کر سکا، فلسطینی دلہن نے صہیونی ریاست کی جانب سے باپ کا گھر مسمار کرنے پر تباہ شدہ گھر کے ملبے پر اپنی شادی اور رخصتی کی تقریب منعقد کرکے بہادری اور حوصلے کی انوکھی مثال قائم کر دی۔

عرب میڈیا پر مقبوضہ بیت المقدس شہر کے مشرقی علاقے کے قصبے سلوان کی بہادر لڑکی ربیحہ الرجبی کی ہمت اور حوصلے کی داد و ستائش کی جا رہی ہے۔ ربیحہ الرجبی کا قصبہ سلوان آئے دن اسرائیلی انتظامیہ کی جانب سے مکانات کی مسماری جیسی ظالمانہ کارروائیوں کیلئے انٹرنیشنل میڈیا کی شہ سرخیوں میں آتا ہے۔

دنیا بھر کی اپنے والدین کی لاڈلی شہزادیوں کی طرح سلوان قصبے کے الرجبی خاندان کی بیٹی ربیحہ کا بھی خواب تھا کہ وہ اپنے آبائی گھر سے پیا دیس سدھارے گی، کچھ عرصہ پہلے ہی تو بڑے چاؤ سے ان کی منگنی کی رسم ادا کی گئی تھی، وہ پر جوش تھی کہ ایک دن اس کا بڑا دن بھی بڑی خوشیوں کے جلوے میں آئے گا، مگر تقدیر کی تدبیر کچھ اور انداز میں ترتیب پا رہی تھی۔ اس کی زندگی کی سب سے بڑی خوشی آنی ہی تھی، مگر قدرت نے اس مقصد کیلئے ہمت و حوصلے کی ڈولی اس کیلئے تیار کر رکھی تھی، چنانچہ گزشتہ مہینے کے اواخر میں ایک دن جب ربیحہ اپنے گھر کی طرف بڑھنے والے ظلم و زیادتی کے طوفان سے بے خبر اہل خانہ کے ہمراہ گھر پر موجود تھی، اچانک ہی باہر فوج کی آمد اور ایمرجنسی صورتحال کا شور و غل سنائی دیا۔

کچھ ہی دیر میں اسرائیلی فوجی گھر کا دروازہ توڑ کر اندر داخل ہوئے۔ جدید اسلحہ سے لیس مرد فوجیوں کے ہمراہ اتنی ہی سفاک اور بے رحم صہیونی خواتین فوجی بھی تھیں۔ جنہوں نے اسلحہ کی نوک پر سب کو گھر سے نکال باہر کیا اور آنا فانا بسا بسایا گھر مسمار کر کے مٹی اور پتھروں کے ڈھیر میں بدل دیا۔

اس دلدوز واقعہ جو فلسطین کے ہر قصبے اورہر مظلوم گھرانے کی داستان الم ہے، نے مگر دوسرے اہل فلسطین کی طرح الرجبی خاندان کے حوصلے کو بھی ذرا متاثر نہ کیا۔ دیگر فلسطینیوں کی طرح وہ بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ دشمن چاہے جتنا طاقتور کیوں نہ ہو، وہ چاہے جتنا جبر کیوں نہ کرے، اس حقیقت کو ان کے دل سے نہیں کھرچ سکتا کہ وہی اصل باشندگان زمین ہیں اور وہ غاصب قوت کے مقابلے میں حق پر ہیں۔ یہی احساس نے فلسطین کے ہر بچے، جوان اور بوڑھے کو دنیا کی بے پناہ اسلحہ اور ٹیکنالوجی کی طاقت سے لیس دشمن کے خلاف جذبے کی ایسی طاقت مہیا کر رکھی ہے، جس کے سامنے اسرائیل کا تمام تر تباہ کن اسلحہ بھی ہیچ ہے۔

جذبے کی یہی بے پناہ طاقت ربیحہ الرجبی کے اعصاب اور قُویٰ میں در آئی، اس نے فریاد، آہ و فغان اور بین کے ذریعے اپنی کمزوری کو دشمن پر آشکار کرکے اسے فتح کی مسرت بخشنے کے بجائے اپنی بے بسی کو اپنی طاقت بنایا اور فیصلہ کیا کہ باپ گھر نہ رہا تو کیا ہوا، وہ اس گھر کے ملبے پر اپنی زندگی کی سب سے بڑی خوشی یعنی اپنی رخصتی کی تقریب منا کر اسرائیل کو پیغام دے گی کہ طاقت کے ذریعے گھر مسمار کیے جا سکتے ہیں، زمین چھینی جا سکتی ہے، مگرجذبے کو توڑا جا سکتا ہے اور نہ کسی کے حوصلے کو شکار کیا جا سکتا ہے اور جذبہ توانا اور زندہ ہو، تو تباہی کے ملبے سے نئی تعمیر کھڑی کرنا بالکل بھی نا ممکن نہیں۔ احمد ندیم قاسمی نے بھی یہی کہا ہے ؎

اگر ہے جذبۂ تعمیر زندہ
کھنڈر سے کل جہاں بکھرے پڑے تھے
وہیں سے آج ایواں اٹھ رہے ہیں
جہاں کل زندگی مبہوت سی تھی
وہیں پر آج نغمے گونجتے ہیں

چنانچہ ربیحہ الرجبی نے جارح قوت کی رعونت پر خاک ڈالتے ہوئے بڑے دھوم دھام سے اپنی رخصتی کی تقریب تباہ شدہ گھر کے ملبے پر منعقد کرکے مزاحمت کی تاریخ کا ایک نیا باب رقم کر دیا۔

Related Posts