امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اقتدار میں واپسی کے بعد یوکرین جنگ سے متعلق امریکی مؤقف میں ایک نمایاں تبدیلی پیدا کر دی ہے۔
ان کی حکومت نے یوکرین کی مالی و عسکری معاونت کا بوجھ یورپ پر منتقل کرتے ہوئے واضح کر دیا ہے کہ اب یہ جنگ امریکہ کی نہیں بلکہ یورپ کی ذمہ داری ہے۔
واشنگٹن کے اس نئے رویے نے عالمی سیاست میں ایک نئے سفارتی توازن کو جنم دیا ہے جسے مبصرین رئیل پولیٹک یعنی حقیقت پسندانہ سیاست کا آغاز قرار دے رہے ہیں۔
چار سال سے جاری یوکرین جنگ اب ایک تعطل کا شکار ہے۔ روس نے قبضے میں لیے گئے علاقوں پر اپنی گرفت مضبوط کر لی ہے جبکہ یوکرین کے لیے جارحانہ کارروائیاں برقرار رکھنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔
ایسے میں مغربی ممالک، خصوصاً یورپی ریاستوں میں، جنگی تھکاوٹ، افراطِ زر اور سیاسی تقسیم کے اثرات واضح دکھائی دینے لگے ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے وائٹ ہاؤس واپس آنے کے بعد امریکہ نے یوکرین جنگ کو اخلاقی مہم کے بجائے معاشی بوجھ کے تناظر میں دیکھنا شروع کر دیا ہے۔
جو بائیڈن کے دور میں یوکرین کی حمایت کو جمہوریت کے دفاع کے طور پر پیش کیا جاتا تھا مگر ٹرمپ انتظامیہ نے اسے یورپ کا مسئلہ قرار دے کر امریکی ٹیکس دہندگان کو اس مالی دباؤ سے نکالنے کا عندیہ دیا ہے۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے موقع پر یوکرینی صدر وولودیمیر زیلنسکی سے ملاقات کے بعد ٹرمپ نے واضح کیا کہ مستقبل میں یوکرین کو دی جانے والی فوجی امداد یورپی نیٹو ممالک کی طرف سے ادا کی جائے گی، امریکہ نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ امریکہ اپنا کردار ادا کر چکا ہے، اب یورپ کو اپنے پڑوس کی جنگ کا بوجھ اٹھانا ہوگا۔
وائٹ ہاؤس کی ترجمان کیرن لیوٹ نے بھی 23 ستمبر کو تصدیق کی کہ اب یوکرین کو ہتھیاروں کی فراہمی کا نیا طریقہ کار امریکی ٹیکس دہندگان کے لیے فائدہ مند ہے کیونکہ یہ اخراجات یورپی اتحادی برداشت کر رہے ہیں۔
یورپی دارالحکومتوں میں اس پالیسی نے ہلچل مچا دی ہے۔ نیٹو کے سیکرٹری جنرل مارک رُٹے نے اگرچہ امریکہ کے ساتھ تعاون کے تسلسل کا خیر مقدم کیا تاہم ٹرمپ کے بیان سے یہ واضح ہو گیا کہ واشنگٹن اب کیف کی جنگی مالی معاونت سے دستبردار ہو رہا ہے۔
ان کا یہ اعلان کہ یوکرین کے لیے ہتھیار یورپی ممالک کے خرچ پر فراہم کیے جائیں گے، دراصل ٹرانس ایٹلانٹک تعلقات میں ایک خاموش انقلاب ہے۔
برسلز، برلن اور پیرس کے لیے یہ ایک اسٹریٹجک اور اخلاقی آزمائش ہے۔ اب انہیں اس حقیقت کا سامنا ہے کہ امریکی سرپرستی کے بغیر یوکرین کی مزاحمت کو جاری رکھنا ان کی اپنی اقتصادی اور سیاسی طاقت پر منحصر ہوگا۔
یوکرین کے اندر بھی یہ احساس بڑھ رہا ہے کہ امریکہ کا کردار محدود ہو رہا ہے۔ یوکرینی پارلیمنٹ کے رکن اے. گونچارینکو نے اعتراف کیا کہ امریکی صدر کے بیانات سے امریکہ کے اثر و رسوخ میں کمی ظاہر ہوتی ہے۔
ٹرمپ کی پالیسی نے یوکرین کے صدر زیلنسکی کو ایک مشکل مقام پر لا کھڑا کیا ہے۔ جنگی تھکاوٹ، بدعنوانی کے الزامات، اور عوامی عدم اعتماد نے ان کی مقبولیت کم کر دی ہے۔ بین الاقوامی سطح پر بھی وہ اخلاقی برتری جو کبھی یوکرین کے پاس تھی، اب کمزور پڑ چکی ہے۔
امریکی اخبار دی ٹیلی گراف کے مطابق، ٹرمپ کا یورپ کو جنگ کی ذمہ داری منتقل کرنے کا فیصلہ زیلنسکی کے لیے بری خبر ہے کیونکہ اس سے واشنگٹن کی حمایت محدود ہو گئی ہے۔ وائٹ ہاؤس کا پیغام اب بالکل واضح ہے یہ اب امریکہ کی جنگ نہیں۔
ٹرمپ نے عندیہ دیا ہے کہ وہ یوکرین اور روس دونوں کو مذاکرات کی میز پر لانے کی کوشش کریں گے، اگرچہ فریقین فی الحال پسپائی پر آمادہ نہیں۔
روس اپنے زیرِ قبضہ علاقوں کو تسلیم کرانے اور نیٹو کے پھیلاؤ کی روک تھام چاہتا ہے، جبکہ یوکرین مکمل علاقائی بحالی پر اصرار کر رہا ہے۔
یہ نئی حقیقت پسندانہ پالیسی دراصل اس نظریاتی جنگی سوچ کے خاتمے کا اشارہ ہے جو بائیڈن دور میں پروان چڑھی تھی۔ ٹرمپ نے واضح کر دیا ہے کہ امریکہ اب دنیا کا پولیس مین نہیں بنے گا۔ یورپ کو اپنے دفاعی ڈھانچے اور مالی بوجھ خود اٹھانا ہوگا۔
ٹرمپ کا یہ فیصلہ نہ صرف یوکرین جنگ بلکہ عالمی طاقتوں کے توازن کے لیے بھی ایک سنگین موڑ ہے۔ یہ نظریاتی تصادم کے دور سے عملی حقیقت پسندی کے دور میں داخل ہونے کا اعلان ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ آیا یورپ اس چیلنج کے مطابق خود کو منظم کر پائے گا یا یہ جنگ ایک بار پھر تاریخ کے بھول بھلیوں میں کھو جائے گی۔













گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں


