چین اور اس کے مسلمانوں کی کہانی (دوسری قسط)

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

دوسری جنگ عظیم کے بعد کی دنیا سیاسی ہی نہیں بلکہ جغرافیائی لحاظ سے بھی ایک بہت ہی مختلف دنیا تھی۔ سو سال قبل روس اور جاپان چین میں اتحادی رہے تھے، مگر اب یہ حریف تھے۔ امریکہ و برطانیہ سمیت پورا مغرب بھی سو سال قبل چین میں جاپان کا اتحادی رہا تھا۔ مگر اب یہ دشمن تھے۔

چین ہی میں انیسویں صدی کے دوران مغرب کا اتحادی نظر آنے والا جرمنی اب دو حصوں میں بٹ چکا تھا اور اس کی خواتین برلن میں امریکی و برطانوی فوجیوں کے ریپ کا سامنا کر رہی تھیں۔ جو آسٹریا چین میں فاتحین کی صف میں شامل رہا تھا ، اس کا تازہ نتعارف یہ تھا کہ ہٹلر کا پہلا تھپڑ کھا کر ہی یہ ڈھے گیا تھا اور اب اس کی آزادی امریکہ و برطانیہ کی مرہون منت تھی۔

فرانس امریکہ ہی نہیں برطانیہ کو بھی حقارت کی نظر سے دیکھنے والا ملک بن چکا تھا۔ ایسی حقارت کہ جرمنی کے ساتھ اس نے جنگ بندی کا اپنا الگ معاہدہ کرنا بہتر سمجھا تھا۔ سو سال قبل چین میں “اتحادی” کا سٹیٹس انجوائے کرنے والا روس اب سوویت یونین بن کر پورے مغرب کے لئے ایک ڈراؤنا خواب بنتا جا رہا ۔

چین اور اس کے مسلمانوں کی کہانی (پہلی قسط)

سب سے بڑھ کر یہ دنیا دو بلاکوں میں تقسیم ہوچکی تھی۔ کمیونسٹ بلاک اور کیپٹلسٹ بلاک۔ ایسے میں جب چین آزادی حاصل کرکے کمیونسٹ ملک کے طور پر سامنے آیا تو اسے سو سال تک لوٹنے والے مغرب کو پندرہ سال تو سانپ ہی سونگھا رہا۔ جو سو سال تک اس ملک اور اس کے شہریوں کے ساتھ کیا تھا اس کے ہوتے یہ تو ہونا تھا۔

ماؤزے تنگ نے چین کے سارے دروازے بند کرکے “ہاؤس اِن آرڈر” کرنے کی حکمت عملی اختیار کرلی۔ مگر پاکستان پہلا ملک تھا جس نے نئے چین کو تسلیم کیا تھا۔ اور پی آئی اے پہلی فضائی کمپنی تھی جس کا طیارہ نئے چین کے ایئرپورٹ پر اترا تھا۔

یہ کوئی آسان فیصلہ نہیں تھا۔ یہ اس چین کے ساتھ پہلے ہی روز سے رفاقت کا آغاز تھا جسے مغربی ملکوں نےسو سال تک لوٹ کر بدترین دشمنی نبھائی تھی، اور ظاہر ہے کہ بظاہر خاموش سہی مگر دشمنی ابھی قائم تھی۔ لیکن داد دینی پڑتی ہے اس دور کی پاکستانی قیادت کو جس نے روز اول سے ہی جدید چین سے بے حد قریبی دوستی کی ایسی بنیاد رکھ دی جو آگے چل کر پاکستان کی قومی سلامتی کی ضمانت بن گئی۔

چین اور پاکستان کی یہ رفاقت اتنی پر اعتماد تھی کہ پاکستان نے جدید چین اور مغرب کے مابین پل بننے کا فیصلہ کرلیا۔ چنانچہ یہ پاکستان ہی تھا جس نے بیجنگ اور واشنگٹن کے مابین خفیہ سفارتکاری کرکے امریکہ اور چین کے تعلقات قائم کروائے۔ 1971ء میں ہنری کسنجر خفیہ دورے پر اسلام آباد آئے اور یہاں سے بیجنگ گئے۔ برف پگھلی تو فورا ہی امریکی صدر رچرڈ نکسن بھی بیجنگ جا اترے۔

یوں مغرب کے لئے جدید چین کے دروازے کھل گئے۔ یہی وجہ ہے کہ جب ذوالفقار علی بھٹو چائنا کے دورے پر گئے تو ان کا عوامی استقبال ہوا۔ چینی شہریوں نے ایئرپورٹ اور بیجنگ کی شاہراہوں کے اطراف کھڑے ہوکر انہیں خوش آمدید کہا۔ اور یوں پاکستان وہ پہلا ملک بنا جس سے چین کے سٹریٹیجک تعلقات کا آغاز ہوا۔

جی ہاں ! اس کمیونسٹ چین کا سٹریٹیجک پارٹنر عالم اسلام کا سب سے اہم ملک بنا جس چین پر الزام ہے کہ وہ اپنے مسلمان شہریوں کا قتل عام کر رہا ہے۔ بولنے والے سوچتے ہی نہیں کہ اس کے اس سٹریٹیجک پارٹنر کی سرحد چین سے جڑی ہی “سنکیانک” کے راستے ہے۔ پورا پاک چین بارڈر سنکیانک کی حدود پر مشتمل ہے۔

ذرا ایک لمحے کو تصور کیجئے کہ پاکستان اور چین دونوں ہی کی اس سے بڑی خوش قسمتی کوئی ہوسکتی ہے کہ ان کا بارڈر چین کے مسلم اکثریتی علاقے میں ہے ؟ اگر یہ خوش بختی سمجھنے میں مشکل پیش آرہی ہو تو اقبال کا مصرع یاد کر لیجئے “نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر” اقبال کے مصرع والا کاشغر اسی سنکیانک میں واقع ہے۔ اقبال کو مغرب ہمارے ہاں کے “سگانِ دیسی لبرلز” سے ویسے ہی تو گالیاں نہیں دلوا رہا۔

اگرچہ چین نیل کے ساحل سے لے کر تا بخاکِ کاشغر والے آئیڈیے کو بیلٹ اینڈ روڈ پروجیکٹ کا حصہ بنا چکا جس کا ذکر ہم اگلی قسطوں میں کریں گے لیکن آپ ذرا نیل چھوڑئے اور گوادر کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر کا منظر ہی سامنے رکھ لیں تو سمجھنے میں دیر نہ لگے گی کہ سو سال تک چینیوں کو لوٹنے کھسوٹنے والے مغرب کے پیٹ میں اچانک سنکیانک کا درد کیوں اٹھنے لگا ہے ؟ یہ ہمدردی کی رمق بھی رکھتے تو چینیوں پر سو سال مظالم کرتے ؟

سنکیانک کے زمینی حقائق کی جانب تو ہم اگلی قسط میں آئیں گے۔ فی الحال آپ پاکستان اور چین کے سٹریٹیجک تعلقات اور چین کے لئے سنکیانک کی سٹریٹیجک اہمیت سمجھ لیجئے۔ سنکیانک کے ذریعے چین کی سرحد آٹھ ملکوں سے ملتی ہے۔ یہ ممالک انڈیا، پاکستان، افغانستان، تاجکستان، کرغیزستان، قازقستان، روس اور منگولیا ہیں۔

بھارت کے ساتھ سنکیانک کی جو تھوڑی سی سرحد ملتی ہے وہ براستہ کشمیر ملتی ہے۔ سو یہ پہلا سٹریٹیجک نکتہ ہے۔ دوسرا سٹریٹیجک نکتہ یہ ہے کہ سنکیانک کے ذریعے سب سے طویل سرحد چین کی قازقستان سے ملتی ہے۔ اور ایٹمی چین اپنا سارا یورینیم قازقستان سے ہی خریدتا ہے۔ سنکیانک کی تیسری سٹریٹیجک اہمیت یہ ہے کہ پاکستان کی چین سے ملنے والی سرحد پوری کی پوری سنکیانک سے ہی جڑی ہے۔ اور پاکستان ایسا ملک ہے جو روز اول سے ہی مغربی طاقتوں کی آنکھ میں کھٹکتا ہے۔

کیونکہ دو قومی نظریے پر بننے والا یہ ملک بظاہر ان کے غلام والا رول پلے کرتا ہے مگر اسی غلامی میں ان کے ساتھ بڑی وارداتیں ڈال جاتا ہے۔ افغان جہاد کی آڑ میں ایٹمی ملک بن کر ابھر آنا اوروار آن ٹیرر اس کی سب سے بڑی مثالیں ہیں۔ امریکہ رو رو تھک گیا کہ افغانستان میں اس کی ذلت کا ذمہ دار پاکستان ہے۔ بظاہر ہمارے ساتھ تھا مگر اندر سے طالبان کے ساتھ تھا۔ اور اب تو ہم طالبان سے اپنا تعلق اوپن بھی کرچکے۔

اسی پاکستان کی سرحد اس ایران سے بھی ملتی ہے جو مغرب کے لئے چالیس سال سے درد سر ہے۔ اور اب یہ چین کا دوسرا سٹریٹیجک پارٹنر بھی بننے جا رہا ہے۔ اور ایران کی سرحد اس ترکی سے ملتی ہے جو طیب اردگان کے دور میں معاشی و عسکری طاقت کے طور پر ہی نہیں ابھر رہا بلکہ یہ اردگان والا ترکی امریکہ اور یورپ دونوں کو اس کے باوجود ذلیل کرنے کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا کہ یہ خودہے بھی ایک نیٹو ملک۔ اور یہ تینوں ممالک یعنی پاکستان، ایران اور ترکی چائنا کی طویل المدت حکمت عملی میں بے پناہ اہمیت رکھتے ہیں۔

بیجنگ سے روانہ ہونے والی کار خنجراب بارڈر سے براستہ پاکستان، ایران و ترکی سیدھا یورپ میں داخلے کا امکان رکھتی ہے۔ سو وہ ممالک جو چین کو سو سال تک لوٹتے رہے ہیں، اس پر قابض رہے ہیں، اور اس کی قومی خود مختاری کو پامال کرتے رہے ہیں، سوچتے ہیں کہ اگر کسی طرح سنکیانک کو چین سے الگ کردیا جائے تو چین کی سرحد سات ملکوں سے کٹ جائے گی۔

نہ تو چین قازقستان سے یورنیم حاصل کر پائے گا،نہ ہی اس کی ویٹو پاور پر پھدکنے والا پاکستان مزید پھدک سکے گا اور نہ ہی روڈ اینڈ بیلٹ کا خواب شرمندہ تعبیر ہوسکے گا۔ پیچھے ایک ایسا چین رہ جائے گا جس سے روس کے علاوہ صرف بھارت کی سرحد ملتی ہوگی سو اسے براستہ بھارت و ساؤتھ چائنا سی دبوچنا آسان ہوجائے گا۔ (جاری ہے)

Related Posts