چین اور اس کے مسلمانوں کی کہانی

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

 ہم شاید اس کرۂ ارض کی ایسی واحد قوم ہیں جو خود اپنے بارے میں بھی “حقیقت” اس دعوے کو مانتے ہیں کہ جو ہمارا دوست نما دشمن ہمارے متعلق کرے۔ کوئی چیز بی بی سی یا وائس آف امریکہ میں شائع ہوجائے تو ہم اسے فورا یہ کہہ کر قبول کر لیتے ہیں کہ یہ تو ایک “مستند” عالمی ادارے کی رپورٹ ہے۔

ہم یہ سوچنے کی زحمت ہی گوارا نہیں کرتے کہ یہ ادارے کوئی بین الاقوامی مشترکہ اثاثے نہیں بلکہ برطانیہ اور امریکہ کی وزارت خارجہ کے ذیلی ادارے ہیں جو انہی ممالک کے مفادات کے لئے تشکیل دئے گئے ہیں۔ اور یہ ہمیشہ ایسے ہی مواقع پر کچھ خاص قسم کا منظم پروپیگنڈہ شروع کرتے ہیں جب ان کے ملک کا کسی ملک سے کوئی تنازعہ چھڑ جائے۔

جب ہم اپنے متعلق بھی ان کی گمراہ کن رپورٹس اور ن کے فل ٹائم یا پارٹ ٹائم “ملازم” پاکستانی کالم نگاروں کی آرا قبول کر لیتے ہیں تو پھر چائنا کیا چیز ہے ؟ ہم چائنا سے متعلق بھی حقیقت اسی کو مانتے ہیں جو بی بی سی اور وائس آف امریکہ کہیں۔حماقت کی حد دیکھئے کہ سنکیانک کے مسلمانوں کی حالت کے حوالے سے چائنیز حکومت ہی نہیں بلکہ مسلم ممالک کی رائے اور موقف بھی نظر انداز کرکے ہم اپنا یقین بی بی سی اور وائس آف امریکہ کے سپرد کر دیتے ہیں۔ اور یوں ہمارا ذاتی موقف بھی وہی بن جاتا ہے جو یہ ادارے چاہتے ہیں۔

سنکیانک کی کہانی نہ تو کسی ایسٹ ترکستان سے شروع ہوتی ہے اور نہ ہی کسی “جہاد” سے۔ یہ کہانی شروع ہوتی ہے افیون سے۔ وہ افیون جس کا برطانیہ چین میں سب سے بڑا تاجر بن کر سامنے آیا تھا۔ انیسویں صدی کے اوائل میں چین سے چائے خریدنے والی گوری سرکار کو ایک مسئلہ یہ درپیش ہوا کہ چائے کی ڈیمانڈ دن بدن بڑھتی جا رہی تھی۔ اس بڑھتی ڈیمانڈ کے نتیجے میں چین کا تو فائدہ تھا کہ وہ فروخت کنندہ تھا۔ مگر گوری سرکار کو زرمبادلہ ہاتھ سے جاتا نظر آرہا تھا۔ سو اس نے زرمبادلہ بچانے کےلئے چائے کے بدلے افیون کا کھیل رچا لیا۔

ان کے بحری جہاز افیون لاکر چینی بندرگاہوں پر آتارتے اور چائے بھر بھر کر برطانیہ لے جاتے۔ نتیجتا چائنیز قوم نشئی ہوتی چلی گئی تو حکومت نے افیون پر پابندی لگادی۔ افیون کی دکانیں بند کردی گئیں اور گودام سیل کر دئے گئے۔ اس پر 1842 میں برطانیہ کا بحری بیڑہ چین آگیا۔ چینی شکست چار برطانوی عتاب لے کر آئی۔ پہلا یہ کہ ہانگ کانگ پر معاہدے کے تحت قبضہ کر لیا گیا۔

دوسرا یہ کہ چین کو پابند کیا گیا کہ اس کی پانچ بندرگاہیں برطانوی شہریوں کے لئے باہیں کھولیں گی۔ جنہیں یہاں رہائش اور تجارت کا حق ہوگا۔ تیسرا یہ کہ اگر کسی گورے نے کوئی جرم کیا تو چینی عدالت کو اسے سزا دینے کا حق نہ ہوگا۔ یہ حق برطانوی عدالت کا ہی ہوگا۔ اور چوتھا یہ کہ برطانوی مصنوعات پر ڈیوٹی برطانیہ کی منشا کے مطابق وصول کی جائے گی۔

جلد ہی برطانیہ نے امریکہ، فرانس اور روس کو بھی مدعو کرلیا تاکہ وہ بھی پانچوں گھی میں اور سر کڑاہی میں کرسکیں۔ ان تینوں ممالک نے بھی چین سے انہی شرائط پر معاہدے کر لئے جن شرائط پر برطانیہ کرچکا تھا۔ ان معاہدات میں چین کے نقطہ نگاہ سے اگر بچت کی کوئی بات تھی تو بس یہ کہ یہ مغربی قزاق اس کے صرف ساحلوں تک محدود تھے۔ لیکن جلد بغاوت ہوگئی۔ اس اس بغاوت کو برطانیہ، فرانس اور امریکہ نے مل کر کچل دیا تو معاہدات از سرنو ترتیب دئے گئے۔ اور اب کی بار لگ بھگ پورا مغرب ہی چین کو تجارت کے نام پر لوٹنے چلا آیا۔

جب پورا مغرب آیا تو جہاں پہلے پانچ بندرگاہوں پر مغربی کنٹرول تھا اب 90 بندرگاہیں ان کے کنٹرول میں چلی گئیں۔ اور ساتھ ہی اندرون چین تک رسائی بھی حاصل کرلی گئی۔ چین عملا ٹکڑوں میں بٹ گیا۔ کہیں جرمنی کا راج چل رہا ہے تو کہیں برطانیہ و فرانس کا۔ اور کہیں سپین و اٹلی کا تو کہیں ڈینمارک و بیلجیم کا۔ ایک مستقل معاہدے کے تحت چین میں زمینیں خریدنے، چرچ قائم کرنے، اور عیسائیت کی دعوت و تبلیغ کا حق بھی حاصل کرلیا گیا۔

ہمارے آج کے دیسی لبرلز قوم کے بچوں کو یہ تو بتاتے ہیں کہ مغرب میں سیکولرزم رائج ہے اور سیکولر ریاست میں مذہب کا ریاست و سیاست میں کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔ مگر یہ نہیں بتاتے کہ ان سیکولر ریاستوں کے کلونیل دور میں “مذہب” ہی ان کا سب سے اہم ہتھیار رہا ہے۔ عیسائی مشنری ان کے ہر قبضے کا لازمی جزو ہوا کرتے تھے۔ چنانچہ چین میں بھی قبضہ مستحکم کرنے کے لئے چرچز کا جال پھیلا کر مقامی آبادی کو عیسائی بنانا شروع کردیا گیا۔

اور یہ مقامی عیسائی پھر وفادار بھی چین کے بجائے قابض مغربی قزقوں کے بنتے گئے۔ اسی دوران برطانوی پشت پناہی میں ایک ازبک کمانڈر یعقوب بیگ نے جنوب میں حملہ کرکے “سنکیانک” پر قبضہ کرلیا۔ یوں چین اور مغرب کی کشمکش میں پہلی بار سنکیانک تاریخ کا حصہ بنتا نظر آیا۔ یہ قبضہ تیرہ سال بعد چینیوں نے چھڑا لیا۔ یعقوب بیگ کا یہ قبضہ 1864ء سے لے کر 1877ء تک رہا۔ ادھر شمال مشرق میں بیجنگ اور اس کے اطراف گورے پادری دن رات محنت کرکے چینیوں کو مشرف بہ کرسچیانٹی فرماتے رہے۔ جلد ان کے خلاف ایک زیر زمین عوامی تحریک منظم ہونی شروع ہوگئی۔ کیونکہ چینی کلچر اور شناخت داؤ پر لگ گئے تھے۔ غیرملکی صرف نیا مذہب ہی نہیں بلکہ وہ ننگا پن بھی تو لے کر آئے تھے جو مغرب میں ان کی شناخت ہے۔

1899ء میں ایک اور بغاوت ہوگئی۔ اس بار بغاوت زیر زمین تحریک کی صورت منظم ہونے والی سول آبادی نے کی تھی۔ اور انہوں نے ہتھیاروں کی کمی کو مارشل آرٹس سے پورا کیا تھا۔ اب مغرب مارشل آرٹس کے نام پر صرف باکسنگ سے ہی واقف تھا۔ سو انہوں نے کنگفو کو بھی باکسنگ کا ہی نام دے کر اس بغاوت کا نام “باکسر بغاوت” رکھ لیا۔ اگرچہ بغاوت شروع سول آبادی نے کی تھی مگر جلد حکومت بھی اس کا حصہ بن گئی، یعنی چینی سپاہ بھی میدان میں آگئی۔

اگلے دو سال میں چینیوں نے 20 ہزار چائنیز نوکرسچینز ڈھائی سو کے لگ بھگ غیر ملکی مشنریز قتل کر دئے۔ مگر اس بار بھی چین کو شکست ہوگئی۔ یوں نیا معاہدہ لکھا گیا جو “باکسر پروٹوکول” کے نام سے معروف ہوا۔ یہ معاہدہ چین سے 11 فاتح ملکوں نے کیا۔ جن میں امریکہ، برطانیہ، فرانس، جرمنی، جاپان، ہالینڈ، بیلجیم، اٹلی، سپین، آسٹریا اور روس شامل تھے۔

اس معاہدے کی رو سے کوئی درجن بھر اعلی چینی سویلین و فوجی حکام کی پھانسی مانگی گئی۔ چین پر 450 ملین چاندی کے وہ سکے جرمانہ عائد کیا گیا جو اس کی کرنسی تھی۔ اور یہ جرمانہ اس نے اگلے چالیس سال تک قسطوں میں دینا تھا۔ چین پر اسلحہ اور اسلحہ بنانے والی مشینری درآمد کرنے پر پابندی لگا دی گئی۔ بغاوت میں حصہ لینے والے افراد میں سے بڑی تعداد کو تو باقاعدہ سزائے موت دی گئی جبکہ ہزاروں چینیوں کو جیلوں میں بند کرکے خودکشی پر مجبور کیا گیا۔

1842ء سے شروع ہونے والا یہ ظلم اور جبرایک سو دس سال جاری رہا۔ اس عرصے میں چینی اپنی خود مختاری، آزادی و قومی عزت نفس سمیت ہر چیز سے محروم رکھے گئے۔ مگر بیسویں صدی کے وسط میں ہونے والی دوسری جنگ عظیم نے سب کچھ بدل دیا۔ مغرب کی چوہدراہٹ امریکہ کو منتقل ہوگئی۔ برطانیہ سکڑتا چلا گیا۔ روس 1917ء میں کمیونسٹ انقلاب کے بعد مغرب کا پہلے دشمن بن چکا تھا۔ اور ادھر چین میں ماؤ زے تنگ کا لانگ مارچ ایک انقلاب کی شکل اختیار کرکے چینی نظام اور غیرملکی قابض فورسز سمیت سب کو بہا لے گیا۔

یوں 1955ء سے وہ تاریخی سفر شروع ہوا جس میں چین مسلسل پیش قدمی اور مغرب اس کے مقابل مسلسل پسپائی دیکھ رہا ہے۔ پسپائی کے ان آخری سالوں میں شکست خوردہ مغرب چین کے خلاف پروپیگنڈے کا جو روایتی ہتھیار استعمال کر رہا ہے اس میں سنکیانک کو بھی اہم حیثیت حاصل ہے۔ اگلی سطور پر اسی کا جائزہ پیش خدمت ہوگا (جاری ہے)۔

Related Posts