جامعہ کراچی انتظامیہ کی پالیسیوں پر آفیسر ویلفیر ایسوسی ایشن اور پیپلز ایمپلائیز آمنے سامنے

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

جامعہ کراچی انتظامیہ کی پالیسیوں پر آفیسر ویلفیر ایسوسی ایشن اور پیپلز ایمپلائیز آمنے سامنے
جامعہ کراچی انتظامیہ کی پالیسیوں پر آفیسر ویلفیر ایسوسی ایشن اور پیپلز ایمپلائیز آمنے سامنے

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

 جامعہ کراچی کی موجودہ انتظامیہ کی حمایت میں آفیسرز ویلفیئر ایسوسی ایشن ملازمین کی جانب سے عبوری وائس چانسلر کے نام ایک خط لکھا گیا ہے۔

خط میں نام لیئے بغیر پیپلز یونائیٹڈ ایمپلائیز کے کارکنان پر الزامات عائد کیے گئے ہیں ۔جس کے جواب میں پیپلز یونائیٹڈ ایمپلائز کے رہنما منیر بلوچ نے چیف سیکورٹی آفیسر کے نام خط لکھ کر وضاحت دی ہے ۔

آفیسر ویلفیئر ایسوسی ایشن کے رہنما ڈاکٹر حسان اوج کی جانب سے لکھے گئے خط مطابق ” جامعہ کے دیرینہ مسائل کے حل پر شیخ الجامعہ کو بلیک میل اور ہراساں کرنے کی بھرپور مذمت کرتی ہے، طویل عرصے سے تعطل کے شکار مسائل کے حل پر شیخ الجامعہ کاساتھ دینے کے بجائے انہیں ہراساں کرنے اور دھمکی آمیز خطوط جاری کرنا قابل مذمت ہے۔ ہونا تو یہ چاہیئے کہ ملازمین کے جائز مسائل کے حل کو غیر قانونی کہنے کے بجائے تمام یونینز اور گروپس کو وائس چانسلر صاحبہ کا شکریہ ادا کرنا چاہئے لیکن شیخ الجامعہ پر ملازمین کی اپ گریڈیشن کی واپسی کے لئے دباؤ ڈالا جارہا ہے۔

ہم وائس چانسلر کے شابشانہ کھڑے ہیں اور ان کے ساتھ ہمہ وقت ہر طرح کا تعاون کرنے کو تیار ہیں۔ وائس چانسلر کو اس طرح کے خطوط لکھنے پر خوشی بھی ہو رہی ہے کہ ملازمین دوست اور دشمن عیاں ہو گئے ہیں ۔ ملازمین کے جائز کاموں کو جس طرح کی لسانی سیاست کی نظر کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے وہ ملازمین کے مسائل میں مزید اضافہ کرنے کے ساتھ ساتھ آنے والے وقتوں میں اس طرح کی ایک نئی ریت قائم کرنے کے مترادف ہے جس کی وجہ سے ملازمین کی ترقی،اپ گریڈیشن اور ملازمین کے بچوں کی تقرریوں پر مسلسل ایک قدغن لگ جائے گی۔

الزام عائد کرتے ہوئے مذید لکھا گیا ہے کہ ” 2 جون کو ملازمین کا ایک گروپ طلبہ کے ایک سیاسی گروپ کو اپنے ساتھ لے کر آئے اور وائس چانسلر، رجسٹرار اور ان کے عملے کو نہ صرف ہراساں کیا گیا بلکہ دھمکی آمیز جملوں اور دشنام طرازی کا بھی استعمال کیا گیا۔اگر طلبہ کے سیاسی گروپس اسی طرح انتظامی معاملات میں مداخلت کرتے رہے تو اس طرح ایک نئی ریت پڑ جائے گی ۔لہذا اس طرح کے واقعات کی فوری روک تھام کے لئے بروقت سخت اقدامات کو یقینی بنایا جائے۔ اس سلسلے میں قانون نافذ کرنے والے اداروں سے مکمل تعاون کرنے کو تیار ہیں ۔

خط میں ڈاکٹر حسان اوج نے لکھا ہے کہ ” کمپیوٹر آپریٹر کو سندھ گورنمنٹ کے جاری کردہ اَپ گریڈیشن کے نوٹیفیکشن کے تحت اَپ گریڈ کیا گیا ہے۔میں بحیثیت ممبرسنڈیکیٹ جامعہ کراچی اپنے افسران اور ملازمین کو چند افسران وملازمین کے ہاتھوں یرغمال بنانے کی ہرگز اجازت نہیں دیں گے ۔ ملازمین کے ایک گروپ کی جانب سے آج جاری ہونے والے خط میں غیر قانونی تعیناتیاں کرنے کے حوالے سے بھی تذکرہ کیا گیا ہے جو خلاف حقیقت اور مبنی برقیاس ہے،اگر انہیں قانون کی پاسداری کرنی ہے تو 2018 ء میں بھرتی ہونے والے 58 سیکیورٹی گارڈ کی بھرتی کے حوالے سے وضاحت جاری کریں کہ انہوں نے کس چوکیدار سے بھرتی کی مد میں کتنی رقم وصول کی ہے۔قابل توجہ امر یہ ہے کہ ان چوکیداروں میں ایک سیاسی جماعت بلکہ ایک ہی گوٹھ سے تعلق رکھنے والے 20 سیکیورٹی گارڈ شامل ہیں۔

اس وقت ملازمین کے بچوں کے لئے ان میں پائی جانے والی ہمدردیاں کہاں تھیں؟ ان کے اس طرح کے خطوط جاری کرنے سے ان پر یہ مصداق پوری اترتی ہے کہ چھلنی کوزے سے کہہ رہی ہے کہ آپ میں دوسوراخ ہیں۔ ہمیں سیکیورٹی گارڈ یا کسی کی بھی تقرری پر ہمیں کوئی اعتراض نہیں جامعہ کراچی کے تمام ملازمین ہمارے بھائی اور ہمارا حصہ ہیں اور جسم کے کسی بھی حصہ پر تکلیف سے پورے جسم کو تکلیف کا احساس ہوتاہے۔اس خط میں ذکرصرف مذکورہ گروپ کو آئینہ دکھانے کے لئے کیا گیا ہے۔

علاوہ ازیں گزشتہ سال ایک اسسٹنٹ کنٹرولر اور سابقہ رجسٹرا کے بھانجے کابھی بحیثیت بلاک اٹینڈنٹ ان ہی لوگوں کی خواہش پر تقرر کیاگیا وہ کس قانون اورمیرٹ کے تحت کیاگیا یہ شاید اپنے جاری کردہ خط میں ان تمام تقرریوں کا ذکر کرنا بھول گئے تھے یا ان کے معاملے میں میرٹ کو فراموش کرنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا؟ہم سب کے حق میں بہتر یہی ہوگا کہ ہم ایک دوسرے پر الزام تراشیاں کرنے کے بجائے اپنا اپنا محاسبہ خود کریں تو ہمیں حقیقت سے اچھی اور بہتر آگاہی مل سکتی ہے ۔” 

دوسری جانب پیپلز یونائیٹڈ ایمپلائیز کے رہنما منیر بلوچ نے کیمپس سیکیورٹی آفیسر کو لکھا ہے کہ ” آج آفیسر ویلفیئر ایسوسی ایشن کی جانب سے ایک لسانی تعصب سے بھرا خط جاری کیا گیا ہے۔ اس زہر آلود خط میں بہت سے حقائق کو نہ صرف مسخ کر کے پیش کیا گیا ہے بلکہ نفرت کی آگ کو بھڑکانے کی بھرپور کوشش کی گئی ہے۔ اعلیٰ اداروں کی جانب سے شہرِ کراچی میں امن و امان قائم کرنا ایسے عناصر کو ایک آنکھ نہیں بھاتا لہٰذا یہ اپنے ذاتی مفادات کے حصول کے لئے ایسے اوچھے ہتھکنڈوں پر اُتر آتے ہیں کہ جس سے ہماری سیکیورٹی فورسز کی کامیابیوں اور قربانیوں پر پانی پھیرا جاسکے ۔

خط میں مذید لکھا گیا ہے کہ ” یہ گرگٹ کی طرح رنگ بدلتے عناصر کبھی مذہب کا لبادہ اوڑھ کر تو کبھی لسانیت کا نعرہ لگاکر اپنے غیر قانونی اور ناجائز مذموم مقاصد کے حصول کی کوشش میں سرگرداں رہتے ہیں۔ جامعہ کراچی کا دہشت ناک اور خون آلود ماضی اس بات کا گواہ ہے کہ کس نے کس طرح نہ صرف جامعہ، اس کے اساتذہ بلکہ انسانیت کی بھی تذلیل اور قتل کیا۔ بار بار اٹھاون سیکیورٹی گارڈز کی طرف اشارہ کرنے والوں کے شر سے اللہ پاک ان غریب گارڈز کو محفوظ رکھے مگر خدا نخواستہ ان میں سے کسی ایک بھی گارڈ کو کچھ ہوا تو اس کی تمام تر ذمہ داری جامعہ کی مخصوص متعصب انتظامیہ اور آفیسر ویلفیئر ایسوسی ایشن پر عائد ہو گی۔ کیونکہ ماضی میں بھی اصولوں پر سودے بازی نہ کرنے حق پر ڈٹنے پر جیولوجی ڈپارٹمنٹ کے مرحوم حاجی نورالامین سمیت بہت سے دیگر یونیورسٹی ملازمین پر متعصب لسانی سوچ رکھنے والوں کی طرف سے قاتلانہ حملے ہوتے رہے ہیں۔

منیر بلوچ نے انتظامیہ پر واضح کیا ہے کہ ” ہم ارباب اختیار خاص طور پر مقتدر اداروں سے پر زور اپیل کرتے ہیں کہ جامعہ کراچی میں انتظامی بد نظمی، خلاف قانون فیصلوں، اقربا پروری اور خاص طور پر تعصب کی آگ لگانے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے تاکہ مادر علمی اور روشنیوں کے شہر کی رونقیں کبھی مفاد پرستوں کے مذموم مقاصد کی بھینٹ چڑھ کر ماند نہ پڑیں ۔

Related Posts