ژوب کا مندر 7 دہائیوں بعد ہندوؤں کے حوالے

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

پاکستان اقلیتوں کے ساتھ ہونے والے سلوک اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے واقعات معبول کا باعث ہیں۔ مذہبی اقلیتوں کی زبردستی مذہب کی تبدیلی اور معاشرے میں موجود موروثی امتیاز تشویش کے باعث ہیں۔

ملک میں بین المذاہب ہم آہنگی کے شاذ و نادر ہی واقعات پیش آتے ہیں جو انسانیت پرہمارا اعتماد بحال کرتے ہیں ۔ ایسے ہی ایک واقعے میں بلوچستان کے شہر ژوب میں واقع ایک 200 سالہ قدیم مندر سات دہائیوں کےبعدہندو برادری کو لوٹا دیاگیا۔

خوش آئند بات یہ ہے کہ ایک مذہبی جماعت سے وابستہ مولانا صاحب نے چار کمروں والے مندر کی چابیاں ہندو برادری کے حوالے کی، مولانا اللہ داد کاکڑ خود بھی مندر کی ہندو برادری کو حوالگی کے حق میں تھے جو مذہبی رواداری کی ایک عمدہ مثال ہے۔ اس مندر کو گذشتہ تیس سالوں سے ایک سرکاری اسکول کی حیثیت سے استعمال کیا جارہا تھا جب کہ ہندو ایک خستہ حال عمارت میں عبادت کرنے پر مجبور تھے۔

پی ٹی آئی کی حکومت کا یہ اقدام ملک میں مذہبی ہم آہنگی اور رواداری کی ایک اچھی مثال ہے۔ یہ ہندوستان کے بالکل برعکس ہے جہاں مسلمانوں کے خلاف امتیازی سلوک کی پالیسیاں بن رہی ہیں اور ہندوتوا کی لہر پوری قوم میں پھیل رہی ہے۔ ایودھیا میں چار صدی قدیم بابری مسجد کو تیس سال قبل ہندو جنونیوں نے مسمار کیا تھا لیکن وہاں کی سپریم کورٹ نے ان کے حق میں فیصلہ سناتے ہوئے متنازعہ اراضی کو ہندوؤں کے حوالے کردیاہے۔

گذشتہ سال کٹار پور راہداری کے افتتاح کا کریڈٹ بھی حکومت کو جاتا ہے جس نے ہندوستان کے سکھ یاتریوں کو پاکستان میں ان کی عبادت کے مقام پر جانے کی اجازت دی جبکہ دیگر متعدد افراد بھی اپنے تہوارکو منانے پاکستان آئے۔دوسری جانب بھارت نے پاکستانی مسلمانوں کو اپنے ملک میں مذہبی مقامات پر جانے کی اجازت دینے سے انکار کردیا ہے۔

حکومت کا مقصد مختلف مراحل میں پاکستان میں 400 سے زائد مندروں کی تزئین و آرائش ، بحالی اور دوبارہ کھولنا ہے۔ ہندو برادری طویل عرصے سے مطالبہ کرتی آرہی ہے کہ ان کی عبادت گاہیں ان کے حوالے کی جائیں۔ بر صغیر کی تقسیم کے موقع پر بہت سے ہندو بھارت ہجرت کر گئے تھے جس کے بعد ان کی عبادت گاہوں کو زبردستی قبضہ کر کے اسکولوں مدارس اور سماجی بہبود کے اداروں میں بدل دیا گیا۔ تاہم اب حکومت ان عبادت گاہوں کو ہندو برادری کے حوالے کرنا چاہتی ہے۔

مندروں کی بحالی اور واپسی سے یہ مثبت پیغام جائے گا کہ حکومت مذہبی اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک رواں نہیں رکھ رہی۔ اس سے پتہ چلتا ہے ملک میں قلیتوں کے حقوق کا تحفظ یقینی بنایا جارہا ہے۔ یہ ان لوگوں کے لیے ایک پیغام ہے عدم رواداری اور تشدد کے واقعات کے قائل ہیں ۔ مذہبی اور سیاسی قائدین کو اس حوالے سے کردار اداکرنا چاہیے اور ملک میں مذہبی رواداری قائم کرنی چاہیے۔

Related Posts