شرح سود 13.25فیصد سے کم کرکے 12.50فیصدکرنے کا فیصلہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

معاشی لحاظ سے ملک درست سمت کی جانب بڑھ رہا ہے، گورنراسٹیٹ بینک
معاشی لحاظ سے ملک درست سمت کی جانب بڑھ رہا ہے، گورنراسٹیٹ بینک

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

کراچی: زری پالیسی کمیٹی نے اپنے 17 مارچ 2020ء کے اجلاس میں پالیسی ریٹ 75 بی پی ایس کم کرکے 12.50فیصدکرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

اس فیصلے سے کمیٹی کے اس نقطہ نظر کی عکاسی ہوتی ہے کہ غذائی اشیا کی ملکی قیمتوں میں حالیہ سست روی ، صارفین کی قیمتوں کی توقعات میں نمایاں کمی ، تیل کے عالمی نرخوں کے تیزی سے گرنے اور کورونا وائرس کی وبا کی بنا پر بیرونی اور ملکی طلب میں سست رفتاری سے مہنگائی کا منظرنامہ بہتر ہوا ہے۔ توقع ہے کہ اوسط عمومی مہنگائی مالی سال 20ء میں اسٹیٹ بینک کی 11 تا 12 فیصد کی پیش گوئی کے اندر رہے گی اور پھر پہلے جو پیش گوئی کی گئی تھی اس سے کچھ پہلے ہی ،کم ہوکر وسط مدتی ہدف 5 سے 7 فیصد کی حدود میں ا ٓجائے گی۔

2۔ شرح سود پر فیصلے کے علاوہ ایم پی سی نے نوٹ کیا کہ کاروباری اداروں کے لیے اسٹیٹ بینک کی نئی ’عارضی معاشی ری فنانس سہولت‘جس کے تحت نئے منصوبوں کے پلانٹ اور مشینری کے لیے10 سال تک 7.0 فیصد کی مقررہ شرح پر بینک کے قرضوں کے لیے اسٹیٹ بینک کی ری فنانس مہیا کی جارہی ہے—کورونا وائرس وبا کے باعث سرگرمیوں میں متوقع سست روی سے نمٹنے کے لیے نمو کو ضروری اضافی سرمایہ کاری فراہم کرے گی۔

3۔ایم پی سی نے زور دیا کہ جب مہنگائی اور نمو کے منظرنامے سے متعلق مزید معلومات دستیاب ہوں گی تو وہ ضرورت پڑنے پر مزید اقدامات کے لیے تیار ہے۔

4۔ یہ فیصلہ کرنے میں ایم پی سی نے حقیقی، بیرونی اور مالیاتی شعبوں میں اہم رجحانات و امکانات اور ان کے نتیجے میں پیدا ہونے والے زری حالات اور مہنگائی کے منظرنامے کو پیش نظر رکھا۔

گذشتہ زری پالیسی کمیٹی اجلاس کے بعد ہونے والی تبدیلیاں
5۔ زری پالیسی کمیٹی نےنوٹ کیا کہ 28 جنوری 2020ء کو ہونے والے گذشتہ اجلاس کے بعد اہم واقعہ کورونا وائرس کی وبا ہے جس نے دنیا بھر میں انسانی زندگی پر بہت اثرات مرتب کیے ہیں۔ اس وبا نے بیرونی اور ملکی طلب کم کردی ہے جبکہ خطرے سے گریز اور مستقبل سے متعلق غیریقینی کیفیت میں اضافہ کردیا ہے۔

ساتھ ہی تیل کی عالمی قیمتیں گر گئی ہیں، جو اسی طرح پست رہیں تو اس سے ملکی مہنگائی کم کرنے اور جاری کھاتے میں بہتری لانے میں مدد ملے گی۔ خطر ے سے گریز میں عالمی سطح پر اضافے سے حال ہی میں دنیا بھر میں ابھرتی ہوئی مارکیٹوں کے اثاثوں کی طلب کم ہوگئی ہے اور اس بنا پر گذشتہ چند روز میں دیگر ابھرتی ہوئی مارکیٹوں کی طرح ملکی بازار مبادلہ میں کچھ تغیر پذیری اور قدر میں کمی دیکھی گئی ہے ۔

ایم پی سی نے اس امر پر زور دیا کہ مارکیٹ میں موجودہ اتار چڑھاؤ کا محرک بیرونی ہے اور پاکستان کی معیشت کے مبادیات کی مضبوطی ،جس کی بنا پر کورونا وائرس کی وبا سے پہلے پاکستانی مارکیٹوں میں بہتری آئی تھی، اسی طرح برقرار ہے۔نتیجتاً ایم پی سی کا نقطہ نظر یہ تھا کہ جب خطرے سے گریز کا عالمی رجحان کم ہوگا اور ملک سے مخصوص مبادیات کو پھر اہمیت حاصل ہوجائے گی تو ملکی مارکیٹوں میں یہ تغیر پذیری کم ہونے کا امکان ہے۔

ایم پی سی نے یہ بھی نوٹ کیا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ توسیعی فنڈ سہولت (EFF) کے تحت دوسرے جائزے پر اسٹاف کی سطح پر کامیابی سے اتفاق ہوگیا جو سرمایہ کاروں کے احساسات کو تقویت دے گا۔

حقیقی شعبہ
6۔ بلند تعدّد (high-frequency) کے حالیہ اظہاریوں سے پھر تصدیق ہوئی ہے کہ کورونا وائرس کی وبا سے پہلے بیشتر معاشی شعبےکا زوال اپنی ممکنہ پست ترین سطح پر پہنچ رہا تھا۔ دسمبر 2019ءمیں بڑے پیمانے کی اشیا سازی (LSM) میں بھرپور تیزی آئی ،پچھلے چھ ماہ میں پہلی بار اس کی نمو مثبت (9.7 فیصد سال بسال) ہوگئی اور کئی صنعتوں بشمول برآمدی صنعتوں میں مضبوطی ظاہر ہوئی۔ پچھلے برس کے مقابلے میں کچھ بہتری کے باوجود شعبہ زراعت کی نمو گذشتہ پیش گوئی سے کم رہنے کا امکان ہے۔

7۔حالیہ ملکی اور عالمی حالات کی روشنی میں اسٹیٹ بینک اب مالی سال 20ء کے لیے حقیقی جی ڈی پی نمو 3.0 فیصد کے لگ بھگ رہنے کی پیش گوئی کرتا ہے جبکہ اگلے سال کسی قدر بحالی کی توقع ہےبشرطیکہ عالمی تجارت اور مالی مارکیٹوں پر کورونا وائرس وبا کا اثر کم اور تھوڑے عرصے کے لیے ہو۔

اس منظرنامے میں برآمدات کی سست روی اور مارکیٹ کی تغیر پذیری محدود رہنی چاہے جبکہ موزوں نمو اور اجناس کی کم عالمی قیمتوں کی مہنگائی کے اثرات غالب رہیں گے۔ منفی منظر نامے کی صورت میں پاکستان کی اہم برآمدی اور ترسیلات زر کی مارکیٹوں میں کمزور طلب کا طویل اور شدید دور ملکی صارفین اور کاروباری اداروں میں دبے ہوئے احساسات نمو پر زیادہ اثر مرتب کرسکتا ہے۔

ان دونوں منظرناموں میں ،جاری کھاتے پر کسی قدر مثبت اثر پڑنے کی توقع ہے کیونکہ تیل کی پست قیمتوں سے ہونے والی بچت خالص برآمدات اور ترسیلات زر میں ممکنہ کمزوریوں کا اثر متوقع طور پر زائل کردے گی۔

بیرونی شعبہ
8۔ بیرونی شعبے میں نمایاں بحالی کا عمل جاری ہے۔ جولائی تا جنوری مالی سال 20ء کے دوران جاری کھاتے کا خسارہ 72 فیصد گھٹ کر 2.65 ارب ڈالر ہوگیا جس کا سبب درآمدات میں واضح کمی اور برآمدات اور کارکنوں کی ترسیلات زر میں معتدل نمو ہے۔ ایم پی سی نے نوٹ کیا کہ دشوار بیرونی ماحول کے باوجود پاکستان کی برآمدات نے اپنے بیشتر تجارتی حریفوں کے مقابلے میں حالیہ مہینوں کے دوران بہتر کارکردگی دکھائی۔

یہ بہتری ایک زیادہ مسابقتی شرح مبادلہ، اسٹیٹ بینک کی ری فنانس سہولتوں کے تحت برآمدی شعبوں کے لیے کم لاگت فنڈنگ کی دستیابی اور کاروباری اداروں کو سہولتیں فراہم کرنے کے لیے حکومتی کاوشوں کی عکاسی کرتی ہے۔

9۔ زرمبادلہ کی مارکیٹوں میں حالیہ اتار چڑھاؤ کے باوجود اسٹیٹ بینک کے زر مبادلہ کے ذخائر کی مضبوط نمو برقرار رہی جس کا سبب کم ہوتا ہوا جاری کھاتے کا خسارہ ہے۔ذخائر آخر جون 2019ء میں 7.28 ارب ڈالر سے بڑھ کر آخر فروری 2020ء کو 12.76 ارب ڈالر ہوگئے یعنی 5.48ارب ڈالر کا اضافہ ہوا۔

اسی عرصے میں اسٹیٹ بینک کے فارورڈ واجبات میں 5.20 ارب ڈالر کی نمایاں کمی کے پیش نظر ملک کی بیرونی پوزیشن میں اصل بہتری اس سے کہیں زیادہ ہے۔ایم پی سی نے کہا کہ اسٹیٹ بینک کے خالص ریزرو بفرز میں 10.68 ارب ڈالر کا یہ اضافہ رقوم کے کسی بھی پورٹ فولیو اخراج سے منظم طور پر نمٹنے کے لیے کافی سے زیادہ ہے۔

ایم پی سی نے نوٹ کیا کہ اسٹیٹ بینک حالات کا بغور جائزہ لیتا رہے گا اور مارکیٹ میں کسی قسم کی بے ترتیبی کی صورت میں فوری اقدام کرنے کے لیے تیار ہے۔

مالیاتی شعبہ
10۔ مالیاتی یکجائی کا عمل درست راستے پر چل رہا ہے جس سے مہنگائی کے منظر نامے میں معیاری بہتری کو مدد مل رہی ہے۔ جولائی تا فروری مالی سال 20ء کے دوران ٹیکس محاصل میں پچھلے سال کی اسی مدت کے مقابلے میں 17.1 فیصد کا بھرپور اضافہ دیکھا گیا۔ جہاں تک اخراجات کا تعلق ہے، گذشتہ سال کی نسبت سرکاری خرچ میں اضافے سے کاروباری سرگرمیوں خصوصاً تعمیرات سے منسلکہ صنعتوں کو فائدہ ہورہا ہے۔

آگے چل کر حکومت کو اس سال کے محصولاتی اہداف حاصل کرنے میں دشواریوں کا سامنا ہوسکتا ہے خصوصاً اگر معاشی سرگرمیوں میں رکاوٹ پیدا ہوئی اور کورونا وائرس وبا کے اثرات سے تحفظ کے لیے صحت اور سماجی شعبوں کے اخراجات میں اضافے کی ضرورت پڑسکتی ہے۔

زری پالیسی اور مہنگائی کا منظرنامہ
11۔کمزور معاشی سرگرمیاں نجی شعبے کے قرضے پر مسلسل منفی اثرات مرتب کررہی ہیں جو یکم جولائی تا 6 مارچ مالی سال 20ء کے دوران 3.6 فیصد یعنی گذشتہ سال کی اسی مدت کی نسبت نصف سے بھی کم شرح سے بڑھا ہے۔ اسٹیٹ بینک برآمدی شعبوں کے لیے اپنی ری فنانسنگ سہولتوں ،جیسے طویل مدتی مالکاری سہولت (LTFF) اور کورونا وائرس کی وبا کی روشنی میں نئی سہولت ٹی ای آر ایف ،کے ذریعے معاشی سرگرمیوں کو تقویت دیتا رہے گا۔

12۔زری پالیسی کمیٹی کے پچھلے اجلاس کے بعد عمومی مہنگائی کے اعدادوشمار میں نمایاں تبدیلیاں دیکھی گئیں جس کا سبب غذائی اشیا کی تغیر پذیر قیمتیں ہیں۔ قومی صارف اشاریہ قیمت (CPI) مہنگائی جنوری 2020ء میں بڑھ کر 14.6 فیصد (سال بسال) ہوگئی ،پھر فروری 2020ء میں اتنی ہی نمایاں کمی ہوئی اور 12.4 فیصد تک پہنچ گئی۔

ایم پی سی نے نوٹ کیا کہ لازمی غذائی اشیا کی ہفتہ وار قیمتوں سے اس تجزیے کو تقویت ملی ہے کہ اس سے پہلے آنے والے دھچکے عارضی تھے اور عمومی مہنگائی ، جسے قدرے مستحکم قوزی مہنگائی اور گرتی ہوئی صارفی مہنگائی کی توقعات سے ناپا جاتا ہے، کا مضمر رجحان اس مالی سال کے بقیہ عرصے کے دوران معتدل رہے گا۔فی الوقت مالی سال 20ء کے پہلے آٹھ ماہ کے دوران اوسط قومی صارف اشاریہ قیمت 11.7 فیصد ہے۔

13۔ غیر متوقع دھچکوں کے ماسواآئندہ مہینوں کے دوران مہنگائی کی رفتار مزید کم ہونے کی توقع ہے ۔ اس بات کا بہت امکان ہے کہ مالی سال 20ء میں اوسط مہنگائی سا ل کے آغاز میں کی گئی ایم پی سی کی پیش گوئی کے مطابق 11 سے 12 فیصد کی حدود میں رہے گی۔

پالیسی ریٹ میں آج کی کمی کے بعد ایم پی سی یہ محسوس کرتی ہے کہ حقیقی شرح سود مستقبل کی بنیاد پر مناسب ہے اور مہنگائی کا وسط مدتی ہدف 5 تا 7 فیصد حاصل کرلے گی۔ ایم پی سی نے یہ فیصلہ بھی کیا کہ بہترین عالمی روایات کے مطابق شرح سود کوریڈور کو پالیسی ریٹ کے گرد یکساں بنایا جائے۔

Related Posts