کراچی کے شہری 4 کھرب 25 ارب ٹیکس دے کر بھی بنیادی سہولیات سے محروم

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

شہر قائد کی سڑکوں کی ابتر حالت، سیوریج کا نظام درہم برہم، شہری نفسیاتی مریض بن گئے
شہر قائد کی سڑکوں کی ابتر حالت، سیوریج کا نظام درہم برہم، شہری نفسیاتی مریض بن گئے

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

کراچی:شہرقائد کا انفراسٹرکچر تباہ، نفسیاتی اور جسمانی امراض میں اضافہ ہونے لگا، مذکورہ صورتحال نے شہریوں کو نفسیاتی مریض بنا کر رکھ دیا۔

کراچی سے 4 کھرب 25 ارب روپے ٹیکس وصول کرنے کے بعد کراچی کے ترقیاتی منصوبوں کیلئے صرف 16 ارب روپے مختص کیے گئے مگر وہ بھی استعمال نہیں ہو رہے، شہریوں کی زندگی بد سے بد تر ہونے لگی۔

کراچی الیکٹرک، سوئی سدرن گیس کمپنی،واٹر بورڈ،سندھ بلڈنگ کنٹرول،کے ڈی اے،سندھ سولڈ ویسٹ،کمشنر سمیت اسسٹنٹ کمشنرز کوئی بھی محکمہ اپنی ذمہ داری کو ادا کرنے میں سنجیدہ نظر نہیں آتا۔ بیانات اور دعوؤں سے محکموں کو چلائے جانے سے عوامی مسائل تشویش ناک حد تک پہنچ چکے ہیں۔

شہر میں پیدا ہونے والا یومیہ 14 ہزار ٹن کچرے میں سے صرف چالیس فیصد کچرہ اٹھایا جاتا ہے بقیہ کچرہ شدید تعفن اور وبائی بیماریوں کے علاوہ آلودگی کا سبب بنتا ہے۔سڑکوں پر پھیلے پینے اورزہریلے پانی،بجلی اور سوئی گیس کی لائینوں کو مہینوں بعد پائپ لائن یا کیبل ڈالنے کیلئے کھدائی کی جاتی ہے۔

تاہم پائپ یا کیبل ڈالنے کے بعد کئی کئی ماہ تک گھڑوں کو بھرے بغیر چھوڑ دیا جاتا ہے جوکہ شہریوں کیلئے وبال جان اور موت یا زندگی بھر کی معذوری کاسبب بننامعمول بن گیا ہے۔

اگر سڑک ڈالی بھی جاتی ہے تو وہ بھی ناقص حکمت عملی اور ناقص میٹریل سے جو کہ چند روز بعد ہی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتی ہیں۔ ڈسٹرکٹ کاونسل کراچی، ضلع کورنگی، ضلع وسطی، شرقی، ملیر سمیت ضلع جنوبی کی بیشتر اندورونی اور بیرونی سڑکیں تباہ حالی کا شکار ہیں۔

شہر کو صاف رکھنے کے ذمہ دار ادارے کچرا اٹھانے اور سڑکوں پر جھاڑو لگانے کامربوط نظام بنانے کے بجائے اُلٹا مورد الزام شہریوں کو ہی ٹہراتے ہیں۔جھاڑو برداروہاں ہی نظر آتے ہیں جہاں انکے بڑوں کے گز رنے کاامکان ہو جبکہ کچرے کو ٹھکانے لگانے کے بجائے جلانے کو ہی اپنی ذمہ داری سمجھتے ہیں۔

اگر کوئی سڑک تعمیر کر دی جاتی بھی ہے تو اس کو منوں مٹی جمع ہونے تک صاف نہیں کیا جاتااور نہ ہی درست حالت میں رکھنے کیلئے کوئی اقدامات کئے جاتے ہیں۔ کراچی کے انفراسٹکچر کی بہتری کیلئے سالانہ ترقیاتی فنڈ میں مختص 16 ارب روپے کے باوجود اس کے ثمرات شہریوں تک نہ پہنچ سکے۔

اس سے قبل بھی کھربوں روپے کے فنڈ ز لگنے کے باوجود بھی انفراسٹکچر میں بہتری نہ آسکی۔ شہریوں کو مہنگائی کے عذاب سے دوچار کرنے میں ضلعی انتظامیہ کا ہاتھ ہے۔ مقررہ قیمت پر کوئی اشیا ء دستیاب نہیں، مرغی کا گوشت اور دودھ کی قیمتیں زندہ مثالیں ہیں۔

شہر کی بیشتر سڑکیں تباہ حال ہونے اور ٹریفک جام رہنے سے شہریوں میں نفسیاتی مرض چڑچڑاپن سمیت جسمانی امراض میں تشویش ناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے جبکہ انتظامیہ کوئی سنجیدہ اقدامات اٹھانے سے قاصر ہے جبکہ نیب و انسداد رشوت ستانی کے محکمے بھی بدعنوانوں کو لگام دینے سے قاصر ہیں۔

Related Posts