آئی ایم ایف کے پاس واپسی

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

پاکستان کے نئے مقرر کردہ وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل اس وقت واشنگٹن ڈی سی میں انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ سے پاکستان کے لیے 6 ارب ڈالر کے اقتصادی امدادی پیکیج کو بحال کرنے کی درخواست کر رہے ہیں۔عالمی مالیاتی ادارے نے گزشتہ حکومت کے دور میں معطل ہونے والے بیل آؤٹ پیکیج کی بحالی سے قبل سخت اقتصادی فیصلوں کا مطالبہ کیا ہے۔

اہم اجلاس کے لیے روانہ ہونے سے قبل وزیر خزانہ   مفتاح اسماعیل نے متنبہ کیا کہ آئی ایم ایف چاہتا ہے کہ پاکستان سبسڈی ختم کرنے کے لیے متعدد اقدامات کرے جس میں ایندھن کی قیمتوں میں اضافہ اور بجلی کے نرخ  بڑھانا شامل ہیں۔

عالمی مالیاتی فنڈ نے 1اعشاریہ 3 ٹریلین روپے کے قریب مالیاتی ایڈجسٹمنٹ پر مشتمل شرائط کا ایک سلسلہ مقرر کیا ہے جس میں صنعتوں کے لیے ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کو بند کرنا، گردشی قرضوں کو کم کرنا، بجلی کے نرخوں میں اضافہ اور مالی بچت کو یقینی بنانا شامل ہے۔

نئے وزیر اعظم میاں شہباز شریف مخلوط حکومت کی سربراہی کر رہے ہیں اور انہوں نے عوام پر کم سے کم ممکنہ بوجھ ڈالنے کا عزم ظاہر کیا ہے تاہم آئی ایم ایف کے ساتھ وزیر خزانہ کی ملاقاتوں سے آنے والی آواز پہلے ہی بتاتی ہے کہ حکومت نے عالمی قرض دہندگان کے مطالبات سے اتفاق کیا تاکہ عوام کی قیمت پر بحران سے تباہ حال معیشت کیلئے قابلِ عمل اصلاحات لائی جائیں۔

قبل ازیں 2019 میں آئی ایم ایف نے پاکستان کے لیے 6 ارب ڈالر کے قرض کی منظوری دی، یہ 22 ویں مرتبہ ہے جب ہم عالمی مالیاتی ادارے کے پاس گئے ۔ ہماری معیشت کی غیر متوقع نوعیت، درآمدات پر انحصار اور مجموعی غلط  طرزِ حکمرانی کی وجہ سے ہمیں قرضے اور بیل آؤٹ پیکیج  حاصل کرنا پڑتے ہیں۔

ماضی میں 1990 کی دہائی میں ہمیں ‘بین الاقوامی بھکاری بھی کہا جانے لگا کیونکہ ہم نے اپنی معیشت کو فروغ دینے کے لیے بھیک مانگنے کے پیالے کو آگے بڑھانے کے علاوہ کچھ نہیں کیا۔

 آئی ایم ایف کا باقاعدہ قیام 1945 میں دوسری جنگ عظیم کے بعد نئے عالمی نظام کے نتیجے میں بین الاقوامی مالیاتی نظام کی تنظیم نو کے مقصد کے ساتھ عمل میں لایا گیا۔ اس کا مقصدعالمی مالیاتی تعاون کو فروغ دینا، مالیاتی استحکام کو محفوظ بنانا، بین الاقوامی تجارت کو آسان بنانا، اعلیٰ روزگار اور پائیدار اقتصادی ترقی کو فروغ دینا اور دنیا بھر میں غربت کو کم کرناتھا تاہم دیکھا جاسکتا ہے کہ کس طرح آئی ایم ایف کو اقوامِ عالم کو کچھ اہم ممالک کے پنجۂ استبداد کے نیچے لانے  کے لیے استعمال کیا گیا ۔

آج سے 20 برس قبل 2002 میں کیے گئے ایک مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ اقتصادی ترقی پر آئی ایم ایف کے پروگراموں کے طویل مدتی اثرات پر کوئی اتفاق رائے نہیں تھا۔یہ بینکنگ اور سیاسی بحران کے خطرے کو بڑھاتے ہیں، اقتصادی ترقی کو کم کرتے ہیں اور غیر ملکی امداد پر انحصار کرنے والے کم ترقی یافتہ ممالک میں کم موثر ہوتے ہیں۔

تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ آئی ایم ایف کے قرضے معاشی اخلاقی خطرے کا باعث بنتے ہیں، قرض لینے والے ممالک میں  عوامی سرمایہ کاری، مراعات اور سرمایہ کاروں کا اعتماد کم ہوتا ہے۔ پھر بھی یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمیں بیل آؤٹ کیلئے  بار بار آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑتا ہے۔

بین الاقوامی مالیاتی ادارہ آج کل مختلف ممالک کو ممکنہ عوامی پالیسی ایڈجسٹمنٹ کے بارے میں مشورہ نہیں دیتا بلکہ انہیں اپنی من مانی پالیسیوں پر عملدرآمد کیلئے مجبور کرتا ہے۔یہ ترقی یافتہ ممالک کا ایک آلہ رہا ہے کہ وہ کم ترقی یافتہ ممالک پر غلبہ حاصل کریں اور انہیں نیچے لے آئیں۔

افسوس کی بات ہے کہ ہم نے ابھی تک عالمی قرض دہندہ سے مدد مانگنے کے سوا کچھ نہیں کیا جو سامراجی تسلط کی علامت ہے کیونکہ آئی ایم ایف کی زیادہ تر پالیسیاں ترقی کی مخالف اور قرض لینے والے ممالک میں پیداوار میں کمی اور بے روزگاری کا باعث بنتی ہیں  جہاں آمدنی پہلے ہی کم ہوتی ہے۔

Related Posts