مفاہمت کا گلا سڑا اچار

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پیپلز پارٹی کا جو حال ہوا ہے، وہ کوئی ڈھکا چھپا راز نہیں۔ اس حال کے پیش نظر زرداری کے بھاری ہی نہیں بہت بھاری ہونے کا احساس اندرون خانہ جسےسب سے زیادہ ہوگا وہ پیپلز پارٹی کے سوا کون ہوسکتا ہے ؟ معروف ہے کہ موصوف جوڑ توڑ کے بادشاہ ہیں۔

کسی کو بھی خرید لیتے ہیں، کوئی بھی سودا کر لیتے ہیں۔ اس سودے بازی کے نتیجے میں اسٹیبلشمنٹ سے ہاتھ ملا کر بلوچستان سے ن لیگ کی حکومت کو چلتا کر دیتے ہیں۔ ایک قدم مزید بڑھا کر اس سینیٹ کا کسٹوڈین ہی اسٹیبلشمنٹ کا لے آتے ہیں جس سینیٹ میں گونجی رضا ربانی کی سول بالادستی کی پرآواز خواہشوں کو ابھی زیادہ وقت بھی نہیں گزرا ہوتا۔

مگر سوچنے والی بات یہ ہے کہ زرداری کا ہر سودا بادی النظر میں تو کامیابی کی نوید نظر آیا، پھر کیا وجہ ہے کہ ہر کامیاب سودے بازی کے نتیجے میں سیاسی اسٹاک مارکیٹ میں اس کے شیئرز مسلسل گرتے ہی چلے جا رہے ہیں؟ شاید اس لئے کہ جس طرح سیاست کا میدان کرکٹ ورلڈکپ کے زور پر نہیں مارا جاسکتا، اسی طرح اپنی سیاست کو محض خرید و فروخت کے دم پر بھی کامیاب نہیں بنایا جاسکتا۔

آپ ایک دن سنجرانی کو اپنے سینیٹرز کے ووٹ اور بلاول کے لڈو پیش کریں گے اور دوسرے دن اسی سنجرانی سے مقابلے کے لئے یوسف رضا گیلانی کو میدان میں اتاریں گےتو اس سب میں سیاستداں تو سیاستداں خود سیاست ہی انگشت بدنداں ہوجائے گی۔ سیاست حیران ہونے کا نہیں حیران کرنے کا آرٹ ہے۔

رعایت اللہ فاروقی کا کالم : کیا اسٹیبلشمنٹ کی بالادستی کا خاتمہ ممکن ہے ؟

آپ مفاہمت کی نام نہاد پالیسی کے نتیجے میں پیپلز پارٹی کا بھٹہ تو بٹھا چکے۔ اب آپ ان جماعتوں کو بھی اسی راہ پر چلانے کی کوشش کر رہے ہیں، جو کسی مفاہمت نما سرنڈر پر یقین نہیں رکھتیں۔ اور پھر آپ طعنے بھی اس باپ بیٹی کو دیتے ہیں جن میں سے ایک اپنی اہلیہ اور دوسری اپنی ماں کو بستر مرگ پر چھوڑ کر جیل چلے آئے۔

معلوم نہیں کہ زرداری کے سودے باز دماغ میں ایسے اقدام کیا کہلاتے ہیں لیکن سیاسی تاریخ کی آنکھ اسے ہمیشہ قدر و منزلت کی نگاہ سے ہی دیکھے گی۔ بہت ہی نازک لمحوں میں ایسے دلیرانہ فیصلے کرنے والے نواز شریف زرداری سطح کی مفاہمت کریں گے تو یہ گرنے کی سطح ہے۔ سو وہ زرداری والی سطح پر کبھی بھی نہیں جائیں گے۔

پیپلز پارٹی محترمہ بینظیر بھٹو شہید کے یوم شہادت پر جلسوں کا شوق جتنا بھی پورا کرلے مگر اس حقیقت کو نہیں بدل سکتی کہ وہ محترمہ قتل کیس پر ہی مفاہمت کی مٹی ڈال چکی۔ آج نہ تو محترمہ بینظیر بھٹو شہید کے خون کا کوئی مدعی ہے اور نہ ہی والی وارث۔

جو میدان میں نظر آرہے ہیں یہ تو بس ان کے نام کی سیاسی چپاتیاں توڑنے والے ہیں۔ پیپلزپارٹی کی بڑ بولی قیادت کو بھولنا نہیں چاہئے کہ جب ن لیگ جمہوری جدوجہد کر رہی تھی تو وہ نون لیگ کو کچلنے کی کوششیں کرنے والی اسٹیبلشمنٹ کے سہولت کار کے طور پر متحرک تھی۔ اگر پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے اپنے سیاسی گناہ دھونے کا موقع ملا ہے تو اسے مفاہمت پارٹ ٹو کیلئے استعمال کرنا کہاں کی دانشمندی ہے؟

پی ڈی ایم کے آخری اجلاس میں پیپلزپارٹی نے جو رویہ اختیار کیا اور اجلاس کی جو من چاہی خبریں لیک کروائیں اس کا فائدہ کسے ہوا اور نقصان کسے ؟ یہ حرکت خود اس زرداری کو ہی بھاری پڑی جس کا بھاری ہونا پیپلز پارٹی کا پہلے ہی سیاسی کچومر نکال چکا۔ اگلے چوبیس گھنٹوں میں ایک نئی سیاسی حقیقت سیاسی منظر نامے پر چھاتی نظر آئی۔ ایسی حقیقت جس نے ہر اینٹی اسٹیبلشمنٹ سندھی کو ہی بے دست و پا کردیا۔

زرداری کے شرمناک رویے نے ہر طرف یہ باور کرادیا کہ پرواسٹیبلشمنٹ ہونے کا جو الزام سندھ ہمیشہ سے پنجاب کے سر تھوپتا آیا تھا ، اس کا بدنما داغ آنِ واحد میں پنجاب سے دھل کر سندھ کے دامن پر منتقل ہوگیا۔

اس روز سندھ میں سرے سے کوئی اینٹی اسٹیبلشمنٹ جماعت ہی باقی نہ بچی تھی۔ اس روز پیپلزپارٹی، جی ڈی اے، ایم کیو ایم اور پاک سرزمین پارٹی سمیت سندھ کی چاروں سیاسی جماعتیں اسٹیبلشمنٹ  کی چھتری تلے تھیں جبکہ پنجاب، خیبرپختونخوا اور بلوچستان کی جماعتیں اینٹی اسٹیبلشمنٹ ایجنڈے کے ساتھ پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم پر باقی رہ گئی تھیں۔

اگر زرداری سمجھتے ہیں کہ یہ پیپلزپارٹی کے لئے کوئی مثالی صورتحال تھی تو یہ خوش فہمی کسی منصفانہ الیکشن میں سندھ سے ہی ان کا بوریا بستر گول کردے گی۔ سندھ میں زرداری کے بھاری پن سے پیدا ہونے والا یہ ویکیوم نون لیگ جانے دے گی؟

پچھلے تین دن کی سرگرمیوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ شدید عوامی ردعمل سے پیپلزپارٹی کے ہوش ٹھکانے آگئے ہیں اور اب وہ باعزت واپسی کیلئے ہاتھ پیر مار رہی ہے لیکن اسے بھولنا نہیں چاہئے کہ پی ڈی ایم جیسا بھی ہے، اس ملک کا واحد جمہوری پلیٹ فارم ہے۔

اس پلیٹ فارم سے جو اترا، وہ کہیں کا نہیں رہے گا۔ اگر پیپلز پارٹی نے اسٹیبلشمنٹ کی سی ٹیم والا اپنا تاثر ختم کرکے اپنی سیاسی ساکھ بحال کرنی ہے تو اسے کسی جمہوری پارٹی جیسا چلن ہی اختیار کرنا ہوگا۔ زرداری کا مفاہمت والا اچار گل سڑ چکا۔ یہ اب بکنے والا نہیں !

رعایت اللہ فاروقی کا کالم : گیلانی کی فتح، اب آگے کیا ؟

 

 

 

Related Posts