اصل رپورٹ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

13 دسمبر کی تاریخ آئی اور گزر گئی۔ پی ڈی ایم کا جلسہ ہونا تھا، سو ہوکر رہا۔ یہ جلسہ اس حد تک “ناکام” تھا کہ اس نے شروع پانچ بجے ہونا تھا مگر کچھ وزرا ء نے دن ایک بجے ہی ناکامی کا چاند چڑھا دیا۔

جلسے کی ناکامی کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہوگا کہ اس کے آغاز سے قبل حکومت کو وزیر داخلہ تبدیل کرنا پڑا، جلسہ شروع ہوا تو وزیر اعظم کی دو عدد کتوں کے ساتھ تصویر جاری کرنی پڑیں جبکہ جلسے کے اختتام کے بعد سے وزیر خارجہ خارجہ امور کی ذمہ داریاں پست پشت ڈال کر ملک کی اندرونی صورتحال پر بریفنگز دیتے نظر آرہے ہیں۔

گویا بھارت کی طرف سے مکمل اطمینان ہے۔ خطرہ جو بھی ہے اندر سے ہے۔ ایسے میں شاہ محمود قریشی وزارت داخلہ اور وزارت اطلاعات کا ہاتھ بٹا کر کیا برا کرتے ہیں ؟۔ جلسے کے اگلے روز وفاقی کابینہ کا پانچ گھنٹے کا اجلاس ہوا۔ اطلاعات کے مطابق ایجنڈے پر صرف پی ڈی ایم کا جلسہ رہا۔

سوال یہ ہے کہ جلسہ تو ناکام ہوچکا تھا تو پھر اس پر پانچ گھنٹے تک وفاقی کابینہ کے اجلاس کی کیا وجہ تھی ؟ اور وہ بھی ایسا اجلاس جو پانچ گھنٹے چلا۔ شاید اس بات پر غور و خوض ہوا ہو کہ حکومت سے ایسی کیا غلطی ہوئی جس کے سبب پی ڈی ایم کا جلسہ ناکام ہوگیا۔ یا پھر اس بات پر طویل سوچ بچار چلی ہو کہ اس جلسے کی “ناکامی” کے جو اثرات حکومت پر پڑنا شروع گئے ہیں ان کا تدارک کیونکر کیا جائے ؟۔

لگ ایسا رہا ہے کہ دوسری بات ہی درست ہے۔ کیونکہ حکومت مذاکرات کے لئے کمیٹی بناتی نظر آرہی ہے۔ وہ کمیٹی جس نے سیاسی کوچوں میں پھر کر “مذاکرات دیدو ! مذاکرات دیدو !” کی اپیلیں کرنی ہیں۔ یہ وہی حکومت ہے جس کے وزیر اعظم کہا کرتے تھے، چوروں سے کوئی بات نہیں ہوگی، سب کو اندر کروں گا۔ اب چور بات نہیں کرنا چاہتے اور یہ کمیٹیاں بنا کر بات چیت کے طلبگار ہیں۔

جانتے ہیں کیوں ؟ کیونکہ لاہور کا جلسہ بری طرح ناکام ہوگیا ہے۔ اگر وہ جلسہ خدا نخواستہ کامیاب ہوجاتا تو حکومت کو نہ تو وزیر بدلنے پڑتے، نہ پریشانی کے عالم میں وفاقی کابینہ کے پانچ پانچ گھنٹے طویل اجلاس کرنے کی ضرورت پیش آتی اور نہ ہی اسے مذاکرات کے لئے کمیٹیاں تشکیل دینے کی حاجت رہتی مگر حکومت کی بدقسمتی کہ جلسہ بری طرح ناکام ہوگیا۔

شنید ہے کہ اجلاس شروع ہوتے ہی وزیر اعظم نے جلسے سے متعلق سب سے رپورٹس مانگیں۔ ہر وزیر وہی بات دہراتا گیا جو جلسے کے روز چینلز پر ارشاد فرمایا تھا۔ گویا “سب اچھا” کی رپورٹ۔ مگر جانے کیوں وزیر اعظم کو یقین نہ آیا۔

جاننے والے بتاتے ہیں کہ انہوں نے بار بار کہا کہ یہ اے آر وائی کا اسٹوڈیو نہیں وفاقی کابینہ کا اجلاس ہے، لہٰذا یہاں اصل صورتحال اور اصل تعداد بتائی جائے تاکہ اس کے مطابق حکمت عملی تشکیل دی جا سکے۔ مگر سب وہی دہراتے رہے جو ٹی وی پر کہا تھا۔ کہتے ہیں ان سے مایوس ہوکر وزیر اعظم نے انٹیلی جنس ایجنسیوں سے “اصل رپورٹ” طلب کرلی ہے۔ اگر وہاں سے بھی وہی بتادیا گیا جو جلسے والے روز نیوز چینلز پر حکومتی موقف تھا تو پھر تو بی بی سی اور الجزیرہ کی “گمراہ کن” رپورٹس پر ہی تکیہ کرنا پڑے گا۔

سمجھ نہیں آتی کہ جو ان کے ساتھ ایک پیج پر ہیں انہوں نے کوئی اصل رپورٹ کیوں نہیں دی ؟ اگر ان کی جانب سے وہ وزیر اعظم کو صبح تڑکے اصل رپورٹ دیدی جاتی تو انہیں دوسروں سے کیوں مانگنی پڑتی ؟ کیا ایک پیج دو حصوں میں تقسیم ہوچکا ہے اور ہر حصہ اپنے اپنے مفاد کے تحفظ میں مگن ہے ؟ پی ڈی ایم نے حسب وعدہ جلسے میں بڑے اعلانات کا معاملہ اچانک مؤخر کیوں کردیا ؟ انتہائی “محب وطن” مصطفیٰ کمال اچانک ٹی وی انٹرویو میں وہ بات کیوں کہہ گئے جو انتخابات والے دن کے حوالے سے پی ڈی ایم کا موقف ہے ؟ ۔

کیا وہ اب محب وطن نہیں رہے ؟ نہیں، وہ آج بھی پکے محب وطن ہیں۔ تو کیا محب وطن شخصیات کو اشارے ملنے شروع ہوگئے ؟ اگر ایسا ہی ہے تو حکومتی شاخ تو ایسے ایم این ایز سے بھری پڑی ہے جو کسی کو اپنی حب الوطنی کا ثبوت دینے سے ہی بھان متی کے کنبے کا حصہ بنے ہیں۔

کیا اب وہ وقت آیا چاہتا ہے جب الوطنی ثابت کرنے کو ہی یہ کنبہ چھوڑنا بھی پڑے گا ؟ حب الوطنی کا ثبوت تو خیر جتنی بار دیا جائے اتنا ہی مزہ ہے۔ کوئی شک نہیں کہ یہ ارکان مستقبل میں بھی اس کا ثبوت دینے سے دریغ نہ کریں گے۔

سوال بس اتنا سا ہے کہ مستقبل قریب یا تھوڑا بعید ؟ بہت ہی بے یقینی کی فضاء ہے۔ سبب اس کا بس ایک ہے۔ اور وہ یہ کہ پی ڈی ایم کا لاہور جلسہ بری طرح ناکام ہوگیا۔ یہ جلسہ ناکام نہ ہوتا تو حکومت چین کی ہی بنسری بجا رہی ہوتی۔

شیخ رشید ریلوے بوگیوں کا حساب کتاب دیکھ رہے ہوتے، شاہ محمود قریشی وزارت خارجہ کی فائلوں کی ورق گردانی کرتے نظر آتے اور وزیر اعظم کو بھی جلسے کی اصل رپورٹ کی تلاش بھی نہ ہوتی۔

گزشتہ کالم:اجازت نہیں ہے مگر۔۔۔

نوٹ: ادارے کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Related Posts