اجازت نہیں ہے مگر۔۔۔

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

آج 13 دسمبر ہے۔ وہی 13 دسمبر جس کے لئے ملتان میں ارسطو کی قبر پر لات مارنے کے بعد اعلان کیا گیا کہ ہم لاہور جلسے سے روکیں گے نہیں مگر اجازت نہ ہوگی۔ اگر غور کیجئے تو اس پالیسی کو اعلان کی صورت مشتہر تو پہلی بار کیا گیا مگر روبعمل یہ پہلے سے ہی چلی آرہی تھی۔

اقتدار میں آتے ہی دوائیوں کی قیمتوں میں لوٹ مار مچانے والے شاید اچھی طرح جانتے کہ جو وہ کر رہے ہیں اس کی اجازت تو نہیں ہے مگر انہیں کوئی روکے گا نہیں۔ ساہیوال میں معصوم بچوں کے سامنے ان کے والدین کو پولیس مقابلے میں مارنے والے پولیس اہلکار بھی شاید بخوبی واقف تھے کہ جعلی پولیس مقابلے کی اجازت تو نہیں مگر انہیں روکا نہیں جائے گا۔

پشاور کی بی آر ٹی تعمیر کرنے والی کمپنی بھی شاید جانتی تھی کہ گھٹیا معیار کی تعمیرات کی اجازت تو نہیں ہے مگر اسے روکا نہیں جائے گا۔ بی آر ٹی کے لئے دھکا اسٹارٹ بسیں خریدنے والے بھی شایدجانتے تھے کہ کھٹارا بسیں خرینے کی اجازت نہیں ہے مگر انہیں خریدنے سے روکا نہیں جائے گا۔ چینی کی قیمتوں کو آسمان پر پہنچا کر عوام کی جیب پر اربوں روپے کا ڈاکہ ڈالنے والے بھی جانتے تھے کہ اس ڈاکے کی اجازت تو نہیں ہے مگر انہیں روکا نہیں جائے گا۔

چینی کی تاریخ گندم کے معاملے میں دہرانے والے بھی شاید بخوبی جانتے تھے کہ عوام کی جیب کاٹنے کی اجازت تو نہیں ہے مگر انہیں روکا نہیں جائے گا۔ ایل این جی کا ٹینڈر تاخیر سے جاری کرکے مہنگی گیس خریدنے کی کوشش کرنے والے بھی شاید جانتے تھے کہ ملک کو اربوں روپے کا نقصان ہی نہیں بلکہ گیس کے بحران سے دوچار کرنے کی اجازت تو نہیں ہے مگر انہیں کوئی روکے گا نہیں۔

 جس حکومت نے ان مذکورہ جرائم کا رتکاب کرنے والوں کو بھی نہیں روکا وہ کس طرح یہ احسان جتانے کی کوشش کر رہی ہے کہ جمہوری جد و جہد کی عالمگیر روایات پر عمل کی اجازت تو نہیں ہے مگر ہم روکیں گے نہیں ؟ پوری دنیا میں لوٹ مار کی اجازت بھی نہیں ہوتی اور اس سے روکا بھی جاتا ہے جبکہ جمہوری سرگرمیوں کی اجازت بھی ہوتی ہے اور اس سے روکا بھی نہیں جاتا۔

دوسری جانب ہماری حکومت کی یہ نرالی منطق ہے کہ لوٹ مار کے معاملے میں اس کا چلن یہ ہے کہ ان جرائم کی اجازت تو نہیں مگر اسے روکنے کا تکلف نہیں اٹھاتی۔ جبکہ جائز جمہوری جد و جہد کے باب میں یہ فرماتی ہے، روکیں گے نہیں مگر اجازت نہیں ہے۔کس نے سوچا تھا کہ تبدیلی کے نام پر ایسی انوکھی حکومت بھی ہم حرماں نصیبوں کے مقدر میں ہوگی جو قانون توڑنے اور لوٹ مار مچانے والوں کے لئے تو روز اول سے ہی یہ غیر علانیہ پالیسی رکھے گی کہ لوٹ مار کی اجازت تو نہیں ہے مگر روکا نہیں جائے گا، اور یہ لٹیرے ہر واردات کے بعد بھی آزاد دندناتے پھریں گے؟

کس نے سوچا تھا کہ جمہوریت کی بات کرنے والوں کو نیب کی چکی میں پسوانے کے بعد کہا جائے گا کہ جمہوری سرگرمیوں کی اجازت تو نہیں ہے مگر ہم روکیں گے نہیں؟ اور پھر اگلی ہی سانس میں یہ دھمکی بھی دی جائے گی کہ تم سے جلسے کے بعد نمٹ لیں گے۔ سوال یہ ہے کہ نیب چینی، گندم، گیس، بی آرٹی اور ادویات کی قیمتوں کی آڑ میں “کرپشن” کرنے والوں کا تعاقب کیوں نہیں کرتی ؟

جو دھمکی جمہوری کارکنوں کو دی جاتی ہے ایسی ہی دھمکی چوروں اور لٹیروں کو دینے والے منہ اس حکومت کے پاس ناپید کیوں ہیں ؟ اگر نیب کو سیاسی کارکنوں اور تاجروں کے پیچھے لگانے کے بجائے چوروں اور لٹیروں کے پیچھے لگایا ہوتا تو ملک اس تباہی سے دوچار نہ ہوتا جس کے نتیجے میں آج اپوزیشن کو “نجات دہندہ” کی حیثیت حاصل ہوگئی ہے۔

اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ زور ہر اپوزیشن لگاتی ہے مگر کامیاب وہی ہوتی ہے جسے عوام کی ہمراہی میسر ہو۔ اور عوام اپوزیشن کی ہمراہی تب ہی اختیار کرتے ہیں جب انہیں حکومت نے مایوس کردیا ہو۔ اس خوش فہمی سے نکل آنا چاہئے کہ چونکہ آپ نواز شریف کی حکومت دھرنوں اور جلسوں سے نہیں گرا سکے تھے سو اس کا سیدھا سا مطلب یہ ہے کہ آپ کی حکومت بھی نہیں گرائی جاسکے گی۔

آپ کے پاس نہ تو اخلاقی جواز تھا اور نہ ہی آئنی، کیونکہ آپ عوام کے لئے نہیں کسی اور کے لئے جد و جہد کر رہے تھے۔ وہی جس کی انگلی کا آپ انتظار کرتے رہے مگر وہ آپ کو درکار عوامی قوت نہ ہونے کے سبب انگلی اٹھانے کا حوصلہ ہی نہ کر پائے۔ جو اس بار آرہے ہیں وہ انگلی والوں کو پہلے ہی انگوٹھا دکھا چکے ہیں۔ وہ کسی کی انگلی اٹھوانے نہیں آرہے بلکہ آپ کا تخت اٹھانے آرہے ہیں۔ انگلی کے زور پر کھڑا تخت عوام کا مقابلہ کس طرح کر سکتا ہے ؟ جو پورا زور لگا کر بھی ملتان میں جلسہ نہیں رکواسکے تھے وہ اپنا تخت کیسے بچا پائیں گے؟

گزشتہ کالم:جو بویا ہے وہ کاٹنا تو پڑے گا

Related Posts