اسلام آباد: تھانہ نیلور پولیس کی پھرتیاں، اراضی کے تنازعہ پر قتل ہونے والے نوجوان کے قتل میں اصل ملزمان کی جگہ 72 سالہ قوت سماعت اور بینائی سے محروم شخص کو گرفتار کرکے اڈیالہ جیل پہنچا دیا۔ فائرنگ کے الزام میں گرفتار بزرگ صحیح طرح چل پھر بھی نہیں سکتے۔ بزرگ کے ورثاء نے وزیر داخلہ، آئی جی، ایس ایس پی آپریشنز اسلام آباد سے نوٹس لیتے ہوئے انصاف فراہم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
چراہ کے رہائشی قدیر احمد نے ایم ایم نیوز کو بتایاکہ 26 جون 2021ء کی شام پونے آٹھ بجے میرے پھوپھی زاد بھائی راجہ کامران اور مخالفین کے مابین اراضی کے تنازع پر فائرنگ کا تبادلہ ہوا جس میں راجہ کامران کا ڈرائیور احتشام نامی نوجوان گولی لگنے سے جاں بحق ہوگیا۔ اس واقعہ کا مقدمہ نمبر 130/21 بجرم 302/148/149 تھانہ نیلور پولیس نے درج کیا۔
ایف آئی آر مقتول کے والد کی مدعیت میں درج کی گئی جس میں راجہ کامران اور حیات ملنگی نامزد ہیں۔ جبکہ پولیس نے میرے 72 سالہ بزرگ والد محبوب خان جو قوت سماعت اور بینائی سے محروم ہیں اور صحیح طرح چل پھر بھی نہیں سکتے انہیں گرفتار کرلیا ہے۔ بزرگ کا اس واقعہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ بلاشبہ ہماری مشترکہ زمین ہے لیکن میرے بزرگ والد کو ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت قتل کے مقدمے میں پھنسایا گیا ہے۔ حالانکہ وہ بالکل بے گناہ ہے۔ اصل ملزمان دندناتے پھر رہے ہیں۔ جنہیں تاحال گرفتار نہیں کیا گیا۔ہم غریب لوگ ہیں۔ ہماری حکام بالا سے اپیل ہے کہ ہمیں انصاف فراہم کیا جائے۔
معلوم ہوا ہے کہ اس واقعہ سے دو روز قبل 24جون 2021ء کو بھی اراضی پر قابض ملزمان فاروق، خالد، ارشاد اور دیگر نے خوف و ہراس پھیلانے کے لئے کئی گھنٹوں تک فائرنگ کی تھی۔ جس پر نیلور پولیس کو اطلاع دی گئی۔ ایس ایچ او تھانہ نیلور ستار بیگ نفری کے ہمراہ جب مذکورہ پہاڑی کی طرف جانے لگا تو قبضہ مافیا نے ان پر بھی فائرنگ کی تھی۔ تاہم وہ خوش قسمتی سے بال بال بچ گئے۔
قدیر احمد کا کہنا ہے فائرنگ کے اس واقعہ کے ٹھیک 2 روز بعد 26 جون کو ملزمان اور اراضی میں حصہ دار راجہ کامران وغیرہ کا دوبارہ جھگڑا ہوا اور 3 گھٹنے تک فائرنگ ہوتی رہی۔ اس دوران راجہ کامران کا ڈرائیور احتشام گولی لگنے سے دم توڑ گیا۔ قابل ذکر امر یہ ہے کہ پولیس نے اس واقعہ میں قبضہ مافیا کا اور اراضی پر قبضہ کرنے کا ذکر ہی گول کر دیا اور مقتول کے والد کی مدعیت میں راجہ کامران اور اس کے ساتھیوں کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کرلیا۔
قدیر احمد کا کہنا ہے کہ ملزمان کو تو پولیس نے گرفتار کیا اور میرے بے گناہ والد کو گرفتار کرلیا ہے۔ قدیر احمد نے بتایا کہ نوجوان کی ہلاکت کے افسوسناک واقعہ کے بعد مذکورہ بزرگ محبوب خان اپنے بڑے بیٹے کے ہمراہ خود چل کر تھانے آیا اور ملزمان کے خلاف قانونی کارروائی کی درخواست کی لیکن پولیس نے اسے ہی پکڑ کر اندر کر دیا۔
ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ چراہ میں یہ متنازع پہاڑی اور شاملاتی اراضی 27 ہزار کنال پر مشتمل ہے۔ جہاں ہاؤسنگ سوسائٹی بنانے کی تیاریاں کی جارہی ہیں اور کئی بااثر پارٹیاں سرگرم ہیں۔
ذرائع کے مطابق مفرور ملزم راجہ کامران کی طرف سے اپنے مخالفین پر کیس بنانے کے لئے اپنے ہی ڈرائیور احتشام پر گولی چلانے کے حوالے سے بھی اگر پولیس غیر جانبدارانہ انکوائری کرے تو اصل حقائق سامنے آسکتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں : جناح سندھ میڈیکل یونیورسٹی میں وائس چانسلر کی تعیناتی اقربا پروری ہے، ڈاکٹر لبنیٰ