مقبوضہ کشمیر میں یومِ مزاحمتِ نسواں کے موقعے پر پاکستان کی ذمہ داریاں

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

India grants 300,000 non-residents domicile status in IOK

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

مقبوضہ جموں و کشمیر وہ وادئ جنت نظیر ہے جس کے حسن کی مثال پوری دنیا میں کہیں نہیں ملتی جبکہ یہاں کے باشندے جرات و بہادری اور عزم و ہمت کی درخشندہ مثال ہیں۔

آج مقبوضہ جموں و کشمیر میں قومی یومِ مزاحمتِ نسواں منایا جارہا ہے جس کا مقصد بھارتی افواج کے ہاتھوں جنسی زیادتی کا شکار کشمیری خواتین کی یاد تازہ کرنا ہے۔

یومِ مزاحمتِ نسواں کا مطلب کیا ہے؟

مقبوضہ کشمیر کا بچہ بچہ بھارتی ظلم و استبداد کے خلاف آہنی چٹان بن کر سینہ سپر ہے جو حقِ خود ارادیت کے لیے جان دینے کو ہر لحظہ تیار نظر آتا ہے۔

بھارت کی خواتین بھی اس جدوجہدِ آزادی میں کسی سے پیچھے نہیں۔ جب شہید جوانوں کے جنازے اٹھتے ہیں تو کشمیری مائیں ان میں سب سے آگے نظر آتی ہیں۔

وادی کی ماؤں بہنوں نے جدوجہدِ کشمیر میں اپنا خون ہی نہیں دیا بلکہ آبرو ریزی اور عصمت دری کے سنگین مظالم بھی سہے جنہیں تاریخ کبھی فراموش نہیں کرسکتی۔

یومِ مزاحمتِ نسواں سے مراد وہ دن ہے جب مقبوضہ جموں و کشمیر میں مظالم کا سیاہ ترین باب رقم ہوا۔ بھارتی فوج نے خواتین کی اجتماعی عصمت دری کی جس پر وقت کی تاریخ آج تک نوحہ کناں ہے۔

مظلوم کشمیری اس دن اپنی ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کی اجتماعی عصمت دری کی یاد تازہ کرکے دراصل بھارت کے ظلم و استبداد کا مکروہ چہرہ پوری دنیا پر بے نقاب کر رہے ہیں۔

عصمت دری ایک جنگی ہتھیار

انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے گزشتہ برس نومبر میں یہ لرزہ خیز انکشاف کیا کہ بھارتی فوج مقبوضہ کشمیر میں عصمت دری کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کرتی ہے۔

دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہلانے والا بھارت خواتین کی عصمت دری کے سنگین جرم پر بھارتی فوجیوں کو کوئی سزا نہیں دیتا، نہ ہی ان پر کسی بھی قسم کا کوئی مقدمہ قائم کیا جاتا ہے۔

جنگ میں ہر اصول کو توڑنا اور عورتوں اور بچوں پر سخت ترین ظلم کرنا نریندر مودی حکومت کے نزدیک ایک جنگی ہتھیار بن چکا ہے جس کے استعمال سے ہر گزرتے دن کے ساتھ ایک سیاہ باب مزید رقم ہوتا چلا جارہا ہے۔

لاک ڈاؤن کے دوران خواتین کی صورتحال

مقبوضہ جموں و کشمیر میں تاریخِ انسانی کا بدترین کرفیو اور لاک ڈاؤن نافذ ہے جسے گزشتہ برس 5 اگست کو شروع کیا گیا اور آج تک مقبوضہ وادی مواصلات، ٹرانسپورٹ، ٹیلی فون اور ٹی وی جیسی سہولیات سے یکسر محروم ہے۔

سوال یہ ہے کہ اس تمام تر صورتحال میں خواتین کے حقوق اور ان کی عصمت کے تحفظ کی کیا گارنٹی دی جاسکتی ہے؟ کیا بھارت جیسے غاصب سے کشمیر کی ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کی عصمت محفوظ رہ سکتی ہے؟

اس انتہائی اہم اور سنگین سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں۔ کیونکہ مواصلاتی لاک ڈاؤن کے باعث مظلوم کشمیریوں کا رابطہ بیرونی دنیا سے مکمل طور پر کٹ چکا ہے اور وہ بھارت کے مظالم کی حقیقی داستان بیان کرنے سے قاصر ہیں۔

شہادتوں اور جنسی زیادتی کے اعدادوشمار

مقبوضہ کشمیر میں سال 2015ءاور 2016ء کے دوران عصمت دری کے 595 مقدمات رجسٹر کیے گئے۔ بھارتی میڈیا کے سرکاری اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ 213 عصمت دری کے واقعات کشمیر اور لداخ میں ہوئے۔

یکم جون 2019ء کو کشمیر میڈیا سروس کی جانب سے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق بھارتی فوجیوں نے صرف ایک ماہ کے دوران 5 خواتین کی بے حرمتی کی اور 39 گھروں کو مسمار کیا۔ 34 کشمیریوں کو شہید کردیا گیا۔

بھارتی وزارتِ داخلہ کے مطابق 1990ء کے بعد سے اب تک 71 ہزار 38 متشدد واقعات میں 41 ہزار 866 افراد کو شہید کردیا گیا جن میں سے 14 ہزار 38 عام شہری جبکہ 5 ہزار 292سیکورٹی اہلکار تھے۔

وزارتِ داخلہ نے شہید ہونے والے 22 ہزار 536 افراد کو عسکریت پسند قرار دیا جو دراصل جدوجہدِ آزادئ کشمیر میں کام آنے والے نوجوان اور عوام الناس ہوسکتے ہیں۔

دوسری جانب بھارتی وزارتِ داخلہ کی یہ رپورٹ عالمی اداروں نے مسترد کردی۔ ایک عالمی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق 1990ء سے اب تک کم از کم 95 ہزار 450 افرادکو شہید کیا گیا جو زیادہ تر معصوم شہری تھے۔ 

پاکستان کی ذمہ داریاں

کشمیر بنے گا پاکستان کے نعرے پر کٹ مرنے والے مظلوم کشمیریوں کے لیے حکومتِ پاکستان کی ذمہ داریاں آج پہلے سے کہیں زیادہ ہوگئی ہیں، شاید یہی وجہ ہے کہ آج حکومت کشمیر کا نام گزشتہ تمام حکومتوں کی نسبت زیادہ لیتی ہے۔

وفاقی وزراء اس بات کا برملا اظہار کرچکے ہیں کہ مقبوضہ جموں و کشمیر کے معاملے کو گزشتہ حکمرانوں نے پسِ پشت ڈال دیا جس کے سبب آج بھی کشمیریوں کا حقِ خود ارادیت اور حقِ استصوابِ رائے انہیں نہیں مل سکا۔

آج وزیر اعظم عمران خان کی قیادت میں تحریکِ انصاف کی وفاقی حکومت کی  یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ مظلوم کشمیریوں کو ان کے حقوق دلوانے کے لیے کسی بھی لیت و لعل سے کام نہ لے۔

ہم نے مقبوضہ جموں و کشمیر کا معاملہ ہر عالمی فورم پر اٹھا کر دیکھ لیا اور ہمیں یہ علم ہوا کہ عالمی برادری اس مسئلے کو اتنی سنجیدگی سے نہیں لیتی جتنا کہ پاکستان اور مظلوم کشمیریوں کی نظر میں اس کی اہمیت ہے۔

اس سنگین حقیقت کے بے نقاب ہوجانے کے بعد پاکستان کو چاہئے کہ غاصب بھارت میں جاری ہنگاموں کا فائدہ اٹھا کر انہیں مظلوم کشمیریوں کے حق میں استعمال کرنے کے لیے مؤثر سیاسی حکمتِ عملی ترتیب دے۔

پاکستان کو چاہئے کہ مقبوضہ جموں و کشمیر کے لیے سیاسی و سفارتی کاوشوں سے اہم مسلم ممالک کو اپنا ہم نوا بنائے، جیسا کہ ترکی اور ملائشیاء کے معاملے میں حکومت نے کیا اور یہی حکمتِ عملی کشمیر کی آزادی پر منتج ہوسکتی ہے۔ 

Related Posts