پاکستان کی شہرگ مقبوضہ کشمیر کی آزادی کیلئے جدوجہد اور یومِ یکجہتی

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

پاکستان کی شہرگ مقبوضہ کشمیر کی آزادی کیلئیے جدوجہد اور یومِ یکجہتی
پاکستان کی شہرگ مقبوضہ کشمیر کی آزادی کیلئیے جدوجہد اور یومِ یکجہتی

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

آج 5 فروری کے روز پاکستان سمیت دنیا بھر میں یومِ یکجہتئ کشمیر منایا جارہا ہے جس کے دوران ہاتھوں کی زنجیر بنائی جائے گی، جلسے جلوس اور ریلیاں نکلیں گی اور عالمی برادری سے مسئلۂ کشمیر پر نوٹس لینے اور بھارت کو مظالم سے روکنے کا مطالبہ کیا جائے گا۔ 

آئیے مقبوضہ جموں و کشمیر میں مسلمان بھائیوں کی زندگی کے شب و روز پر ایک نظر ڈالتے ہیں اور یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ گزشتہ 7 دہائیوں سے زیرِ التواء مسئلۂ کشمیر آج تک حل کیوں نہیں ہوسکا؟ اور اگر مسلح جدوجہد یا فوجی حل مسئلۂ کشمیر کو ختم نہیں کرسکتا تو بالآخر مسئلے کے حل کا درست طریقہ کار کیا ہوگا؟

مسئلۂ کشمیر کا آغاز 

قیامِ پاکستان کے وقت 1947ء میں برصغیر بھارت اور پاکستان کے نام سے 2 آزاد ممالک میں تقسیم ہوا جس کے بعد سری نگر کی تاریخی مسجد میں کئی دن تک مسلمان جشن مناتے رہے جبکہ مقبول سیاسی رہنما شیخ عبداللہ قید و بند کی صعوبتوں سے گزر رہے تھے۔

سن 1947ء میں ہی کشمیر کے سماجی و مذہبی رہنما مولوی یوسف شاہ راولپنڈی روڈ کے ذریعے قیامِ پاکستان کی مبارکباد دینے کیلئے قائدِ اعظم کے پاس جا پہنچے تاہم بھارتی حکومت نے بعد میں انہیں کشمیر لوٹنے کی اجازت نہ دی۔

کشمیر کے مہاراجہ ہری سنگھ نے بھارت کے ساتھ الحاق کر لیا اور تجزیہ نگار پی جی رسول کے مطابق شیخ عبداللہ اس سے واقف نہیں تھے۔ اکتوبر 1947ء میں انہیں رہا کردیا گیا اور وہ مہاراجہ کی نگرانی میں ہی جموں و کشمیر کے ایمرجنسی ایڈمنسٹریٹر مقرر ہوئے۔

یہ بڑا تکلیف دہ وقت تھا۔ پاکستان اور بھارت کے کئی علاقے فرقہ وارانہ فسادات کی زد پر تھے۔ ہندو انتہا پسند مسلمانوں کا قتلِ عام کر رہے تھے اور جموں میں مسلمانوں کے خون کی ندیاں بہا دی گئیں۔

بعد ازاں 2 سال تک بھارت اور پاکستان کے درمیان جنگ چھڑی رہی جس کے دوران جذبۂ جہاد سے سرشار قبائلی مسلمانوں نے سری نگر جانے کا فیصلہ کیا۔ اکثر مؤرخین اتفاق کرتے ہیں کہ شیخ عبداللہ کشمیریوں کی امنگوں کے برعکس بھارت کا ساتھ دے رہے تھے۔ 

یومِ یکجہتئ کشمیر کا تاریخی پس منظر 

غاصب بھارت نے 27 اکتوبر 1947ء کو اپنی فوج سری نگر میں اتاری اور پھر پہلی پاک بھارت جنگ بھی چھڑی۔ یکم جنوری 1948ء کے روز بھارت نے اقوامِ متحدہ سے مدد کی اپیل کردی اور 5 فروری 1948ء کو اقوامِ متحدہ نے ایک قرارداد منظور کی۔

قرارداد کے ذریعے اقوامِ متحدہ نے جنگ بندی کا مطالبہ کرتے ہوئے کشمیریوں کو حقِ خود ارادیت دینے کیلئے رائے شماری کرانے کا عندیہ دیا اور یہی وہ قرارداد ہے جس کی یاد میں آج یومِ یکجہتئ کشمیرمنایا جارہا ہے۔

یہی نہیں بلکہ اقوامِ متحدہ نے یکم جنوری 1949ء کو پاکستان اور بھارت کی فوجوں کے درمیان جنگ بندی کرائی اور کشمیر میں رائے شماری کرانے کا اعلان بھی کیا۔ 26 جنوری 1950ء کو بھارتی آئین میں دفعہ 370 کا اضافہ کیا گیا جس کے تحت یہ تسلیم کیا گیا کہ جموں و کشمیر کا خطہ ایک خودمختار حیثیت رکھتا ہے۔ 

آئینی حیثیت میں تبدیلی اور بلیک آؤٹ

اکیسویں صدی کے دوران بھی بھارت نے مقبوضہ جموں و کشمیر کو پتھر کے دور میں دھکیل دیا۔ 5 اگست 2019ء کو بھارت نے آرٹیکل 370 ختم کرکے مقبوضہ کشمیر کی ریاستی حیثیت ختم کردی جس کے بعد سے بھارت مختلف حیلے بہانوں سے خطے کا جغرافیائی تناسب تبدیل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

اب تک مسئلۂ کشمیر پر پاکستان اور بھارت کے درمیان متعدد مرتبہ اعلانیہ و غیر اعلانیہ جنگ ہوچکی ہے۔ لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بھارت پاکستان کے سیکڑوں شہریوں کو مارٹر گولوں اور فائرنگ کا نشانہ بنا چکا ہے۔

مملکتِ خداداد پاکستان کے ہزاروں افراد پاک بھارت جنگ اور ایل او سی فائرنگ کی نذر ہو گئے جبکہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کی ظلم و بربریت کے ہاتھوں ہزاروں کشمیری شہید ہوئے۔ انٹرنیٹ، موبائل فون اور ٹی وی کے استعمال پر تاحال پابندیاں عائد ہیں۔ 

قائدِ اعظم کیلئے مسئلۂ کشمیر کی اہمیت 

بانئ پاکستان قائدِ اعظم محمد علی جناح کیلئے مسئلۂ کشمیر کا حل کس قدر اہم تھا، اس کا اندازہ ان کے آخری ایام سے لگایا جاسکتا ہے جب 10 ستمبر 1948ء کے روز ڈاکٹر الٰہی بخش نے مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح کو بتایا کہ اب قائدِ اعظم کی زندگی کی کوئی امید باقی نہیں رہی۔

ڈاکٹر الٰہی بخش نے محترمہ فاطمہ جناح کو اِس افسوسناک حقیقت سے آگاہ کیا کہ قائدِ اعظم اب صرف چند روز کے مہمان ہیں جبکہ پوری قوم اس وقت اپنے ہر مسئلے کے حل کیلئے گورنر جنرل پاکستان اور بابائے قوم محمد علی جناح کی طرف دیکھ رہی تھی۔

ایسے وقت میں بے ہوشی کے غلبے کے دوران قائدِ اعظم کی زبان سے جو بے ربط الفاظ ادا ہوئے، ان میں سب سے پہلے الفاظ یہ تھے کہ کشمیر، انہیں فیصلہ کرنے کا حق دو۔ یہ وہ الفاظ تھے جن سے پتہ چلتا ہے کہ قائدِ اعظم اپنے آخری لمحات میں بھی مقبوضہ کشمیر کو نہیں بھولے تھے۔

تنازعۂ کشمیر کا حل کیا ہے؟

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مسئلۂ کشمیر خطے کی صورتحال اور پوری دُنیا کے امن و امان کیلئے خطرہ بنتا جارہا ہے کیونکہ پاکستان اور بھارت وہ ممالک نہیں رہے جو سن 70ء یا 80ء کی دہائی میں ہوا کرتے تھے۔

بھارت اور پاکستان آج دو ایٹمی ممالک ہیں جن کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی، مودی سرکار کی ہٹ دھرمی اور امن دشمن پالیسیوں کے باعث دُنیا بھر کے امن کو سنگین خطرات لاحق ہیں۔

عالمی برادری اور اقوامِ متحدہ کے ساتھ ساتھ پاکستان کے سیاسی قائدین اور حکامِ بالا متعدد مواقع پر یہ کہہ چکے ہیں کہ مسئلۂ کشمیر کا کوئی فوجی حل نہیں ہے یعنی طاقت کے استعمال سے اسے حل نہیں کیا جاسکتا۔

ناقابلِ برداشت حد تک تکلیف دہ مظالم جو کشمیر کے ساتھ روا رکھے جا رہے ہیں، ان کے پیشِ نظر کشمیر دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان ایک ایسا بم بن چکا ہے جو کسی بھی وقت پھٹ کر عالمی امن کو تہ و بالا کرسکتا ہے۔ 

وادئ جنت نظیر میں ہر گزرتے روز کے ساتھ صورتحال خراب سے خراب ہوتی جارہی ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے مسئلے کا واحد حل اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے مطابق وادی میں استصوابِ رائے اور پاکستان اور بھارت کا ایک ہی میز پر بیٹھ کر قیامِ امن کیلئے مذاکرات ہیں تاکہ خطے میں پائیدار امن کا خواب شرمندۂ تعبیر ہوسکے۔ 

 

Related Posts