بتایا جائے ٹوئٹر کون بند کر رہا ہے، سندھ ہائی کورٹ شدید برہم

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

سندھ ہائیکورٹ نے الیکشن کے دن انٹرنیٹ سروس کی بندش پر وزارت داخلہ کو جواب جمع کرانے کا حکم دے دیا۔

چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ جسٹس عقیل احمد عباسی کی سربراہی میں دو رکنی بینچ کے روبرو ملک میں انٹرنیٹ سروس بندش کے خلاف درخواستوں کی سماعت ہوئی۔ پی ٹی اے کے وکیل، سرکاری وکلاء اور دیگر پیش ہوئے۔

پی ٹی اے کے وکیل نے موقف دیا کہ ہمیں انٹرنیٹ کی بندش کے لیے احکامات ملے تھے جس کی وجہ سے انٹرنیٹ بند کرنا پڑا۔ عدالت نے پی ٹی اے کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ لوگ اتنے معصوم بن رہے ہیں، اگر چاہیں تو کسی بھی ٹیلی کام کمپنی کو اٹھا کر باہر پھینک سکتے ہیں۔

چیف جسٹس عقیل احمد عباسی نے ریمارکس دیے کہ ہم فی الحال یہ پتا کرنا چاہتے ہیں کہ وہ کیا وجوہات تھیں جس کی بنیاد پر انٹرنیٹ بند کیا گیا تھا۔ قانون کی نظر میں سب لوگ برابر ہیں چاہے وہ کوئی بھی ہو۔ آج کے دن تک انٹرنیٹ ٹھیک طریقے سے نہیں چل رہا۔ منسٹری کو جواب جمع کروانے کے لیے کس چیز کے لیے وقت چاہیے۔

پی ٹی اے کے وکیل نے موقف دیا کہ ہمارے پاس کوئی ایسا سسٹم موجود نہیں کہ انٹرنیٹ بند کر سکیں، ہم صرف کمپنیوں کو ہدایت کرسکتے ہیں۔ ہمارا کام صرف لائسنس دینا ہے اور قانون کے مطابق کمپنیوں کو آپریشن کرنے دینا ہے۔ ہمارے پاس کوئی ایسا سسٹم موجود نہیں کہ سیکولر کمپنیوں کو چلا سکیں یا بند کرسکیں۔

چیف جسٹس عقیل احمد عباسی نے ریمارکس دیے کہ تو آپ لوگ یہاں صرف اس لیے موجود ہیں کہ بس پیپر ورک کرسکیں۔ قانون میں کہیں ایسا نہیں لکھا کہ انٹرنیٹ کو پورے ملک میں بند کر دیا جائے۔ قانون میں مخصوص علاقوں کا کہا گیا جہاں سیکیورٹی کی وجوہات پر موبائل فون سروس بند کی جا سکتی ہیں۔ پی ٹی اے کے وکیل نے موقف اپنایا کہ اگر الیکشن والے دن کے بعد بھی کہیں انٹرنیٹ کی بندش ہے تو ہدایت ہماری جانب سے نہیں کی گئیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہاں پر میڈیا کے لوگ موجود ہیں جس سے آپ پتہ کرسکتے ہیں کہ انٹرنیٹ ٹھیک طریقے سے چل رہا ہے یا نہیں۔

درخواست گزار کے وکیل نے موقف دیا کہ ٹوئٹر کی بندش پر منسٹری آف انٹیریئر لاعلمی کا اظہار کر چکی ہے۔ ہمارے بہت سے علاقوں میں اب بھی ٹوئٹر بند ہے۔ سپریم کورٹ اس حوالے سے کہہ چکی ہے کہ اس طرح کی بندش غیر قانونی ہے، کم سے کم ہمیں جواز ہی دے دیا جائے کہ کیوں ٹوئٹر چل نہیں رہا۔ پیکا ایکٹ کے تحت بھی خصوصی طور پر ویب سائٹ یا کسی لنک کے خلاف کارروائی کی جا سکتی ہے۔

وفاقی حکومت کے وکیل نے موقف دیتے ہوئے کہا کہ 2009 کے قانون کے تحت پی ٹی اے نے تمام موبائل فون کمپنیوں کو سروس بند کرنے کا کہا۔ بدنیتی تب ہوتی جب یہ قانون سازی 2023 یا 2024 میں کی گئی ہوتی۔

جسٹس عبد المبین لاکھو نے ریمارکس دیے کہ اس قانون کے تحت تو مخصوص علاقے میں انٹرنیٹ یا موبائل سروس بند کی جا سکتی ہے۔ پورے ملک میں انٹرنیٹ سروس بند کرنے پر تحفظات ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ اللہ کے فضل سے 8 فروری کو کوئی نقصان نہیں ہوا یہ الیکشن نکل گئے، آگے کیا ہوگا یہ دیکھنا ہوگا۔ جو لوگ ملک چلا رہے ہیں یا پارلیمنٹرین ہیں وہ موبائل فون ہی بند کر دیں گے؟ آپ ہمیں وہ بتائیں جو کوئی نہ جانتا ہو۔ جہاں لا اینڈ آرڈر کی صورتحال خراب ہو قانون نافذ کرنے والے ادارے آپریشن کر رہے ہوں وہاں سروس بند کی جاسکتی ہے۔

پی ٹی اے کے وکیل نے موقف دیا کہ 9 فروری کے بعد کسی کمپنی کو انٹرنیٹ یا موبائل فون سروس بند کرنے کا نہیں کہا۔ چیف جسٹس عقیل احمد عباسی نے استفسار کیا کہ ایکس تو آج بھی بند ہے اگر کوئی کمپنی پی ٹی اے کی ہدایت پر عمل نہیں کرتی تو اس کیخلاف کیا کارروائی کی ہے؟

وکیل درخواست گزار عبدالمعیز جعفری نے موقف دیا کہ آج یہ کہہ دیں گے کہ سارے دہشتگرد ایکس پر جمع ہیں تو کیا ایکس کو بند کر دیا جائے گا۔ 2009 میں تو ایکس سروس پاکستان میں تھی ہی نہیں۔ اگر پی ٹی اے تسلیم کر رہا ہے کہ ایکس ان کی ہدایت پر بند نہیں کیا گیا تو کون ہے جس نے بند کیا ہوا ہے، یہ تو نیشنل سیکیورٹی کا مسئلہ ہے پھر۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کیا ایکس کسی کے کہنے پر یا دباؤ پر کسی ملک میں اپنی سروس معطل کرسکتا ہے۔ جسٹس عبد المبین لاکھو نے ریمارکس میں کہا کہ کیا ایکس نے اپنے کسی آفیشل بیان میں کہا ہے کہ پاکستان میں ہم اپنی سروس بند کر رہے ہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ 9 مئی کی بات تو سمجھ آتی ہے، 8 فروری کے بعد بھی سروس بند ہے یہ بات سمجھ نہیں آرہی ہے۔ بظاہر لگ رہا ہے کہ سوشل میڈیا مینج کیا جا رہا ہے لیکن کون کر رہا ہے یہ بھی سامنے آجائے گا۔ جو صحافی نیشنل ٹی وی پر کچھ وجوہات کی بناء پر نہیں کہہ پاتے اور سوشل میڈیا کے ذریعے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہیں۔ لوگ ان صحافیوں کو سنتے ہیں اور یہ دنیا بھر میں ہوتا ہے۔

عدالت نے توہین عدالت کی درخواست پر چیئرمین پی ٹی اے و دیگر کو نوٹس جاری کر دیے۔ عدالت نے صحافی ضرار کھوڑو کی درخواست پر بھی 20 مارچ تک جواب طلب کرلیا۔ عدالت نے الیکشن کے دن انٹرنیٹ بندش پر آئندہ سماعت پر وزارت داخلہ کو جواب جمع کرانے کا حکم دے دیا۔

عدالت نے ایکس کی بندش پر بھی جواب طلب کرتے ہوئے انٹرنیٹ کی بحالی سے متعلق جاری حکم امتناع میں توسیع کر دی۔

Related Posts