عمران خان کی سیاست ختم، نواز شریف 10 سال تک حکمرانی کریں گے

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

ملک میں جاری انتخابات کے ہنگامے کے دوران ماضی کی طرح ایک بار پھر بنگلہ دیش ماڈل کی گونج سنائی دے رہی ہے، یعنی انتخابات کے بعد ملک چلانے کیلئے بنگلہ دیش کے ماڈل کی پیروی کی جائے گی۔

ایک بڑے سیاسی تجزیہ کار نے دعویٰ کیا ہے کہ مقتدر حلقوں نے ملک کو بنگلہ دیش کے طرز پر چلانے کیلئے دس سالہ منصوبہ تیار کیا ہے، جس کا مقصد ملک کو معاشی استحکام کی راہ پر گامزن کرنا ہے۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ بنگلا دیش ماڈل ہے کیا؟

سینئر تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے اپنے ایک تجزیاتی کالم میں دعویٰ کیا ہے کہ یہ طے ہوا ہے کہ انتخابات کے بعد پاکستان میں بنگلہ دیش کی طرح مستحکم سیاسی حکومت قائم کی جائے گی اور اسے مقتدرہ کی مکمل مدد و حمایت سے دس سال تک چلایا جائے گا۔

سہیل وڑائچ کے مطابق مقصد یہ ہے کہ جس طرح بنگلہ دیش کی وزیراعظم شیخ حسینہ واجد نے اداروں کی مدد سے اپنے ملک کو معاشی ترقی کی راہ پر گامزن کیا ہے اس کی پیروی کی جائے تاکہ پاکستان بھی معاشی اور سیاسی طور پر اپنے قدموں پر کھڑاہو سکے۔

 شیخ حسینہ واجد بنگلہ دیش کے بانی شیخ مجیب الرحمن کی بیٹی اور سب سے زیادہ عرصے تک حکمران رہنے والی خاتون رہنما ہیں، ان کی مدت حکومت 19 برس بنتی ہے، وہ 2014 سے مسلسل برسر اقتدار ہیں اور گزشتہ مہینے ایک متنازع الیکشن میں پانچویں مرتبہ وزیر اعظم منتخب ہوئی ہیں۔

شیخ حسینہ واجد نے بڑی سختی سے اپوزیشن کو دبا کر رکھ دیا ہے اور تمام اداروں کو اعتماد میں لیکر اپنے معاشی ماڈل کو آگے بڑھائے ہوئے ہیں۔ ان کی حکومت پر اپوزیشن کی آواز دبانے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے الزامات لگتے رہتے ہیں، تاہم حسینہ واجد ایسی کسی مخالف آواز پر کوئی دھیان نہیں دیتیں۔

سہیل وڑائچ کا تجزیہ ہے کہ شروع میں اداروں کو اندازہ تھا کہ اگلی حکومت مخلوط ہوگی جس میں ن لیگ کو وزارت ِعظمیٰ اور پیپلزپارٹی کو صدارت ملے گی مگر اب بنگلہ دیش ماڈل اور مستحکم حکومت کے آئیڈیا کی پیروی کرتے ہوئے مخلوط حکومت نہیں بنے گی بلکہ مسلم لیگ ن اور چند چھوٹی سیاسی جماعتوں کے تعاون سے وفاقی حکومت بنے گی۔ 

ان کا کہنا ہے کہ اداروں کا اندازہ ہے کہ 8 فروری کے انتخابات میں ن لیگ بآسانی 100 سے 110 نشستیں جبکہ پیپلز پارٹی 50 سے 55 نشستیں لے گی۔ نواز شریف وزیراعظم ہوں گے شہباز شریف بھی وفاق میں ہی اپنے بھائی کی معاونت کریں گے وہ خاص طور پر مقتدرہ سے رابطہ کار کے فرائض انجام دیں گے۔

 انہوں نے صوبوں میں حکومت سازی کے متعلق بھی دعوے کیے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ پنجاب اور بلوچستان کی صوبائی حکومتیں بھی ن لیگ کے حصے میں آئیں گی۔ تاہم ن لیگ کی پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ کی امیدوار مریم نواز شریف ہیں، اداروں میں ابتدائی طور پر مریم نواز کے نام پر کچھ مزاحمت تھی لیکن شنید ہے کہ مضبوط اور مستحکم وفاق اور پنجاب بنانے کیلئے اسی نام پر اتفاق ہوگیا ہے۔

ان کے بقول سندھ میں پیپلزپارٹی کی صوبائی حکومت واضح طور پر بنتی نظر آرہی ہے جبکہ خیبر پختونخوا میں ابتدائی طور پر تحریک انصاف کی اکثریت ہوگی مگر بعد ازاں پرویز خٹک یا کسی اور کے نام قرعہ فال نکلے گا، پہلے تحریک انصاف کا وزیراعلیٰ بن سکتا ہے۔

اگر مستقبل کا سیاسی منظر نامہ یہی تشکیل پایا تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ مقتدر اداروں کے سیاسی پروجیکٹ میں اگلے دس سال تک عمران خان اور پی ٹی آئی کیلئے کوئی جگہ نہیں ہے۔

دیکھا جائے تو یہ ماڈل ایسا ہے ہی جیسے 2018 میں مبینہ طور پر ملکی سیاست میں “پروجیکٹ عمران خان” کی گونج تھی۔ جس کے مطابق اگلے 15، 20 سالوں کیلئے عمران خان کو برسراقتدار رکھ کر ملک کو معاشی اور سیاسی طور پر “مستحکم” کرنے کا خواب دیکھا گیا تھا، مگر پھر وقت گزرنے کے ساتھ حالات میں ایک سو اسی درجے مختلف تبدیلی رونما ہوگئی۔

دیکھنا یہ ہے کہ موجودہ مبینہ ماڈل کہاں تک منصوبے کے مطابق بروئے کار آتا ہے۔

Related Posts