کیا طالبان کی حکومت افغان خواتین کے لیے دھچکا ہوگی؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

کیا طالبان کی حکومت افغان خواتین کے لیے دھچکا ہوگی؟
کیا طالبان کی حکومت افغان خواتین کے لیے دھچکا ہوگی؟

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

100 سے زیادہ اضلاع پر کنٹرول حاصل کرنے کے بعد افغان طالبان نے افغانستان کے دیہی علاقوں کی جانب پیش قدمی شروع کردی ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق طالبان نے افغانستان کے 85 فیصد حصے پر قبضے کا دعویٰ کیا ہے۔ خدشات ظاہر کیے جارہے ہیں کہ خواتین کے حقوق اور تعلیم کے حصول کے لیے ہونے والے اقدامات کو ختم کیا جاسکتا ہے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق طالبان کے زیر تسلط علاقوں میں خواتین کی تعلیم ، ان کی نقل و حرکت اور لباس کی آزادی پر پہلے ہی پابندی عائد کردی گئی ہے۔ افواہیں گردش کررہی ہیں کہ خواتین پر بغیر برقعے اور محرم کے بغیر گھر سے نکلنے پر پابندی عائد کردی گئی۔

افغانیوں کی ایک بڑی تعداد جو امید ظاہر کررہے تھے کہ طالبان اپنے انتہاپسندانہ نظریات میں نرمی لائیں گے، مقامی آبادیوں پر حالیہ پابندیوں سے معتدل سوچ کے افغانیوں میں مایوسی کی لہر دوڑ گئی ہے۔ شمالی صوبہ بلخ کے متعدد رہائشیوں نے کہا ہے کہ طالبان نے کتابچے تلف کر دیے ہیں، اور مقامی لوگوں کو سخت قوانین پر عمل کرنے کا حکم دیا ہے جو قوانین 1996 سے 2001 تک تھے ان سب کو بحال کردیا گیا ہے۔

طالبان نے خواتین پر جانوروں کی دیکھ بھال کرنے یا زمین پر کام کرنے پر پابندی عائد کردی ہے۔ انہوں نے لڑکیوں کے اسکول بند کر دیئے ہیں، خواتین کو مرد سرپرست کے بغیر گھر سے نکلنے پر پابندی عائد کردی ہے اور تو اور ان پر شادیوں میں شرکت کرنے پر پابندی عائد کردی ہے، اور صرف مرد حضرات ہی شادی کی تقریبات میں شرکت کرسکیں گے۔

امریکی فوج کے انخلاء سے قبل ہی طالبان نے تمام افغانوں کو شرعی قوانین پر سختی عمل درآمد کرنے کا پابند کردیا ہے۔ خواتین کو گھروں تک محدود کردیا گیا جو خاتون محرم کے بغیر گھر سے نکلے کی اس کو سرعام کوڑے لگائے جائیں گے۔

یہ تبدیلی اس وقت سامنے آئی ہے جب صدر اشرف غنی کی حکومت نے لڑکیوں کے لیے متعدد اسکولز کھولے تھے اور خواتین کو افرادی قوت میں شامل کرنے کے لئے نئے قوانین متعارف کرائے تھے۔ آج سرکاری ملازمتوں میں خواتین کا 30 فیصد کوٹہ ہے جبکہ طالبان کے دور حکومت میں انہیں اپنے گھروں سے باہر کام کرنے کی اجازت نہیں تھی۔

ابتدائی طور پر طالبان کی قیادت نے اس نئی حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے اور جاری پالیسیوں کو تبدیل نہ کرنے کا کھلے دل سے اشارہ دیا ہے۔ انہوں نے کہا تھاکہ وہ پالیسیز کو تبدیل نہیں کریں گے مگر ان کے عمل سے لگتا ہے کہ وہ اپنے وعدے ایفاء نہیں کریں گے۔  

یہاں تک اب قدامت پسند پس منظر سے تعلق رکھنے والی تمام خواتین کی تعلیم ، خواتین کی آزادی ار کیریئر کے انتخاب کے ذریعے اپنے خاندان کی زیادہ سے زیادہ مدد کرنے کی خواہشمند ہیں۔ آزادی پسند خواتین کی سوچ انہیں طالبان کے خلاف لے جائے گی۔

طالبان سوچ کی مخالفت کرتے ہوئے خواتین کی اکثریت نے ان کے خلاف بندوق اٹھا لی ہے۔ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران خواتین کی ایک بڑی تعداد نے افغان فورسز میں شمولیت اختیار کر لی ہے۔ طالبان نے حالیہ کارروائیوں میں سماجی خواتین اور میڈیا سے منسلک خواتین کو نشانہ بنایا ہے۔ حالیہ کچھ عرصے میں خواتین کے حقوق کے لیے ہونے والے پیش رفت کو طالبان کی حکومت آنے کے بعد نقصان ہوسکتا ہے۔

Related Posts