تیسرا حصہ: حکومت اور ٹی ٹی پی کے مذاکرات، نتائج کیا ہو سکتے ہیں؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

تیسرا حصہ: حکومت۔ٹی ٹی پی مذاکرات، نتائج کیا ہو سکتے ہیں ؟
تیسرا حصہ: حکومت۔ٹی ٹی پی مذاکرات، نتائج کیا ہو سکتے ہیں ؟

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

اس وقت سوال یہی ہے کہ کیا حکومت ، ٹی ٹی پی مذاکرات کامیاب ہوجائیں گے؟ اگر کامیاب ہوں تو کیا نتیجہ نکلے گا؟امن معاہدے کے خدوخال کیا ہوں گے؟ ٹی ٹی پی کو وزیرستان ، باجوڑ وغیرہ میں کس حد تک اختیار ملے گا؟ کیا ٹی ٹی پی کے تمام دھڑے امن معاہدے کو تسلیم کر لیں گے اور اگر نہیں تو پھر ان کے ساتھ کیسے نمٹا جائے گا؟

دوسری آپشن ناکامی کی ہے، اس کے بعد بھی کئی سوالات پھوٹتے ہیں۔ مذاکرات ناکام ہوگئے تو حکومت کا لائحہ عمل کیا ہوگا؟ ٹی ٹی پی کے حملوں میں شدت پیدا ہوجائے گی؟ افغان طالبان کا ردعمل کیا ہوگا؟ وہ ٹی ٹی پی کو افغانستان سے نکال باہر کریں گے یا پھر لاتعلق ہوکر غیر جانبدار پوزیشن اختیار کر لیں گے۔ 

عامر خاکوانی کی مزید تخلیقات کا مطالعہ کریں: 

دوسرا حصہ: حکومت اور ٹی ٹی پی کے مذاکرات، اندر کی کہانی کیا ہے؟

حکومت، ٹی ٹی پی مذاکرات کی ان کہی کہانی (پہلا حصہ)

آڈیو ، ویڈیو لیکس کا طوفان کس سمت جائے گا؟

ان سوالات کا اس وقت کوئی حتمی جواب دینا ممکن نہیں۔ اس قسم کے پراسیس میں یہ اگرمگر چونکہ چناچہ چلتے رہتے ہیں، انہی If & Butکے درمیان ہی سے راستہ نکالنا پڑتا ہے۔ مذاکرات کی کامیابی کے حوالے سے بھی سوال پوچھے جاتے ہیں۔ ایسے مذاکرات کی کامیابی کا امکان اس مرحلے پر ففٹی پرسینٹ سمجھ لیجئے۔ جنگ بندی ہوجانا ایک اہم کامیابی ہے ، اس پر عمل درآمد ہوتے رہنا اور اس میں توسیع ہونا مزید کامیابی ہوگی۔

ان مذاکرات کے حوالے سے پاکستان میں بعض حلقے مخالفت بھی کر رہے ہیں۔ پیپلزپارٹی کے رہنما بلاول بھٹو نے کھل کر تنقید کی ہے اور وہ اس حوالے سے کسی لچک کے قائل نہیں۔ پیپلزپارٹی کا غصہ قابل فہم ہے، ٹی ٹی پی کے موجودہ امیر نے اپنی کتاب میں محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل میں ٹی ٹی پی کے ملوث ہونے کا اعتراف کیا ہے۔ پیپلزپارٹی اپنی قائد کے قاتلوںسے مذاکرات کی حمایت کیسے کر سکتی ہے؟

صرف پیپلزپارٹی نہیں بلکہ بعض دیگر حلقے بھی اس حوالے سے تحفظات رکھتے ہیں۔ دو تین بڑے اعتراضات کئے جاتے ہیں، ٹی ٹی پی پر کیسے اعتماد کیا جا سکتا ہے؟یہ مذاکرات کو اپنی قوت مجتمع کرنے اورخود کومنظم کرنے کے لئے استعمال کریں گے۔دوسرا اعتراض ہے کہ جو گروہ یا تنظیم ہزاروں پاکستانیوں کی شہادت اوربے پناہ نقصان کا باعث بنی، اس کے ساتھ مفاہمت کیوں ؟تیسرا اعتراض یہ ہے کہ اگر رااور دوسری غیر ملکی پاکستان دشمن ایجنسیاں ٹی ٹی پی کو سپورٹ کر رہی ہیں تو یہ ہر حال میں انکے ایجنڈے پر چلے گی، ایسے میں مذاکرات کی بات کر کے ریاست پاکستان کمزوری کیوں دکھا رہی ہے؟

یہ اعتراضات بے وزن نہیں۔ میرا خیال ہے جو لوگ ہماری جانب سے مذاکرات میں شامل ہیں ، وہ بھی ان نکات پر نظر رکھے ہوں گے۔اس کا امکان موجود ہے کہ مذاکرات ناکام ہوجائیں اور کچھ لوگ کسی بھی صورت میں ہتھیار رکھنے، امن قائم کرنے پر آمادہ نہ ہوں ۔

سوال ہے کہ پھر اتنی لمبی چوڑی ایکسرسائز کا کیا فائدہ ؟

جواب یہ ہے کہ ایسے پراسیس کے دو فائدے ہوتے ہیں، ایک تو عسکریت پسند گروہ یا تنظیم میں جو لوگ تھک چکے ہیں، وہ امن چاہتے اور قومی دھارے میں شامل ہونے کے خواہش مند ہیں، ان کے لئے راستہ نکل آتا ہے اور ان کے علیحدہ ہونے سے مجموعی طور پر عسکریت پسند تنظیم کمزور ہی ہوتی ہے ۔پچھلی بار بھی مذاکرات کے نتیجے میں کچھ لوگ الگ ہوئے تھے۔

مذاکرات ریاست کو ایک ایڈوانٹیج دیتی ہے کہ وہ اس طریقے سے جنگجوﺅں کو بتاتی ہے کہ ہم آپ کو قبول کرنے کو تیار ہیں، ریاست ماں کا کردار ادا کرنا چاہتی ہے، اب آپ اگر آنا چاہتے ہو تو ہمت کر کے الگ ہو کر آجاﺅ۔

مذاکرات کا دوسرا پہلو اتمام حجت ہوجانا ہے۔ اگر حکومت پاکستانی سنجیدگی سے مذاکرات کرے اور ذمہ داری سے آگے بڑھے جبکہ ٹی ٹی پی راہ فرار اختیار کرے تو ایسا کرنے سے نہ صرف پاکستان بلکہ افغانستان میں بھی جو لوگ اس کے لئے نرم گوشہ رکھتے ہیں، وہ مخالف ہوجائیں گے۔ افغان طالبان پر بھی ٹی ٹی پی کے عزائم اور ایجنڈا ایکسپوز ہوجائے گا۔

یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ دہشت گرد کارروائیوں کرنے والوں کے ساتھ مفاہمت کیوں ؟ اس کے جواب میں یہ دلیل موجود ہے کہ دنیا بھر میں ریاستوں نے دہشت گرد تنظیموں سے آخری مرحلے میں مذاکرات ہی کئے اور پھر انہیں قومی دھارے کا حصہ بنایا۔ برطانیہ میں آئرش شدت پسندوں کی تنظیم آئی آر اے (آئرش ری پبلک آرمی)سے مذاکرات ہی کئے گئے ۔ آئرش جنگجووں نے دہشت گردی کی بہت سی وارداتیں کی تھیں، خاصاجانی نقصان بھی ہوا، مگر آخر کار مذاکرات کے ذریعے ہی امن قائم ہوا۔

امریکہ اورافغان طالبان کے درمیان کیسی خونریز جنگ ہوئی، امریکہ نے ہزاروں طالبان ہلاک کئے، ان کا ایک امیر ڈرون حملے میں مارا گیا، طالبان نے بھی ڈیڑھ ہزار سے زائد امریکیوں کو نشانہ بنایا، سینکڑوں ارب ڈالر کا نقصان کیا۔ اس کے باوجود دونوں جانی دشمنوں نے آخرکار ایک دوسرے سے مذاکرات کر کے ہی امن معاہدہ کیا اور یوں یہ جنگ ختم ہوئی۔

اس لحاظ سے مذاکرات کرنے میں کوئی خرابی نہیں۔ البتہ ٹی ٹی پی کے دھڑوں پر نظر رکھنا ہوگی۔ اگر مذاکرات سے مکمل امن قائم ہوجائے تو پھر یقینا اس میں کچھ گارنٹیر ہوں گے اور ٹی ٹی پی والوںکو مخصوص جگہ دی جائے گی، جہاں وہ ہتھیار رکھ کر زندگی گزاریں۔ ویسے ہتھیار رکھنا انکے لئے آسان اس لئے بھی نہیں کہ مقامی سطح پر بہت دشمنیاں ہیں، جن کے بندے ٹی ٹی پی نے مارے ، وہ قبائلی اپنا قرض چکانے کے لئے بے تاب ہوں گے۔ بہرحال کچھ نہ کچھ حل نکالناہی پڑے گا۔

مذاکرات ناکام ہوتے ہیں تو پھر اس معاملے کو سختی اور مہارت سے نمٹنا چاہیے ۔ ممکن ہے کچھ دھڑے اور گروپ الگ ہو جائیں اور مقابلہ صرف ہارڈ کور جنگجوﺅں سے ہو۔ ایسی صورتحال میں افغان طالبان کو اعتماد میں لے کر ان شوریدہ سر جنگجوﺅں سے نمٹا پڑے گا۔

لگ کچھ یوں رہا ہے کہ ٹی ٹی پی کے کچھ نہ کچھ قیدی چھوڑ دئیے جائیں گے، شائد یہ عمل بتدریج ہو تاکہ اچانک شور نہ مچ جائے۔ معاوضوں کی ادائیگی بھی ممکن ہے ۔ البتہ یہ ممکن نہیں کہ ٹی ٹی پی کو پہلے کی طرح جنوبی وزیرستان یا شمالی وزیرستان محفوظ مستقر کے طور پر مل جائے، جہاں وہ اپنی اتھارٹی قائم کریں ، مقامی سطح پر فیصلے کریں اور اپنی تعبیر کے مطابق شریعت کا نفاذکریں۔ یہ دوعملی اب نہیں چل سکتی اور اسے چلانے کی کوشش بھی نہیں کرنی چاہیے۔

مذاکرات کے عمل کو آگے بڑھاتے رہنا چاہیے، سب سے پہلے تو جنگ بندی کو توسیع دینے کی ضرورت ہے، جس کی مدت ختم ہونے میں ایک ہفتہ باقی رہ گیا ہے۔ اگلے دو ماہ کے لئے سیز فائر کو بڑھا دینا چاہیے۔ اس دوران مذاکرات کے ادوار چلتے رہیں اور فروری مارچ میں پھر سے چیزیں دیکھی جائیں کہ کیا ہوسکتا ہے ؟

Related Posts