آڈیو ، ویڈیو لیکس کا طوفان کس سمت جائے گا؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

آڈیو ، ویڈیو لیکس کا طوفان کس سمت جائے گا؟
آڈیو ، ویڈیو لیکس کا طوفان کس سمت جائے گا؟

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

آڈیو ، ویڈیو لیکس کے اس زمانے میں ایک عجیب سا اضطراب جنم لے رہا ہے۔ بہت سے لوگوں کو یہ خدشہ ہے کہ کہیں کسی کمزور لمحے کی کوئی آڈیویا وڈیو نہ ریکارڈ ہوئی پڑی ہو۔ وقت پڑنے پر اسے بھی لانچ کر دیا جائے۔ سیاستدان، بیوروکریٹ، شوبز فنکار، کھلاڑی اور دیگر ممتاز شخصیات جنہیں سیلیبریٹیز کہا جاتا ہے ، وہ سب اس کی زد میں ہیں۔

یہ رجحان صرف پاکستان میں نہیں بلکہ دنیا بھر میں جاری ہے۔ امریکہ، یورپ، عرب دنیا، بھارت اور چین سمیت ہر جگہ طوفانی جھکڑ چل رہے ہیں۔ سوشل میڈیا نے دراصل بہت آسانی پیدا کر دی ۔ ایک تو ہر ایک کے ہاتھ میں جدید موبائل ہے۔ کسی بھی جگہ ریکارڈنگ کی جا سکتی ہے۔ ایسے بہت سے گیجٹ عام مل جاتے ہیں، جن سے خفیہ ریکارڈنگ ہوسکتی ہے۔ ہر فون میں کال ریکارڈر ہیں، فون پر آنے والی ہر کال ریکارڈ ہوجاتی ہے۔ ابھی تک واٹس ایپ ، ٹیلی گرام وغیرہ کی کالز پر کچھ رعایت ہے، مگر یار لوگوں نے اس کا بھی کوئی جگاڑ نکال لیا ہوگا۔ سی سی ٹی وی کیمرے عام ہیں تو بٹن کے سائز کے خفیہ کیمرے بھی چند ہزار روپے خرچ کر کے مل جاتے ہیں ۔

عامر خاکوانی کے مزید کالمز پڑھیں: 

کیا آج عمران خان جیت گئے؟ اگلا معرکہ کیا ہوگا؟

پاکستان اور آسٹریلیا کا سیمی فائنل، ہمیں کس نے ہرایا؟

پہلے اگر کوئی کچھ انکشاف کرنا بھی چاہتا تو ہزار رکاوٹیں تھیں۔ اخبارات بغیر ثبوت خبر نہیں چھاپتے تھے،ٹی وی چینلز میں بھی قانونی تقاضوں کا کچھ نہ کچھ خوف درپیش تھا۔ سوشل میڈیا نے یہ سب آسان کر دیا۔ کہیں سے بھی آڈیو، ویڈیو لانچ کر دو۔ کسی واٹس ایپ گروپ میں ڈال دو، فیک فیس بک آئی ڈی سے چلا دو۔ وائرل کرنے کے بہت طریقے ہیں جسے جاننا مشکل نہیں۔

یہی وجہ ہے کہ الزام در الزام، جوابی پروپیگنڈہ،شور شرابا اور طعنہ زنی کا ایک سیلاب ہے جو کسی بھی سمت رخ کر لیتا ہے۔ ہمارے ہاں می ٹو مہم زور نہیں پکڑ سکی،دنیا میں اس نے خاصا تہلکہ مچایا۔ بھارت میں کورونا کے ہنگام پر می ٹو کمپین بھی چلتی رہی۔

آڈیو، ویڈیو لیکس کے تازہ پاکستانی سیزن میں البتہ سیاسی رنگ غالب ہے۔ اس بار مقاصد سیاسی ہیں اورہدف بھی، صرف افراد نہیں۔ ایک دوست نے مجھ سے اس بارے میں رائے پوچھی اورکہا کہ آپ نے اس پر تفصیل سے نہیں لکھا۔ انہیں بتایا کہ مجھے اس گند اچھالنے یا تخلیق کرنے کے عمل سے سخت چڑ ہے اور جب یہ کسی خاص ایجنڈے کے تحت ہو رہا ہو اور آپ نہ جانتے ہوں کہ اس کے پیچھے کون کون ہے ، تب بغیر سوچے سمجھے اس کا حصہ بن جانا عقلمندی نہیں۔

اپنے فیس بک فرینڈ کو بتایا کہ ہم نے ایسے بہت سے معاملات میں صحافیوں کو استعمال ہوتے دیکھا ہے ۔ استعمال کر لینے کے بعد ان صحافیوں کو ٹشو پیپر کی طرح ڈسٹ بن کی جانب اچھال دیا جاتا ہے۔بچنے والے خوش نصیب کسی نہ کسی طرح اپنا کام چلاتے رہتے ہیں، مگر ان کا وہ طنطنہ اور ٹہکا باقی نہیں رہتا، رنگ پھیکے پڑ جاتے ہیں۔

مجھے ویسے بھی یہ مکافات عمل کا سلسلہ لگتا ہے۔ ہمارے سیاستدان ہوں یا ادارے سب نے اپنے اپنے ادوار میں خوفناک قسم کی غلطیاں کی ہیں۔ عدلیہ پر بھی بہت بار انگلی اٹھتی رہی ہے۔ نظریہ ضرورت نے تو خیر اب تک انکی جان نہیں چھوڑی، کئی ایسے عدالتی فیصلے بھی ہوئے جن کا دفاع کرنا مشکل بلکہ محال ہے۔

فرزندِ اقبال جسٹس (ر) ڈاکٹر جاوید اقبال نے اپنی کتاب میں لکھا کہ جب وہ ہائیکورٹ کے جج بنے تو ایک مشہور جج (انہوں نے تو نام بھی لکھ دیا، میں گریز کر رہا ہوں) نے انہیں مشورہ دیا کہ جب کسی اہم کیس میں ایک فریق حکومت ہو تو ہمیشہ دو فیصلے لکھ کر رکھنے چاہئیں ، ایک حکومت کے حق میں، ایک میرٹ پر(یعنی مخالفت میں)۔ حالات کو دیکھتے ہوئے ان میں سے ایک فیصلہ استعمال کر لیا جائے۔ یاد رہے کہ وہ جج صاحب مشہور بھٹو مرڈر کیس میں بھی شامل تھے اور بھٹو صاحب کو موت کی سزا سنائی تھی۔

جسٹس نسیم حسن شاہ جو بعد میں چیف جسٹس بنے، انہوں نے ایک بار یہ بیان دیا تھا کہ بھٹو کیس میں ہم پر دباﺅ تھا۔ یہ بات پیپلزپارٹی نے اپنے حق میں استعمال کی تو نسیم حسن شاہ نے باقاعدہ ایک طویل وضاحتی انٹرویو دیا۔ اس میں ایک اور دلچسپ انکشاف کیا کہ بھٹو مرڈر کیس کے دوران سپریم کورٹ میں چار ججز بشمول چیف جسٹس انوارالحق ایک طرف تھے اور وہ موت کی سزا سنانا چاہتے تھے جبکہ جسٹس دراب پٹیل، جسٹس حلیم اور غلام صفدر شاہ بھٹو کو بری کرنا چاہتے تھے، نسیم حسن شاہ جسٹس دراب پٹیل کے پاس ایک پیشکش لے کر گئے کہ ہم بھی اپنے مؤقف میں لچک پیدا کرتے ہیں، آپ بھی کریں اوریوں متفقہ طور پر بھٹو کو عمر قید کی سزا سنا دیتے ہیں۔ دراب پٹیل یہ بات سن کر برہم ہوئے اور انہوں نے تجویز فوری رد کر دی۔ نسیم حسن شاہ نے اس بات کو اپنے کریڈٹ کے طور پر سنایا، مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سپریم کورٹ کے ایک جج کو کیا پڑی تھی کہ وہ ایسی تجویز لے کر ساتھی ججوں کو اپنی رائے بدلنے پر مجبور کرے۔

کئی برس بعد انٹیلی جنس اداروں نے ایک فون کا ل ٹیپ کی جس میں ن لیگ کے لیڈر اور وزیراعظم نواز شریف کے معتمد ساتھی سیف الرحمن جسٹس ملک قیوم کو محترمہ بے نظیر بھٹو کو جلدی سزا دینے کی تاکید کر رہے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ یہ فون ٹیپ ایک صاحب نے بے نظیر بھٹو تک پہنچائی جو اس کے بعد پیپلزپارٹی کے اہم لیڈر بنے اور بی بی کے قتل کے بعد بننے والی حکومت میں اہم وزارت پر فائز رہے ۔ اس ریکارڈنگ کے بعد ملک قیوم اور ان کے چیف جسٹس کو مستعفی ہونا پڑا۔

نواز شریف دور ہی میں چیف جسٹس سجاد علی شاہ کو جس طرح ہٹایا گیا وہ ایک الگ ہی قصہ ہے، فریقین اس پر مختلف آرا رکھتے ہیں، مگر یہ بہرحال واضح ہے کہ عدالت تقسیم ہوگئی تھی۔ عدالت عظمیٰ پر حملہ کا سیاہ باب بھی انہی دنوں لکھا گیا، جس کی روشنائی مسلم لیگ ن کے کارکن بنے۔ اس طرح کے افسوسناک واقعات اور بھی کئی ہیں، افسوس کہ پورا سچ کبھی نہیں لکھا جا سکتا۔ سچ کے ہمیشہ ٹکڑے ہی سامنے آتے ہیں، انہیں ہر کوئی اپنی سہولت اور استعداد کے مطابق جوڑ لیتا ہے۔

سیاستدانوں کے معاملات بھی سب کے سامنے ہیں۔ کس طرح عدالتوں اور دیگر اداروں پر اثراندازہونے کی کوششیں ہوتی رہی ہیں، کیسے اپنے لوگ بھرتی کرائے جاتے ہیں، کونسلر کا الیکشن لڑنے والے کس طرح چیف جسٹس ہائی کورٹ کے عہدے تک پہنچتے ہیں، یہ کوئی ڈھکی چھپی کہانی نہیں۔ کیسے عدالتی سٹے پر صوبائی حکومتیں برسوں چلتی رہیں وغیرہ وغیرہ۔ 

صاحبو، بہت کچھ سامنے ہے، بہت کچھ سامنے آئے گا۔ یہ مکافات عمل کا سلسلہ ہے۔ پتہ نہیں کہاں کہاں تک پہنچے۔ یہ تو اپنی پگڑی سنبھالنے اور دامن بچانے والا وقت ہے۔ میڈیا کے جغادری بھی زد میں ہیں، ان میں سے کئی ایکسپوز ہوئے، بعض ہوجائیں گے۔
دو سال ہوتے ہیں ، اسلام آباد کی ایک خاتون نے جو روحانیت میں درک رکھتی ہیں، یہ کہا تھا کہ مکافات کہیے یا احتساب کی چکی، بہرحال ہر ایک نے کسی نہ کسی وقت اس کی زد میں آنا ہے۔ اپنے کاغذ پتر سیدھے کر لو، معاملات سدھار لو، کسی بھی وقت کچھ ہوسکتا ہے۔

یہ خوفناک پیش گوئی سچ ہوتے دیکھ رہے ہیں۔ اللہ رحم فرمائے، عزتوں کا تحفظ کرے اور بھرم قائم رکھے۔لیکس کے طوفانوں سے انجوائے کرنے کے بجائے ان میں عبرت کا پہلو ڈھونڈئیے۔

Related Posts