حکومت، ٹی ٹی پی مذاکرات کی ان کہی کہانی (پہلا حصہ)

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

حکومت، ٹی ٹی پی مذاکرات کی ان کہی کہانی (پہلا حصہ)
حکومت، ٹی ٹی پی مذاکرات کی ان کہی کہانی (پہلا حصہ)

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

تحریک طالبان پاکستان جو ٹی ٹی پی کے نام سے مشہور ہے، اس کے ساتھ پاکستانی حکومت کے مذاکرات کے حوالے سے خاصی پیش رفت ہوچکی ہے،انہی کوششوں کے نتیجے میں ایک ماہ کی عارضی جنگ بندی کا اعلان بھی ہوا، اگرچہ ابھی تک پاکستانی قبائلی علاقوں میں اکا دکا کارروائیاں ہو رہی ہیں، مگر ٹی ٹی پی ان سے لاتعلق ہونے کا اظہار کر رہی ہے۔

اہم ترین سوال یہ ہے کہ کیا حکومت، ٹی ٹی پی مذاکرات کامیاب ہوں گے؟ اس سوال کا جواب کھوجنے کی کوشش کرتے ہیں، مگر اس سوال کے ساتھ بعض اور سوال بھی لپٹے ہوئے ہیں۔

یہ ضروری ہے کہ ٹی ٹی پی کے اسٹرکچر، طریقہ کار اور اس کی مستقبل کی حکمت عملی کو سمجھا جائے، تب ہی اندازہ ہوسکتا ہے کہ مذاکرات کس حد تک کامیاب ہوسکیں گے؟ اس پر بات کرتے ہیں، مگر اس وقت جو مذاکرات کا عمل چل رہا ہے، پہلے اس کا جائزہ لے لیں۔

پاکستانی حکومت اور ٹی ٹی پی کے درمیان ماضی میں کئی بار معاہدے ہوچکے ہیں، کم از کم تین باقاعدہ معاہدے جبکہ دو چار بار غیر تحریری، اِن فارمل معاہدے۔ سب کے سب ناکام ہوئے۔ ان میں سے اکثر معاہدوں کے بعد ٹی ٹی پی زیادہ طاقتور ہوئی اور اس کا اثرونفوذ بڑھا۔

حالیہ مذاکرات اس لحاظ سے اہم ہیں کہ ٹی ٹی پی کی تاریخ میں پہلی بار افغان حکومت کی سرپرستی یا ثالثی میں اس کے ساتھ مذاکرات ہو رہے ہیں اور افغان طالبان جن سے ہمیشہ ٹی ٹی پی خود کو منسوب کرتی رہی ہے، اب وہ باقاعدہ طور پر مذاکراتی عمل میں شریک ہیں۔

افغان طالبان کا سب سے طاقتور اور اہم حصہ حقانی نیٹ ورک یا لویہ پکتیا کے سربراہ سراج حقانی کی ذاتی نگرانی اور ثالثی میں یہ مذاکرات ہوئے۔ کہاجاتا ہے کہ اس کے ابتدائی مراحل افغان صوبہ خوست میں طے ہوئے، جو حقانیوں کا گڑھ سمجھا جاتا ہے۔

یاد رہے کہ خوست وہ صوبہ ہے جسے سراج حقانی کے والد مولوی جلال الدین حقانی نے سوویت افواج کی افغانستان سے بے دخلی کے بعد فتح کیا تھا۔ جلال حقانی فاتح خوست کہلاتے تھے۔

حقانیوں کے دباؤ کی وجہ سے یا حکومت پاکستان کے مطالبے پر ٹی ٹی پی کے تمام گروپوں کو ان مذاکرات میں شامل کیا گیا۔ ماضی کے معاہدوں میں بھی اس تنظیم کے تمام گروپ شامل ہوتے تھے، مگر تب تنظیم کا امیر بہت طاقتور تھا اور ذیلی گروپوں کا اس کے حکم سے باہر جانا مشکل تھا۔

اب ٹی ٹی پی کا سٹرکچر بکھر چکا ہے اور پہلی جیسی قوت نافذہ موجودہ امیر کے پاس نہیں۔کچھ عرصہ پہلے تک مختلف دھڑے الگ الگ ہی تھے، پھر حالات کو دیکھتے ہوئے سب پھر سے اکٹھے ہو گئے۔

ان مذاکرات میں ٹی ٹی پی کے موجودہ امیر مفتی نور ولی محسود(ابو عاصم منصور) شامل ہیں، اگرچہ وہ صرف دو تین ماہ پہلے حکومت پاکستان کے خلاف ایک بہت سخت انٹرویوامریکی چینل کو دے چکے ہیں۔ نور محسود کو ساڑھے تین سال پہلے ملا فضل اللہ کی ہلاکت کے بعد امیر بنایا گیا۔

اس سے پہلے وہ محسود جنگجوؤں کے سجنا گروپ کے سربراہ تھے، ماضی میں البتہ ٹی ٹی پی کے مشہور سربراہ بیت اللہ محسود کے نائب کے طور پر معروف ہوئے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ نورولی محسود مصنف بھی ہیں اور وہ چھ سو صفحات سے زیادہ ضخیم ایک متنازع کتاب لکھ چکے ہیں۔

اس کتاب میں نورولی محسود نے سابق وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کی ذمہ داری قبول کی اور اس کی تفصیل بیان کی۔ کتاب میں یہ بھی اعتراف کیا گیا کہ ٹی ٹی پی مالی وسائل کی خاطر ڈکیتیاں، اغوابرائے تاوان کی وارداتیں کرتی رہی ہے۔ تاہم یہ کتاب نور ولی محسود نے امیر بننے سے پہلی لکھی تھی۔

ٹی ٹی پی کے چھوٹے بڑے ذیلی گروپوں کی تعداد بارہ بتائی جاتی ہے، تاہم ان میں سے چند زیادہ معروف اور نمایاں ہیں۔ ملا فضل اللہ کا دھڑا سوات میں زیادہ فعال تھا،آپریشن کے بعد وہاں ان کا نیٹ ورک ختم ہوا، پھر ملا فضل اللہ کی ڈرون حملے میں ہلاکت کے بعد گروپ مزید کم ہوامگر پھر بھی اس کی ایک خاص نفسیاتی حیثیت ہے۔

ٹی ٹی پی کا مہمند ایجنسی گروپ ماضی میں اپنی کارروائیوں کے باعث معروف رہا، عمر خالد خراسانی اس کا سربراہ تھا، یہ گروپ بعض تنظیمی اختلافات کی بنا پر ٹی ٹی پی سے الگ ہوا اور جماعت الاحرار بنائی۔ کچھ عرصے بعد اس کے اندر بھی اختلافات ہوئے اور حزب الاحرار کے نام سے ایک الگ دھڑا بن گیاعمر خراسانی اس کا سربراہ ہے۔

یہ دونوں دھڑے یعنی جماعت الاحراراور حزب الاحرار کچھ عرصہ قبل ٹی ٹی پی کے نیٹ ورک میں شامل ہوئے۔ یہ گروپ ماضی میں زیادہ سخت اور بے لچک موقف رکھتے تھے اور مذاکرات کے لئے کبھی تیار نہیں ہوتے تھے۔ اس بار مذاکراتی عمل میں انہیں بھی شریک ہونا پڑا ہے۔

بیت اللہ محسود اور پھر حکیم اللہ محسود کے بعد محسود شدت پسند جنگجو دو حصوں میں بٹ گئے تھے، سجنا گروپ اور شہریار محسود گروپ۔ سجنا گروپ کا نورولی محسود تو اس وقت ٹی ٹی پی کا امیر ہے،اس لئے یہ تو خودبخود اس کا حصہ ہے جبکہ شہریار محسود گروپ بھی ٹی ٹی پی میں پھر سے شامل ہو چکا ہے، مذاکرات کے عمل میں یہ گروپ بھی شریک ہے۔

ان کے علاوہ لشکر جھنگوی، پنجابی طالبان اور القاعدہ پاکستان کے بعض سپلنٹرز گروپ یا بچے کھچے حصے بھی ٹی ٹی پی میں شامل ہوچکے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ ان میں القاعدہ کا امجد فاروقی گروپ کی باقیات، لشکر جھنگوی کا عثمان کرد گروپ جو ہزارہ کلنگ میں انوالو ہونے کی وجہ بدنام ہے۔

اب مبینہ طور پرمولوی خوشی محمد سندھی اس کی قیادت کر رہا ہے، یہ بھی ٹی ٹی پی کے نیٹ ورک میں آ چکا۔ اسی طرح القاعدہ برصغیر کے ہلاک ہونے والے نائب امیر احمد فاروق کے ساتھی کمانڈر منیب کا دھڑا بھی ٹی ٹی پی میں ہے۔

شمالی وزیرستان کا مشہور حافظ گل بہادر گروپ تو باقاعدہ طور پر مذاکرات کو تسلیم کرنے کا اعلان کر چکا ہے، یہ بھی ٹی ٹی پی میں ہیں۔شمالی وزیرستان کے موسیٰ کاروان گروپ اور خیبر ایجنسی میں کمانڈر منگل باغ کے ساتھی زیلا خان بھی اس عمل میں کسی حد تک شریک ہیں۔ بعض دیگر چھوٹے بڑے دھڑے بھی اس کا حصہ بنے ہیں۔

مذاکراتی کمیٹی میں حقانیوں کی جانب سے باجوڑ ایجنسی کے مشہور ٹی ٹی پی کمانڈر مولوی فقیر محمد کو بھی شریک کیا گیا۔ یاد رہے کہ فقیر محمد کئی سال تک افغان جیل میں قیدر ہا اور اشرف غنی حکومت کے خاتمے پریہ رہا ہوا۔

طالبان وزیر داخلہ اور طاقتور کمانڈر جلا ل حقانی نے ٹی ٹی پی کے تمام دھڑوں کو مذاکراتی عمل میں شامل کرا دیا اور بعض ایسے لوگ مذاکراتی کمیٹی کا حصہ بنائے، جن کا یہ مختلف شوریدہ سر دھڑے اور کمانڈر احترام کرتے ہیں۔ اب تک مذاکراتی عمل میں جو کامیابی ہوئی، اس میں اس حکمت عملی نے بڑا اہم کردار ادا کیا۔

مذاکراتی عمل میں شریک ان مختلف سوچ اور مزاج رکھنے والے دھڑوں کو دیکھتے ہوئے اگلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مذاکرات میں دونوں فریقوں نے کیا مطالبات رکھے ہیں؟ اس سے جڑا ہوا اگلا سوال یہ کہ کیا یہ مطالبات پورے ہوپائیں گے؟ اس پر اگلے بلاگ میں ان شااللہ بات کرتے ہیں۔

Related Posts