دوسرا حصہ: حکومت اور ٹی ٹی پی کے مذاکرات، اندر کی کہانی کیا ہے؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

حکومت اور ٹی ٹی پی کے مذاکرات، اندر کی کہانی کیا ہے؟
حکومت اور ٹی ٹی پی کے مذاکرات، اندر کی کہانی کیا ہے؟

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

ٹی ٹی پی یعنی تحریک طالبان پاکستان کی مذاکرات کی شرائط اور ان کا پس منظر سمجھنے سے پہلے ٹی ٹی پی کے سٹرکچر اور اس کی ہیئت کو سمجھنا پڑے گا۔

دراصل ٹی ٹی پی ایک مربوط نظریاتی یا انقلابی تنظیم نہیں بلکہ یہ مختلف جنگجوگروہوں اور دھڑوں کا پلیٹ فارم ہے۔ مختلف گروپ اپنی اپنی وجوہات کی بنا پر اس کا حصہ بنے۔ کسی کا مقصد حکومتی آپریشنز سے بچنا تھا، کوئی قبائلی علاقوں(وزیرستان ایجنسیوں، باجوڑ وغیرہ)میں پناہ لینا چاہتا تھا، کسی کو اپنی کارروائیوں کے لئے قبائلی خود کش درکار تھے تو بعض گروپ اپنے لئے محفوظ مستقر(پناہ گاہ) نہ ہونے کی وجہ سے ٹی ٹی پی کا حصہ بنے  تاکہ ان کی سہولت کاری اور مقامی ٹھکانوں سے فائدہ اٹھا سکیں۔

عامر خاکوانی کی مزید تخلیقات کا مطالعہ کریں: 

حکومت، ٹی ٹی پی مذاکرات کی ان کہی کہانی (پہلا حصہ)

آڈیو ، ویڈیو لیکس کا طوفان کس سمت جائے گا؟

کوئی گروپ لال مسجد آپریشن کے بعد مشتعل ہو کر ٹی ٹی پی سے جا ملا تو کسی کو جنرل مشرف کی جانب سے کشمیری جہادی تنظیموں پر کریک ڈاؤن نے برہم کیا، بعض کا خیال تھا کہ پاکستانی ریاست امریکی سامراج کا آلہ کار بن چکی ہے، کچھ لوگ یہ سمجھتے تھے کہ شائد ٹی ٹی پی حقیقت میں افغان طالبان کی پاکستانی شاخ ہے اور وہ چونکہ افغان طالبان کے مداح تھے، اس لئے ٹی ٹی پی سے جا ملے۔

کشمیری جہادی تنظیموں کے سپلنٹر گروپ جو بنیادی طور پر حرکتہ الجہاد الاسلامی سے الگ ہوئے کیونکہ اس تنظیم کا مشہور کمانڈر الیاس کشمیری القاعدہ اور ٹی ٹی پی سے ہاتھ ملا چکا تھا، بعض نو عمر جنگجو حرکت المجاہدین اور جیش محمد سے بھی الگ ہو کر اس جانب آئے۔پنجابی طالبان سے مراد یہی لوگ رہے ہیں۔ لشکر جھنگوی کے خاصے لوگ جو کالعدم جہادی تنظیموں اور ایک خاص سطح پرالقاعدہ کے ساتھ مل کر کام کرتے رہے ، وہ بھی ٹی ٹی پی میں شامل ہوئے کیونکہ ان کے پاس کوئی اور اختیار نہیں بچا تھا۔قاری ظفراور مطیع الرحمن وغیرہ ٹی ٹی پی میں نمایاں ہوئے۔ سوات میں آپریشن کے بعد ملا فضل اللہ کا گروپ ٹی ٹی پی میں شامل ہوا اور قبائلی علاقوں میں پناہ لی، یہیں سے آپریشن کے دوران سواتی کمانڈرمسلم خان اور محمود خان وغیرہ گرفتار ہوئے۔

مقامی سطح پر محسود قبائلی جنگجو بیت اللہ محسود کی زیرقیادت منظم ہوئے، ٹی ٹی پی کی ہارڈ کور انہی مقامی قبائلی نوجوان جنگجوؤں پر مشتمل تھی اور خود کش بمباروں کا بڑاحصہ انہوں نے فراہم کیا۔اس حوالے سے قاری حسین سرفہرست تھا، وہ ڈرون حملے میں مارا گیا۔ جنوبی وزیرستان ان کا گڑھ تھا ۔بیت اللہ محسود اوراس کے بعد حکیم اللہ محسود ان کے قائد تھے ، ٹی ٹی پی کی قیادت بھی ان کے پاس رہی۔ بعد میں ملا فضل اللہ قائد بنا تو محسود جنگجو سجنا گروپ اور شہریار محسود گروپ میں بٹ گئے ۔ بیت اللہ محسود کے قریبی ساتھیوں میں مولوی فقیر محمد بھی تھا۔ اس کا تعلق باجوڑ سے ہے۔ مولوی فقیر محمد افغانستان میں گرفتار ہوئے اور کئی سال بگرام جیل میں بند رہے، طالبان نے کابل فتح کیا تو قیدیوں کے ساتھ یہ بھی رہاہوگئے۔ 

کہا جا رہا ہے کہ حالیہ مذاکرات کے عمل میں مولوی فقیر محمد بھی شریک ہے۔شمالی وزیرستان میں ملا نذیر کا وزیر قبائلیوں پر مشتمل گروپ تھا جبکہ حافظ گل بہادر کا اپنا دھڑا تھا۔ یہ دونوں بڑے دھڑے ٹی ٹی پی کے ساتھ نہیں تھے بلکہ ان کی توجہ افغانستان جا کر افغان طالبان کو مدد فراہم کرنے پر تھی۔ فورسز نے ان کے ساتھ غیر رسمی معاہدے کر رکھے تھے ،جن کی رو سے یہ سرکاری اداروں اور عمال وغیرہ پر حملے نہیں کرتے تھے۔ گڈ طالبان سے مراد یہی دو گروپ تھے۔ تاہم دہشت گردی کے خلاف جنگ کے آخری مرحلے میں جب شمالی وزیرستان میں آپریشن ہوا توفورسز نے ہر گروپ کونکل جانے کا کہا۔ تب ان دونوں گروپوں کا سرکار سے تصادم ہوا، اس وقت تک ملا نذیر ایک ڈرون حملے میں ہلاک ہوچکے تھے۔ ان دونوں گروپوں کی باقیات بعد میں ٹی ٹی پی کے ساتھ مل کر فورسز سے لڑتی رہی۔ تاہم اب مذاکرات کے عمل میں حافظ گل بہاد ر کا گروپ پیش پیش ہے۔

اسی طرح مختلف قبائلی علاقوں میں مختلف گروپ بن گئے، مہمند میں عمر خالد خراسانی کا گروپ طاقت پکڑ گیا، اس نے ایک اہم پرو۔افغان طالبان گروپ شاہ خالد کو ختم کر کے اپنی پوزیشن بنا لی۔ یہ ٹی ٹی پی میں شامل رہا، بعد میں اس نے تنظیمی اختلافات پر الگ ہو کر جماعت الاحرار بنالی۔ پشاور کے قریب طارق گیڈر گروپ بنا۔ خیبر ایجنسی میں منگل باغ نے اپنے دھڑے کی بنیاد ڈالی۔ اس کے ساتھ ایک وقت میں مقامی سطح پر حکومت نے معاہدہ بھی کیا، پھر لڑائیاں چلتی رہیں۔

اس وقت صورتحال پہلے جیسی نہ سہی، تعداد بھی بہت کم ہوگئی ہے، مگر آج بھی ٹی ٹی پی کے اندر مختلف دھڑے ، مختلف قوتیں موجود ہیں۔ مقامی قبائلی جنگجوؤں پر مشتمل گروپ(سجنا گروپ ،شہریار گروپ، گنڈا پور گروپ، طارق گروپ) ، باجوڑ کا گروپ، فضل اللہ کے سوات گروپ کی باقیات،مہمند ایجنسی کا گروپ، کالعدم جہادی تنظیموں کے سپلنٹر گروپس پر مشتمل پنجابی طالبان اور کالعدم فرقہ وارانہ تنظیموں کے باقی ماندہ  جنگجو وغیرہ وغیرہ۔

اسی وجہ سے ٹی ٹی پی کے مطالبات بھی سہہ جہتی ہیں۔ ان کی اصل دلچسپی تو قبائلی علاقوں کو پہلے جیسی پوزیشن میں لے جانا ہے تاکہ وہ وہاں آزادی کے ساتھ کام کر سکیں اور اپنی قوت مجتمع کر پائیں۔ دوسرا اہم نعرہ شریعت کے نفاذ کا ہے ، جس پر سوات گروپ اور دیگر جنگجو دھڑے فوری متفق ہوجائیں گے۔ تیسرا اہم مطالبہ جانی ومالی نقصان کی تلافی کا ہے، قیدیوں کی رہائی بھی اسی کا حصہ ہے۔

مذاکرات کی ابتدا میں تو عجیب وغریب مطالبات رکھے گئے ، جیسے افغان طالبان کی طرز پر ٹی ٹی پی کو کسی تیسرے ملک میں سیاسی دفتر کھولنے کی اجازت دی جائے ۔اس کے ساتھ فاٹا کے انضمام کو ختم کر کے دوبارہ سے پہلے کی طرح قبائلی ایجنسیاں بنادینا جبکہ تیسرا مطالبہ ان علاقوں میں شریعت نافذ کرنا اور انصاف کے لئے مقامی سطح کی قاضی عدالتوں کا قیام وغیرہ تھا۔ ٹی ٹی پی کے تینوں مطالبات فوری طور پر مسترد کر دئیے گئے۔ حکومت نے یہ واضح کیا کہ پاکستان ایک اسلامی ملک ہے جس کا دستور اسلامی ہے، اس لئے یہ باتیں ماننا ممکن نہیں۔

مذاکرات کے مختلف ادوار کے بعد دونوں جانب سے چند نکات سامنے آ چکے ہیں۔ حکومت کی 3 شرطیں ہیں۔ جنگجو ہتھیار پھینک دیں، ریاست کی رٹ تسلیم کریں، شناختی کارڈ وغیرہ بنا کر نیشنل سسٹم کا حصہ بنیں اور اپنی مسلح کارروائیوں پر قوم سے معافی مانگیں۔ پھر انکے خلاف مقدمات واپس ہوجائیں گے، جہاں ضرورت ہو، زر تلافی بھی کی جائے گی وغیرہ وغیرہ۔

مذاکرات کا عمل جاری ہے، 9 دسمبرتک جنگ بندی ہے، اس میں توسیع ہونے کے قوی امکانات ہیں۔ اگرچہ یہ خطرہ موجود ہے کہ کسی چھوٹے موٹے گروپ کی جانب سے ایسی کارروائی ہوجائے جس سے یہ امن کا عمل سبوتاژ ہوجائے ، تاہم افغان طالبان کی صورت میں طاقتور ثالث اس چیز پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔

اہم ترین سوال یہ ہے کہ کیا یہ مذاکرات کامیاب ہوں گے؟ رکاوٹیں کیا کیا ہیں؟ مستقبل کا نقشہ کیا بن سکتا ہے؟ اس پر اگلے باب میں ان شاء اللہ بات ہوگی۔

Related Posts