گلوبل وارمنگ کی تباہ کاری سے گلیشئرز کا تحفظ ضروری ہے

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

موسمیاتی تبدیلی (climate change) میں آنے والی تیزی آج دنیا کا ایک سلگتا ہوا مسئلہ ہے،  پاکستان دنیا کے ان ملکوں میں سر فہرست ہے جو موسمیاتی تبدیلی سے پیدا ہونے والی بہت سی مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں، موسموں کے قدرتی نظام میں دستِ انسانی کے جا و بے جا تصرف سے ہونے والے بگاڑ کا نتیجہ پاکستان ہر سال دیگر مسائل کے ساتھ سیلابوں کی تباہ کاری کی صورت میں بھی بھگت رہا ہے۔

پاکستان کے شمالی برف پوش پہاڑی علاقے ملک کی پانی کی ضروریات اور پانی سے پیدا ہونے والی بجلی کیلئے بنیاد اور منبع کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان علاقوں کے بلند و بالا پہاڑوں میں موجود گلیشئرز پانی کے حصول کا اہم وسیلہ ہیں۔ تاہم کچھ عرصے سے یہ علاقے موسمیاتی تغیر کی تیز دھار کی زد میںہیں۔ گلوبل وارمنگ (عالمی حدت) میں بڑھتا ہوا اضافہ گلیشئرز کیلئے بڑا خطرہ بنتا جا رہا ہے اور ان کی عمر غیر فطری طور پر گھٹتی جا رہی ہے۔

گلوبل وارمنگ اور موسمیاتی تغیر میں تیز رفتاری کے باعث قدرت کی طرف سے آنے والی نسل انسانی کیلئے پانی کے ذخیرہ کے طور پر رکھے گئے گلیشئرز بڑی تیزی سے پگھل رہے ہیں، جس سے ایک تو یہ واضح خطرہ سامنے کھڑا ہے کہ یہ جلدی پگھل گئے تو جلد ہی چولستان اور تھر کے مناظر میں خاکم بدہن اضافہ ہوتا جائے گا، جو نوع انسانی کیلئے کوئی نیگ شگون نہیں۔

گلیشئرز کے پگھلنے کے عمل سے دوسرا اور فوری خطرہ سیلابوں کی تباہی کا ہے۔ ہر کچھ وقفے کے بعد شمالی علاقوں چترال اور گلگت بلتستان میں گلیشئرز پھٹنے سے سیلاب آنے اور اس کے نتیجے میں ہونے والی تباہی کی المناک خبریں سامنے آتی رہتی ہیں۔

گزشتہ ماہ کے اوائل میں گلگت میں شیشپرگلیشئر پر بننے والی قدرتی جھیل پھٹنے سے بڑے پیمانے پر تباہی آئی۔ جھیل پھٹنے کے بعد آنے والا سیلاب ایک اہم رابطہ پل،متعدد واٹر چینلوں، 3مقامات پر قراقرم ہائے وے، 300 قابلِ کاشت اراضی اور دو بجلی گھروں سمیت اپنے راستے میں آنے والی ہر چیز بہا لے گیا۔ ایک رپورٹ کے مطابق شیشپر گلیشر پر یہ جھیل 2018ء میں گلیشئر کا ایک حصہ کٹنے کے نتیجے میں قدرتی طور پر بنی اور جب سے اب تک اس جھیل سے 5مرتبہ سیلاب آبادی کا رخ کرکے تباہی مچا چکا ہے، جبکہ رپورٹ کے مطابق شیشپر گلیشئر کے پگھلنے اور کٹاؤ کا عمل 2014ء سے شروع ہوا تھا۔

یہ معاملہ صرف ایک گلیشئر کے پھٹنے، پگھلنے تک محدود نہیں، ان پہاڑی علاقوں میں معروف اور غیر معروف لا تعداد برفانی تودے قدرت نے آنے والی نسل انسانی کیلئے محفوظ کر رکھے ہیں، مگر قدرت کے ان عظیم ذخائر کو انسان کے دستِ جفا پیشہ سے شدید خطرات لاحق ہیں اور انسان کا یہ عمل ایسا ہی ہے جیسے کوئی درخت کی بڑی ٹہنی کے ایک جانب کھڑا ہوکر دوسری طرف کلہاڑی سے وار کرتا جائے، اس کا انجام کیا ہوگا، یہی کہ شاخ ٹوٹنے سے یہ شاخ خود گر کر نقصان اٹھائے گا۔ گلوبل وارمنگ میں انسان کا دست تجاوز گر صنعتوں اور آبادی میں بے ہنگم اور غیر محتاط اضافے کی صورت میں بروئے کار آ رہا ہے۔

گلوبل وارمنگ کی اس تباہ کاری کو روکنے کیلئے عالمی سطح پر بڑے قوانین بھی بن رہے ہیں، مگر ستم ظریفی یہ ہے کہ یہ قوانین بنانے والے بھی وہی ممالک ہیں جن کا اپنا کردار گلوبل وارمنگ میں اضافے کا سب سے بڑا ذمے دار ہے۔

دنیا کے معاملات دنیا جانے، ہمیں اپنے ملک کی پانی کی مستقبل کی ضروریات کے ساتھ ساتھ سیلاب کی تباہ کاریوں سے اپنی آبادی اور قیمتی انفرا اسٹرکچر کو بچانے کیلئے سیاست سے بالاتر ہو کر سوچنے اور ٹھوس حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے۔

Related Posts