قاہرہ اور نیویارک میں اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کے لیے جاری مذاکرات کے دوران دنیا کی نظریں ہتھیاروں کے خاموش ہونے پر مرکوز ہیں مگر غزہ کا اصل مسئلہ بندوقوں کے شور سے زیادہ گہرا ہے۔
امن کے یہ مذاکرات جنگ بندی ، انخلاء اور انسانی رسائی جیسے الفاظ میں لپٹے ہوئے ہیں لیکن ان الفاظ کے نیچے ایک اور تباہی چھپی ہے۔
وہ ماحولیاتی بربادی جو غزہ کو زمین پر سب سے زیادہ زہریلا اور ناقابلِ رہائش مقام بنا چکی ہے۔ اگر جنگ کل ختم بھی ہو جائے تو آلودہ پانی، زہریلی مٹی اور ملبے کے پہاڑ دہائیوں تک موت بانٹتے رہیں گے۔
دنیا نے مہینوں تک صرف انسانی ہلاکتوں، بے گھری اور نسل کشی کی قانونی و اخلاقی بحث پر توجہ دی مگر بہت کم لوگوں نے غزہ کی ماحولیاتی موت پر غور کیا، وہ خاموش مگر تباہ کن انجام جو لگاتار بمباری نے اس خطے کے قدرتی نظام کو پہنچایا۔
اقوامِ متحدہ، عالمی بینک اور یو این ماحولیاتی پروگرام کی تازہ رپورٹوں نے اس تباہی کو اعداد و شمار میں بیان کیا ہے۔ ایک مشترکہ رپورٹ کے مطابق غزہ کی تعمیرِ نو کے لیے 53 ارب ڈالر درکار ہیں جبکہ 4 کروڑ 70 لاکھ ٹن ملبہ زمین پر بکھرا ہوا ہے، جو ایک ماحولیاتی بم کی مانند ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق 80 فیصد سے زائد آبادی کو صاف پانی دستیاب نہیں، اور 90 فیصد گندا پانی بغیر صفائی کے بحیرہ روم میں بہا دیا جا رہا ہے۔
بعض علاقوں میں زہریلی دھاتوں اور کیمیکل کی مقدار عالمی معیار سے کئی گنا زیادہ ہے۔
یو این ماحولیاتی پروگرام نے خبردار کیا ہے کہ صورتحال انتہائی سنگین ہو چکی ہے کیونکہ پانی، نکاسی اور توانائی کے نظام کی تباہی نے ماحولیاتی زنجیر کو مکمل طور پر توڑ دیا ہے ۔ زیرِ زمین پانی گندے ایندھن سے آلودہ، مٹی دھماکہ خیز کیمیکل سے بھری اور ساحلی پانی کالے گند سے بھرے ہوئے ہیں۔
جنگ بندی بھی اگر ہو جائے تو غزہ کی فضا اب بھی محصور ہے۔ سیوریج سمندر میں بہہ رہا ہے، ڈی سیلی نیشن پلانٹس ایندھن کی کمی سے بند پڑے ہیں اور ملبے کی دھول میں زہریلے کیمیکل شامل ہیں۔
یہ آلودگی سرحدوں تک محدود نہیں بلکہ ہواؤں اور سمندری لہروں کے ذریعے مصر، اسرائیل اور دیگر خطوں تک پھیل رہی ہے۔
ماہرینِ انسانی حقوق اب ایکو سائیڈ کی اصطلاح استعمال کر رہے ہیں یعنی ماحول کا منظم قتل۔
ان کے مطابق یہ تباہی حادثاتی نہیں بلکہ منظم تشدد کی ایک توسیع ہے۔ اقوامِ متحدہ کے ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ پانی، خوراک اور ایندھن کی محرومی اجتماعی سزا کے زمرے میں آ سکتی ہے جو نسل کشی کے قانون میں شامل جرم ہے۔
قانونی بحث اپنی جگہ، مگر حقیقت یہ ہے کہ غزہ کو زندگی کے قدرتی وسائل سے محروم کیا جا رہا ہے۔ زہریلے کنویں، تباہ شدہ کھیت، اور آلودہ ہوا اس بات کی گواہی ہیں کہ یہاں زندہ رہنا خود ایک مزاحمت بن چکا ہے۔
یو این ای پی اور عالمی بینک کی مشترکہ رپورٹ میں ماحولیاتی بحالی کے چار بنیادی نکات پیش کیے گئے ہیں۔
اول، پانی اور نکاسی کے نظام کی بحالی کو ہنگامی انسانی تحفظ کے زمرے میں شامل کیا جائے۔ جب تک صاف پانی اور نکاسی کا نظام درست نہیں ہوتا، کوئی جنگ بندی وباؤں کو نہیں روک سکتی۔
دوم، ایک جامع ماحولیاتی تجزیہ فوری طور پر شروع کیا جائے۔ سیٹلائٹ تصویریں کافی نہیں، ماہرین کو زمین پر جا کر مٹی، ہوااور سمندری پانی کے نمونے لینے ہوں گے۔
سوم، ملبے کی محفوظ صفائی عوامی صحت کا مسئلہ ہے، تعمیراتی سہولت نہیں۔ اس ملبے میں زہریلی دھاتیں اور ایسبیسٹاس شامل ہیں جو آنے والی نسلوں کے لیے مہلک ثابت ہو سکتی ہیں۔
چہارم، غزہ کی تعمیر نو کو سبز معیشت کے تصور کے ساتھ جوڑا جائے ، شمسی توانائی، ماحول دوست رہائش، اور ری سائیکل مٹیریل کے ذریعے نہ صرف فضا بہتر بنائی جا سکتی ہے بلکہ روزگار کے نئے مواقع بھی پیدا ہوں گے۔
بین الاقوامی برادری پر لازم ہے کہ وہ ماحولیاتی انصاف کو امن کے بنیادی ستون کے طور پر تسلیم کرے۔ اگر تعمیرِ نو انہی طاقتوں کے ہاتھوں میں رہی جو تباہی میں شریک تھیں، تو یہ محض ناانصافی کا نیا روپ ہو گا۔
ایک تجویز کے مطابق، اقوامِ متحدہ اور عالمی بینک کی زیرِ نگرانی غزہ ماحولیاتی بحالی کمیشن تشکیل دیا جائے جو مقامی انجینئرز، سائنسدانوں اور کمیونٹی نمائندوں کی شمولیت کے ساتھ بحالی کے عمل کی نگرانی کرے۔
امن معاہدے سے بڑھ کر ضرورت ایک ماحولیاتی جنگ بندی کی ہے ایسی جنگ بندی جو زمین، پانی اور ہوا کی شفا پر مبنی ہو۔ غزہ کی اصل بحالی تب ممکن ہوگی جب اس کی مٹی میں زندگی واپس آئے، پانی زہر سے پاک ہو، اور اس کے بچے سانس لینے کے قابل ہوا میں جی سکیں۔
غزہ کا مستقبل سفارتی معاہدوں سے نہیں بلکہ اس کے پانی کی شفافیت، مٹی کی زرخیزی، اور آنے والی نسلوں کی صحت سے طے ہوگا۔ حقیقی امن وہی ہے جو فطرت اور انسان دونوں کو زندہ رکھے ورنہ جنگ صرف شکل بدل کر جاری رہے گی۔













گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں


