ٹیکس اہداف اور معاشی اشاریوں کا کھیل، کیا ملکی معیشت کی سمت درست ہے؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

ٹیکس اہداف اور معاشی اشاریوں کا کھیل، کیا ملکی معیشت کی سمت درست ہے؟
ٹیکس اہداف اور معاشی اشاریوں کا کھیل، کیا ملکی معیشت کی سمت درست ہے؟

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

وطنِ عزیز پاکستان میں سال 2020ء کے ختم ہوتے ہی کارکردگی رپورٹس سامنے آنے لگیں، وفاقی حکومت ٹیکس اہداف اور معاشی اشاریوں کے کھیل میں الجھا کر یہ ثابت کرنے کی کوشش میں مصروف ہے کہ ملکی معیشت درست سمت میں گامزن ہے۔

دوسری جانب اپوزیشن رہنما مختلف دلائل دے کر پی ٹی آئی کی حکومت کو تاریخ کی بد ترین حکومت قرار دینے پر تلے ہوئے ہیں، سوال یہ ہے کہ اپنے قیام سے اب تک پی ٹی آئی حکومت نے ایسے کیا اقدامات اٹھائے کہ ہم ملکی معیشت کی سمت کو درست قرار دے سکیں۔ آئیے، اِس سوال کے مختلف پہلوؤں پر غور کرتے ہیں۔

معاشی اشاریوں پر فردوس عاشق اعوان کا بیان 

وزیرِ اعلیٰ پنجاب کی معاونِ خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان کا کہنا ہے کہ مسلسل 5ویں ماہ ہمارا کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس رہا، عوام کو 56 ارب کا ٹیکس ریلیف دیا گیا، وصولیوں کی مد میں رواں مالی سال کے ابتدائی 6 ماہ کے دوران گزشتہ سال کی نسبت 42 فیصد اضافہ ہوا۔

فردوس عاشق اعوان نے کہا کہ بزدار حکومت کی ان کاوشوں اور محنت کی بدولت معاشی اشارئیے بہتر معیشت کا پتہ دے رہے ہیں۔ پنجاب کو 1200 ارب کے قرض میں ڈبو کر ن لیگ نے لوگوں کو معاشی گھاؤ دئیے ہیں۔

یہ ہے تحریکِ انصاف کا وہ بیانیہ جو کہتا ہےکہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں میں پی ٹی آئی میدان پر میدان مار رہی ہے، فتح پر فتح حاصل کرتی جا رہی ہے، سوال یہ ہے کہ اگر یہ سچ ہے تو عوام آج مہنگائی کے بھنور میں کیوں پھنسے ہوئے ہیں؟ آئیے مزید غور کرتے ہیں۔

ایف بی آر کے ٹیکس محاصل 

فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے جولائی سے لے کر دسمبر تک کے اعدادوشمار جاری کرتے ہوئے بتایا کہ 2020ء میں ٹیکس ریفنڈز 53 ارب رہے جو اس سے گزشتہ برس کے مقابلے میں 90 فیصد زیادہ تھے۔

قومی ادارے ایف بی آر کے اعلامیے کے مطابق 6 ماہ میں ریونیو کی ریکارڈ بلند ترین سطح حاصل ہوئی۔ پہلے 6 ماہ کے دوران 2 ہزار 204 ارب روبے نیٹ ریونیو حاصل ہوا۔ انکم ٹیکس کی مد میں 816 ارب روپے حاصل کیے گئے۔ 

کرپشن کے پیسے کی واپسی پر نیب رپورٹ

چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال کا کہنا ہے کہ قومی احتساب بیورو (نیب) کے قیام سے اب تک ہم نے 714 ارب روپے وصول کرکے قومی خزانے میں جمع کرائے۔ دیگر متعلقہ اداروں کے ساتھ موازنہ کیا جائے تو کرپشن کی شرح 68 اعشاریہ 8 فیصد رہی۔

قومی احتساب بیورو کی رپورٹ کے مطابق راولپنڈی میں نیب نے 2020ء تک 196 جبکہ 2019ء تک 93ارب روپے برآمد کیے۔ جعلی اکاؤنٹس کیس کے 23 ارب روپے بھی اسی میں شامل بتائے گئے ہیں۔

کراچی میں نیب نے 2020ء میں وصولیوں کا حجم 80 ارب روپے تک پہنچایا، نیب کراچی نے 2018ء میں 8 ارب 87 کروڑ، 2019ء میں 2ارب 32 کروڑ برآمد کیے۔ لاہور میں سال 2020ء کے دوران 29 ارب روپے برآمد ہوئے۔

رپورٹ کے مطابق نیب بلوچستان نے 2020ء میں 7 کروڑ 10 لاکھ برآمد کیے، 2019ء میں بھی 7 کروڑ 10 لاکھ، 2018ء میں 1 ارب 5 کروڑ روپے برآمد ہوئے۔یہ سارا پیسہ قومی خزانے میں جمع کرایا گیا ہے۔ 

برآمدات میں اضافہ

تحریکِ انصاف کا معاشی ویژن برآمدات میں اضافہ کرکے درآمدات کو کم کرنا ہے تاکہ اخراجات پر قابو پایا جائے اور آمدن میں اضافہ کیا جائے، یہی وجہ ہے کہ ملک کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ سرپلس میں بدلا جسے حکومت کی کامیابی کےطور پر پیش کیا جاتا ہے۔

دسمبر 2020ء کے دوران پاکستان کی برآمدات میں 18 اعشاریہ 3 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ گزشتہ مالی سال دسمبر میں برآمدات کا حجم 1 اعشاریہ 99 ارب ڈالر تھا جبکہ رواں مالی سال کے دوران برآمدات 2 اعشاریہ 3 ارب ڈالر ہوئیں جو دسمبر کے دوران بلند ترین برآمدات قرار دے دی گئیں۔

مشیرِ تجارت عبدالرزاق داؤد کے مطابق جولائی سے دسمبر 2020ء کے دوران ملکی برآمدات میں 4 اعشاریہ 9 فیصد اضافہ نوٹ کیا گیا۔ گزشتہ برس جولائی سے دسمبر تک برآمدات 11 اعشاریہ 5 ارب ڈالر تھیں جبکہ رواں برس جولائی تا دسمبر میں برآمدات 12 اعشاریہ 1 ارب ڈالر رہیں۔ 

پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں تاریخی تیزی 

سالِ نو کے پہلے روز یکم جنوری 2021ء کو پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں تاریخی تیزی دیکھی گئی۔ کے ایس ای 100 انڈیکس 2 سال 6 ماہ کی بلند ترین سطح پر جا پہنچا۔

کے ایس ای 100 انڈیکس میں 1 اعشاریہ 55 فیصد اور 679 پوائنٹس کا اضافہ دیکھا گیا۔ مارکیٹ 44 ہزار 434 پوائنٹس پر بند ہوئی۔ صرف 1 روز میں کیپٹلائزیشن میں 95 ارب روپے کا اضافہ ہوا جسے سال 2020ء کی شرح سے 7 فیصد زیادہ قرار دیا گیا ہے۔

گزشتہ برس 2020ء کے دوران 100 انڈیکس کی بلند ترین سطح 43 ہزار 955 پوائنٹس تھی ۔ 83 ارب شیئرز خریدے اور بیچے گئے جن کی مالیت 31 کھرب روپے کے لگ بھگ ہے۔ 

اشیائے خوردونوش کی قیمتیں اور مہنگائی 

گزشتہ برس 2020ء کے دوران حکومت مہنگائی پر قابو پانے میں مکمل طور پر ناکام رہی کیونکہ دسمبر کے دوران بھی مہنگائی کی شرح 8 فیصد ریکارڈ کی گئی۔

وفاقی حکومت کے ادارۂ شماریات کے مطابق دسمبر کے دوران انڈوں، مصالحہ جات، گھی اور گوشت سمیت مختلف اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں کافی اضافہ دیکھنے میں آیا۔

سالانہ بنیاد پر انڈوں کی قیمت میں 64 فیصد فی درجن اضافہ ہوا۔ 135 روپے فی درجن انڈے 200 روپے فی درجن بکنے لگے۔ مرغی کی قیمت میں 67 فیصد، مصالحہ جات کی قیمتوں میں 47 فیصد، آلو 38، مونگ کی دال 23 جبکہ ماش کی دال 19 فیصد فی کلو مہنگی ہو گئی۔

ادارۂ شماریات نے اعتراف کیا کہ آلو کی قیمت 60 روپے سے بڑھ کر 75 روپے فی کلو جبکہ مونگ کی دال کی قیمت 200 روپے سے 245 روپے فی کلو تک جا پہنچی۔ سالانہ بنیاد پر ماش کی فی کلو قیمت میں 50 روپے کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔

گھی کی قیمت میں 17 فیصد جبکہ چینی کی قیمت میں 15 فیصد فی کلو اضافہ تسلیم کیا گیا۔ واضح رہے کہ مارکیٹ کی صورتحال حکومتی اعدادوشمار کے مقابلے میں کہیں زیادہ بھیانک بھی ثابت ہوسکتی ہے کیونکہ دکاندار عموماً سرکاری داموں پر خریدوفروخت سے اجتناب کرتے ہیں جسے مصنوعی مہنگائی قرار دیا جاسکتا ہے جس کا دراصل پاکستانی شہریوں کو سامنا ہے، حکومت کو نہیں۔ 

کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس 

مہنگائی کے طوفان کو روکنے کیلئے حکومت صرف کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس دکھا کر عوام کو خاموش کرنے کی حکمتِ عملی پر عمل پیرا ہے۔ نومبر2020میں کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس 44 کروڑ 70 لاکھ ڈالر تھا۔

ماہ جولائی سے نومبر کے دوران کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس 1 ارب 64 کروڑ ڈالرز ریکارڈ کیا گیا۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے مطابق ترسیلاتِ زر بڑھ رہی ہیں اور بیرونِ ملک سے پیسہ آنے کے سبب کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کم ہوا اور زرِ مبادلہ کے ذخائر میں بھی اضافہ نوٹ کیا گیا۔

اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے مطابق نومبر کے دوران زرِ مبادلہ کے ذخائر میں 1 ارب ڈالرز کا اضافہ ہوا تھا، لیکن ہمارا سب سے بڑا سوال اپنی جگہ برقرار ہے کہ مہنگائی پر قابو پانے کیلئے حکومت کیا کررہی ہے؟

پیسہ کہاں گیا؟

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سوشل میڈیا سے عرصۂ دراز سے وابستہ رہنما اور خواجہ سعد رفیق کے سوشل میڈیا ایڈوائزر عثمان مغل کا کہنا ہے کہ چوہدری سرور کے مطابق 2 سال میں وفاقی حکومت نے 20 ارب ڈالر کا قرض واپس کیا۔

عثمان مغل نے کہا کہ حکومت نے 2 سالوں میں 35 ارب ڈالر قرض بھی تو لیا تھا۔ ہمارا سوال یہ ہے کہ اگر حکومت نے 20 ارب ڈالر قرض واپس کیا تو باقی 15 ارب ڈالر کہاں چلے گئے؟

مہنگائی کا حل؟

جب تک مصنوعی مہنگائی، ناجائز ذخیرہ اندوزی اور من مانی قیمتوں جیسے مسائل پر قابو نہیں پایا جاتا اور پٹرولیم مصنوعات، چینی اور آٹے سمیت دیگر اشیائے ضروریہ کی قیمتیں اعتدال پر نہیں لائی جاتیں، مہنگائی کے مسائل جوں کے توں برقرار رہیں گے، بلکہ خدشہ یہ ہے کہ مہنگائی میں اضافہ بھی جاری رہے گا۔

وفاقی حکومت کو چاہئے کہ تمام اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لے کر مہنگائی کے مسائل پر قابو پانے کیلئے بہتر معاشی و اقتصادی حکمتِ عملی کے ساتھ ساتھ عمل درآمد کا بھی جائزہ لے اور یہ جاننے کی کوشش کرے کہ سب سے نچلی سطح پر موجود پاکستان کے غریب ترین انسان کو آج کل کن حالات کا سامنا ہے۔ غریبوں کی مدد کیلئے قرض اور امداد دینے کی بجائےنوکریاں دی جائیں اور اشیائے ضروریہ کی قیمتیں کم کی جائیں۔ 

Related Posts