سپریم کورٹ حکم کے برعکس EOBI کی ڈیپوٹیشن پر آئے افسران کو ترقی دینے کی تیاری

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

سپریم کورٹ حکم کے برعکس EOBI کی ڈیپوٹیشن پر آئے افسران کو ترقی دینے کی تیاری
سپریم کورٹ حکم کے برعکس EOBI کی ڈیپوٹیشن پر آئے افسران کو ترقی دینے کی تیاری

کراچی: وفاقی وزارت سمندر پار پاکستانی و ترقی انسانی وسائل، حکومت پاکستان کے محکمہ ایمپلائیز اولڈ ایج بینی فٹس انسٹی ٹیوشن (EOBI) میں اکثر انتظامی عہدوں پر تعینات ڈیپوٹیشن،خلاف ضابطہ طورپر ڈیپوٹیشن پر تعینات ہوکر ضم ہوجانے والے اورOPSافسران پر مشتمل ہے۔

تازہ ترین اطلاعات کے مطابق پیپلز پارٹی کے پچھلے دور اقتدار میں خلاف ضابطہ طور پر ڈیپوٹیشن پر آکر ای او بی آئی میں کلیدی عہدوں پر تعیناتی کرانے اور بالآخرسپریم کورٹ آف پاکستان کے احکامات کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرتے ہوئے اور ادارہ کے مستقل اور تجربہ کار افسران اور ملازمین کی حق تلفی کرتے ہوئے ای او بی آئی کی ملازمت میں ضم ہوجانے والے درجنوں اعلیٰ افسران کا انکشاف ہوا ہے۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے ایک آئینی پٹیشن نمبر،CMA No. 5215,6/2011 اورHRC No.49012-P of 2010 کے اپنے17مارچ2014کے فیصلہ میں ای او بی آئی میں غیر قانونی طور پر تمام بھرتی شدہ افسران، ڈیپوٹیشن اور ضم ہوجانے والے افسران کی تقرریوں کو مکمل غیر قانونی قرار دیتے ہوئے ای او بی آئی کی انتظامیہ کو ان تمام افسران کی فوری طور پر برطرفی کی ہدایت کی تھی۔لیکن ای او بی آئی کی قانون سے بالاتر انتظامیہ نے ان خلاف ضابطہ ڈیپوٹیشن افسران کو ان کے اصل محکموں میں واپس نہ بھیج کر سپریم کورٹ آف پاکستان کے احکامات پاؤں تلے روند دیئے۔

معلوم ہوا ہے کہ ای او بی آئی کی انتظامیہ کی جانب سے غیر قانونی طور پر ضم ہوجانے والے ان اعلیٰ افسران کو ان کے محکموں میں واپس بھیجنے کے بجائے ایک بار پھر قانون شکنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کی اگلے گریڈ میں ترقیوں کے لئے منصوبہ بندی کرلی ہے۔اس مقصد کے لئے جلد ہی ڈیپارٹمنٹل پروموشن کمیٹی(DPC) کا اجلاس طلب کیا جا رہا ہے۔ ان افسران میں بیک وقت دو کلیدی عہدوں پر فائز انتہائی بااثر اعلیٰ افسر ڈاکٹر جاوید احمد شیخ،ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل آپریشنز اور سیکریٹری بورڈ آف ٹرسٹیز کا نام سرفہرست ہے۔

ڈیپوٹیشن کب، کیوں  اور کیسے دی جاتی ہے؟

اسٹبلشمنٹ ڈویژن، حکومت پاکستان، اسلام آباد کے ڈیپوٹیشن کے قواعد وضوابط کے مطابق صرف انتہائی ناگزیر صورتوں میں ہی کوئی سرکاری محکمہ کسی اور سرکاری محکمہ کے کسی افسر یا ملازم کی کی خدمات مستعار (Deputation)لے سکتا ہے۔وہ بھی کسی مخصوص افسر کے نام کے ساتھ نہیں۔ بلکہ اس سلسلہ میں تین موزوں افسران کے نام تجویزکئے جاتے ہیں،جن میں سے بوقت ضرورت کسی ایک افسر کو منتخب کیا جاسکتا ہے اور ڈیپوٹیشن پر تعیناتی کے عرصہ کی زیادہ سے زیادہ مدت تین برس ہے اور مجاز اتھارٹی اس میں مزید دو برس کی توسیع دے سکتی ہے۔

اس کے برعکس ای او بی آئی میں یہ قانون شکن روایت چلی آ رہی ہے کہ ڈیپوٹیشن پر آنے والے بااثر افسران اپنے اصل محکموں کو واپس جانے کے بجائے ای او بی آئی کی ملازمت میں ہی ضم ہوکر انتظامیہ کا اہم حصہ بن جاتے ہیں اور اس حق تلفی کے باعث ای او بی آئی کے اصل افسران اور ملازمین اپنی جائز ترقیوں سے محروم ہوجاتے ہیں۔

ڈیپوٹیشن پر آئے افسران اداروں کے لئے نقصان دہ کیسے ہیں؟

ذرائع کا کہنا ہے کہ سال2010تا2013کے دوران ای او بی آئی میں 400 افراد کی سیاسی بنیادوں پر خلاف ضابطہ طور پر براہ راست کلیدی عہدوں پر بھرتیاں کرنے والے اور ملک کے غریب محنت کشوں کے پنشن فنڈ سے بھاری کمیشن کے لالچ میں 34ارب روپے کے میگا لینڈ اسکینڈل میں ملوث تمام اعلیٰ افسران بشمول چیئرمین ظفر اقبال گوندل، انوسٹمنٹ ایڈوائزر، واحد خورشید کنول اور فنانشل ایڈوائز ڈاکٹر امتیاز احمد اور نجم الثاقب صدیقی بھی دیگر سرکاری محکموں سے ڈیپوٹیشن پر آکر ای او بی آئی میں انتہائی کلیدی عہدوں پر تعینات ہوئے تھے۔ جس کے باعث ای او بی آئی پنشن فنڈ اور اثاثہ جات کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا گیا ہے۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان میں ورکرز ویلفیئر بورڈ کے ایک ڈپٹی ڈائریکٹر زاہدعلی کی جانب سے دائر شدہ پٹیشن نمبر89/2011 بخلاف سیکریٹری وزارت سمندر پار پاکستان و ترقی انسانی وسائل، حکومت پاکستان کی سماعت کے دوران وزارت کے ماتحت دیگرمحکموں بشمول ای او بی آئی میں خلاف ضابطہ طور ڈیپوٹیشن پر تعینات اور ضم ہونے والے 29،افسران اور ملازمین کو واپس ان کے اصل محکموں میں بھیجنے کی استدعا کی گئی تھی۔

اس سلسلہ میں ای اوبی آئی کی انتظامیہ کی جانب سے بذریعہ آفس آرڈر نمبر 269/2017 بتاریخ 22ستمبر2017نذر محمد بزدار، ڈائریکٹر جنرل ایچ آر ڈپارٹمنٹ ہیڈ آفس کی سربراہی میں ایک اعلیٰ سطی کمیٹی تشکیل دی گئی تھی۔ جس کے ارکان میں ای او بی آئی کے اعلیٰ افسران جاوید ضیاء برنی، ڈائریکٹر جنرل انوسٹمنٹ ایڈوائزر اینڈ آپریشنز، ڈاکٹر رحمت عباد خان، سیکریٹری بورڈ آف ٹرسٹیز اور محمد نعیم،اسسٹنٹ ڈائریکٹر ٹریننگ، ایچ آر ڈپارٹمنٹ شامل تھے۔

اس وقت ای او بی آئی کا ایک انتہائی بااثر اعلیٰ افسر سید اکبر عادل شاہ،ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل آپریشنز،جو قائد حزب اختلاف سید خورشید احمد شاہ کا برادر نسبتی بھی تھا،جس نے اپنے بھاری اثر ورسوخ کو استعمال کرتے ہوئے محض اپنی نوکری بچانے کی خاطر اس اہم کیس کو سرد خانہ کی زینت بنا دیا تھا۔ 2018ء میں ڈائریکٹر جنرل نذر محمد بزدار کے ای او بی آئی سے جانے کے بعد ان ڈیپوٹیشن اعلیٰ افسران کو کھلی چھوٹ مل گئی ہے۔بااثرڈیپوٹیشن افسرسید اکبر عادل شاہ اپریل 2020ء میں ای او بی آئی کی ملازمت سے ریٹائر ہوگیا تھا۔

ای او بی آئی میں خلاف ضابطہ طور پر ڈیپوٹیشن پر آکر ضم ہوجانے والے ان افسران میں ڈاکٹر جاوید احمد شیخ موجودہ ڈپٹی ڈائریکٹرجنرل آپریشنز سندھ اور بلوچستان اور سیکریٹری بورڈ آف ٹرسٹیز کا نام سر فہرست ہے۔ جبکہ ای او بی آئی کی پچھلی انتظامیہ اور ایچ آر ڈپارٹمنٹ کے بعض اعلیٰ افسران کی چشم پوشی اور ملی بھگت سے ڈیپوٹیشن پر آکر غیرقانونی طور پرضم ہوجانے والے بیشتر افسران ادارہ میں طویل عرصہ تک کلیدی اور منفعت بخش عہدوں پر ریٹائرمنٹ کے بعد اب بھاری پنشن اور پرکشش مراعات سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔یہ افسران پیپلز پارٹی کے پچھلے دور اقتدار میں غیر قانونی طور پر ڈیپوٹیشن کے ذریعہ ای او بی آئی میں داخل ہوکر اپنے قدم جمانے میں کامیاب ہوگئے تھے۔

پیپلز پارٹی ای او بی آئی پر کیسے اثر انداز ہے؟

1976 میں ذوالفقار علی بھٹوکے عوامی دور حکومت میں قائم کئے جانے والے وفاقی محکمہ ای او بی آئی میں ہمیشہ پیپلز پارٹی کی بہت گہری چھاپ اور بھرپور اثرات پائے جاتے ہیں۔ ان سنگین بدعنوانیوں میں سید خورشید احمد شاہ کی ہدایات پر اس وقت کے انتہائی بدعنوان چیئرمین ظفر اقبال گوندل اور ای او بی آئی کی انتظامیہ کی جانب سے سیاسی بنیادوں پر 400افراد کی براہ راست کلیدی عہدوں پر بھرتیاں کی گئی تھیں۔

جس کے خلاف ای او بی آئی ایمپلائیز فیڈریشن آف پاکستان ((CBA کے رہنماؤں سید مبشر رضی جعفری نے سپریم کورٹ آف پاکستان میں ایک آئینی درخواست نمبر06/2011، دائر کی تھی اور تجمل حسین(فیصل آباد) نے سپریم کورٹ آف پاکستان کے ہیومن رائٹس سیلHRCکے ذریعہHRC No.49012-P 2010 بھی دائر کی تھی۔

بالآخرعرصہ تین برس کی مسلسل سماعتوں کے بعد سپریم کورٹ آف پاکستان نے اپنے 17مارچ 2014ء کو اپنے تاریخی فیصلے میں ای او بی آئی میں کی جانے والی ان تمام خلاف ضابطہ طور پر بھرتی شدہ افسران اور ملازمین کی بھرتیوں کو خلاف قانون قرار دیتے ہوئے ان 365افسران اور ملازمین کوفوری طور پر ای او بی آئی کی ملازمتوں سے برطرف کرنے کی ہدایت کی تھی۔

اس وقت کے ای او بی آئی کے ایچ آر ڈپارٹمنٹ کے ایک اعلیٰ افسر معراج نظام الدین، ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل نے انتہائی بدنیتی اور جعلسازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سپریم کورٹ آف پاکستان کو پیش کی جانے والی ا ن400 غیر قانونی بھرتیوں کی فہرست میں سے42ملازمین کی فہرست دانستہ طور پر غائب کردی تھی۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کے حکم پر برطرف شدہ ان 365افسران اور ملازمین کی برطرفی کا آرڈر آج بھی ای او بی آئی کی ویب سائٹ پر موجود ہے۔

اس وقت کی انتظامیہ کی ملی بھگت اور غفلت کے باعث یہ 365برطرف شدہ افسران ای او بی آئی کی کروڑوں روپوں کی ملکیتی سرکاری نمبر پلیٹ والی400 نئی گاڑیاں، لیپ ٹاپ اور دیگر قیمتی سامان اور دستاویزات لے کر فرار ہوگئے تھے۔جو ای او بی آئی کی انتظامیہ اور ای او بی آئی میں کلیدی عہدوں پر فائز ان برطرف افسران کے لئے نرم گوشہ رکھنے والے اور ہمدرد افسران کی عدم دلچسپی کے باعث اب تک بازیاب نہیں ہوسکی ہیں۔

34ارب روپے کی 18اراضیوں کا کیس:

اسی طرح اس سیاہ دور میں چیئرمین ظفر اقبال گوندل اور اس کے حواری افسران کی جانب سے ملک کے لاکھوں غریب محنت کشوں کے پنشن فنڈ سے نام نہاد سرمایہ کاری کے نام پر مختلف پارٹیوں سے بھاری کمیشن کے عوض ملک کے مختلف شہروں میں معمولی قیمتوں کی18 اراضیوں اور املاک کی بے تحاشہ بلند قیمتوں میں خریداری بھی کی گئی تھی۔ جس کا معاملہ منظر عام پر آنے کے بعد اس وقت کے چیف جسٹس افتخار چوہدری نے ی او بی آئی کے 34بلین روپے کے میگا لینڈ اسکینڈل کا ازخود نوٹس لیا تھا اور یہ کیس نمبر35/2013 بھی ای او بی آئی کے بورڈ آف ٹرسٹیز اور انتظامیہ کی عدم دلچسپی کے باعث تاحال سپریم کورٹ آف پاکستان میں زیر سماعت ہے۔

گزشتہ9،برسوں میں اس اہم کیس کی پیروی کے دوران ای او بی آئی کی جانب سے نامور وکیلوں کو منہ مانگی فیسوں کی مد میں اور ای او بی آئی کے چیئرمین حضرات اور دیگر اعلیٰ افسران کے آئے دن کے کراچی لاہور اور اسلام آباد کے دوروں اور اراضیوں اور املاک کے معائنوں،بورڈ آف ٹرسٹیز کے اجلاسوں پر اجلاسوں اور ان اراضیوں اور املاک کی آئے دن کی ویلیویشن رپورٹوں کی تیاری پر ای او بی آئی کے اب تک کروڑوں روپے خرچ ہوچکے ہیں، لیکن اس کے باوجود اب تک نتیجہ صفر کا صفر ہی رہا ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ ای او بی آئی میں آج بھی ہیڈ آفس اور ملک کے مختلف ریجنل آفسوں میں سید خورشید احمد شاہ کے تقریبا42 نزدیکی عزیز واقارب اور ان کے گھریلو ملازمین، خانساماں،ڈرائیورز اور دیگر افراد ملازمت سے لطف اندوز ہورہے ہیں اور ان غیر قانونی ملازمین کے خلاف کارروائی کرنے والا کوئی نہیں۔

ای او بی آئی میں خلاف ضابطہ طور پر ڈیپوٹیشن کے ذریعہ تعینات ہونے اور غیر قانونی طور پر ضم ہوجانے والے افسران کی فہرست:

سید اکبر عادل شاہ: ایمپلائی نمبر918387 حال ہی میں ریٹائر ہونے والا ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل بی اینڈ سی اسلام آباد، سندھ یونیورسٹی میں فزکس کا لیکچرار تھا۔ لیکن سید خورشید احمد شاہ کے برادر نسبتی ہونے کے باعث اسے یکم فروری1995ء کو غیر قانونی طور پر ای او بی آئی میں ڈیپوٹیشن پر لاکر اگلے گریڈ میں ڈپٹی ڈائریکٹر آپریشنز کے منفعت بخش اور طاقت ور عہدہ پر تعینات کردیا گیا تھا۔غیر متعلقہ تعلیمی قابلیت اور تجربہ نہ ہونے کے باوجود سید اکبر عادل شاہ انتظامیہ کی آشیرباد سے کراچی اور اندرون سندھ کے کئی ریجنل آفسوں کے منفعت بخش عہدوں پر فائز رہا۔

2008ء میں پیپلز پارٹی کے برسراقتدار آنے اور سید خورشید احمد شاہ کے وفاقی وزارت محنت وافرادی قوت کا قلمدان سنبھالنے کے فورا بعد سید خورشید احمد شاہ کے حکم پر اپنے برادر نسبتی سید اکبر عادل شاہ،ڈپٹی ڈائریکٹر کوکو ای او بی آئی سے ٹورنٹو(کینیڈا) کے پاکستانی سفارت خانہ میں لیبر اتاشی کی حیثیت سے تعینات کرادیا گیا اور اس مقصد کے تحت ان کی اہلیت ثابت کرنے کے لئے ای او بی آئی میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر جنرل(ADG) کے عہدہ کو ہی سرے سے ختم کرادیا گیا۔ جس کے باعث ای او بی آئی کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر جنرل کے عہدہ پر فائز 9 اعلیٰ افسران کی تنزلی بھی کی گئی۔ اس دوران سید اکبر عادل شاہ نے کینیڈا کی شہریت بھی حاصل کرلی۔

شہریت کے حصول کے بعد سید اکبر عادل شاہ نے وطن واپس آکر دوبارہ ای او بی آئی میں ملازمت کا سلسلہ شروع کردیا اور اتنا طویل عرصہ غیر حاضری کے باوجودان کی سیناریٹی بھی برقرار رہی۔ اس دوران سید اکبر عادل شاہ نے ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل بی اینڈ سی عوامی مرکز بی اینڈ سی لاہور اور بی اینڈ سی اسلام آباد کے سربراہ کی حیثیت سے بڑی دولت کمائی اور بنی گالا اسلام آباد میں وزیراعظم عمران خان کے محل کے سامنے اپنی شاندار حویلی تعمیر کرائی، جہاں وہ اب رہائش پذیر ہے۔بااثر اعلیٰ افسرسید اکبر عادل شاہ ای او بی آئی میں غیر قانونی طور سے طویل عرصہ ملازمت کے بعد بالکل محفوظ طریقہ سے اپریل2020ء میں ریٹائر ہوگیا تھا۔

ڈاکٹر جاوید احمد شیخ کی تعیناتی اور کیڈر کی تبدیلی:

ڈاکٹرجاوید احمد شیخ:  ایمپلائی نمبر920967،بیک وقت دو انتہائی کلیدی عہدوں ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل، بی اینڈ سی عوامی مرکز کراچی اور سیکریٹری بورڈ آف ٹرسٹیز،ای او بی آئی ڈاکٹر جاوید احمد شیخ کا اصل محکمہ اسٹیٹ لائف انشورنس کارپوریشن آف پاکستان ہے۔جہاں وہ کنٹریکٹ پر عرصہ دو برس سے ڈپٹی منیجر کی حیثیت سے ملازم تھے۔وہ 13جولائی1998ء میں بذریعہ ڈیپوٹیشن ای او بی آئی میں میڈیکل افسر کی اسامی کے لئے تعینات ہوئے تھے،اصل محکمہ واپس جانے کے بجائے 20 ستمبر1999 کو غیر قانونی طور پر ای او بی آئی کی ملازمت میں ضم ہوگئے تھے۔

انکوائری رپورٹ کے مطابق سندھ دیہی کا ڈومیسائل رکھنے والے ڈاکٹر جاوید احمد شیخ نہ صرف ای او بی آئی کے عہدے کے لئے غیر متعلقہ تعلیمی قابلیت اور محض دو برس کے ملازمتی تجربہ کے حامل ہیں۔بلکہ حیرت انگیز طور پر ای او بی آئی کے ریکارڈ میں MBBSکی ڈگری کے بجائے ایم اے پولیٹیکل سائنس کی ڈگری موجود ہے۔سابق سفارت کار کے صاحبزدے ڈاکٹر جاوید احمد شیخ ای او بی آئی کے بااثرافسران میں ہونے کی وجہ سے بیک وقت دو انتہائی کلیدی اور منفعت بخش عہدوں پر ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل، آپریشنز سندھ و بلوچستان اور سیکریٹری بورڈ آف ٹرسٹیز کے نہایت کلیدی عہدوں پر فائز ہیں۔

بورڈ آف ٹرسٹیز پالیسی ساز ادارہ:

واضح رہے کہ ای او بی آئی کا بورڈ آف ٹرسٹیز ادارہ کا ایک اہم پالیسی ساز ادارہ ہے۔جس کے صدر وفاقی سیکریٹری وزارت سمندر پار پاکستانی و ترقی انسانی وسائل حکومت پاکستان، جبکہ ارکان میں وفاقی اور چاروں صوبائی حکومتوں کے سیکریٹری کی سطح کے افسران اور چاروں صوبوں کے آجران اور ملازمین کے منتخب نمائندے شامل ہوتے ہیں۔ای او بی آئی کے بورڈ آف ٹرسٹیز کا سیکریٹری کا عہدہ ایک آزاد اور خودمختار عہدے کی حیثیت رکھتا ہے۔

ڈاکٹر جاوید احمد شیخ کی بیک وقت ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل، آپریشنز سندھ و بلوچستان اور سیکریٹری بورڈ آف ٹرسٹیز کے عہدوں پر تقرری ای او بی آئی اور بورڈ آف ٹرسٹیز کے مفادات کے ٹکراؤ(Conflict of interest) کے مترادف ہے۔ ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ ڈاکٹر جاوید شیخ کو بورڈ کے اجلاسوں کے انعقاد اور بورڈ کے منٹس(Minutes) تیار کرنے کا بھی کوئی تجربہ نہیں ہے۔

اس وقت بورڈ کے اجلاسوں کے منٹس غیر قانونی طور پردوسرے ڈپارٹمنٹ کے افسران تیا کرتے ہیں اور ڈاکٹر جاوید احمد شیخ صرف خانہ پری کے لئے ان پر اپنے دستخط کرتے ہیں،غیر متعلقہ افسران کی جانب سے بورڈ آف ٹرسٹیز کے منٹس تیار کئے جانے کے باعث بورڈ کے اجلاسوں میں کئے گئے فیصلوں میں رد وبدل اور ہیرا پھیری معمول بن گئے ہیں۔جس کے باعث ای او بی آئی میں تنازعات پر تنازعات کھڑے ہورہے ہیں۔

بتایا جاتا ہے ڈاکٹر جاوید احمد شیخ نے ای او بی آئی میں آنے کے بعد اثر ورسوخ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس وقت کے چیئرمین کی ملی بھگت سے اپنے آفس کیڈر کو بھی آپریشنز کیڈر میں بھی تبدیل کرالیا تھا، ای او بی آئی کے ملازمتی قوانین مجریہ1980کے مطابق صرف انتہائی استثنائی صورتوں میں کسی افسر کے کیڈر کو تبدیل کیا جاسکتا ہے اور کسی افسر کے کیڈر تبدیل کرنے کا مجاز ادارہ صرف ای او بی آئی کا بورڈ آف ٹرسٹیز ہے اور ای او بی آئی کے چیئرمین کو کسی افسر کے کیڈر تبدیل کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔

کیڈر تبدیل ہونے کی صورت میں وہ افسر سینیاریٹی لسٹ میں انتہائی جونیئر افسر شمار ہوکر سب سے نیچے آجاتا ہے۔ لیکن حیرت انگیز طور پر کیڈر تبدیل کرانے کے باوجودڈاکٹر جاوید احمد شیخ کی سینیاریٹی پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑا۔ڈاکٹر جاوید احمد شیخ کی ڈیپوٹیشن پر تعیناتی ای او بی آئی کے میڈیکل افسر کے طور پر کی گئی تھی۔بعد ازاں جنرل کیڈر کو آپریشنز کیڈ رمیں تبدیل کرالیا تھا۔

ڈاکٹر جاوید احمد شیخ کی براہ راست ماتحتی میں کراچی شہر میں قائم سات اور حیدر آباد، کوٹری،لاڑکانہ اور سکھر جبکہ بلوچستان میں حب (ضلع لسبیلہ)اور کوئٹہ کے ریجنل آفسز شامل ہیں۔ ای او بی آئی میں ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل آپریشنز کا عہدہ ایک انتہائی منفعت بخش اور طاقت ور عہدوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ خاص طور پر جب پچھلے دو برسوں کے دوران ای او بی آئی میں کسی مستقل ڈائریکٹر جنرل آپریشنز کی اسامی خالی ہونے کے باعث جونیئر افسر ڈاکٹر جاوید احمد شیخ کو لا محدود اختیارات حاصل ہیں۔

ذوالفقار علی:  ایمپلائی نمبر917704 موجودہ ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل آپریشنز اسلام آباد اور اس کا اصل محکمہNADLIN نئی روشنی اسکول اور اس کا عہدہ اسسٹنٹ ڈائریکٹر کا تھا اور یہ2مئی1992ء کو ڈیپوٹیشن پر ای او بی آئی میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر تعینات ہوا تھا۔ای او بی آئی کے افسر کی ملازمت کے لئے غیر متعلقہ ڈگری ایم اے ہسٹری کا حامل ذوالفقار علی بھی ڈائریکٹر جنرل کے عہدے کا خواب دیکھ رہا ہے۔


احمد ایوب:ایمپلائی نمبر917679 موجودہ ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل ایجوڈیکیٹنگ اتھارٹی اسلام آباد، اس کااصل محکمہNADLIN نئی روشنی اسکول تھا اور یہ17دسمبر1991ء کو ای او بی آئی میں ڈیپوٹیشن پر اسسٹنٹ ڈائریکٹر کی حیثیت سے تعینات ہوا تھا۔

نورالدین شیخ، ایمپلائی نمبر918014 سابق ڈپٹی ڈائریکٹر آپریشنز، اس اصل محکمہ کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ(KW&SB) تھا اور یہ 14نومبر1993ء کو ایگزیکٹیو افسر کی حیثیت سے ای او بی آئی میں تعینات ہوا تھا اور حال ہی میں ریجنل ہیڈ ویسٹ وہارف کے انتہائی منفعت بخش عہدے سے ریٹائر ہوا ہے۔اس کا ایک بھائی بدرالدین شیخ بھی ای او بی آئی میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر آپریشنز تعینات ہے۔

محمد علی خان:ایمپلائی نمبر918310 موجودہ اسسٹنٹ ڈائریکٹر IT ڈپارٹمنٹ ہیڈ آفس،اس کااصل محکمہ گورنمنٹ کمرشیل آڈٹ ڈپارٹمنٹ اور اس کا عہدہ سینئر آڈیٹرگریڈ 11 تھا اور یہ27اکتوبر1994ء کو پرسنل اسسٹنٹ کی حیثیت ڈیپوٹیشن پر ای او بی آئی میں تعینات ہوا تھا۔

نذہت اقبال:ایمپلائی نمبر918081 موجودہ ڈائریکٹر ایچ آر ڈپارٹمنٹ ہیڈ آفس کا اصل محکمہ سندھ اسمال انڈسٹریز کارپوریشن کراچی اور ان کاعہدہ ٹائپسٹ تھا۔11مئی1994 کو ای او بی آئی میں ڈیپوٹیشن پر ایگزیکٹیو افسر کی حیثیت سے تعینات ہوئیں۔ان کی تعیناتی کے بعدچیئرمین شیخ برکت اللہ کے آفس میں اسٹاف افسر تعینات ہوئیں، نزہت اقبال کے زیر استعمال 1800cc کی سرکاری گاڑی نمبرGP-8399 ہے، جو وزارت سمندر پار پاکستانی و ترقی انسانی وسائل، حکومت پاکستان کی ملکیت ہے۔ ترقی کے لئے ایک ماہ کے ٹریننگ کورس میں تمام پرچوں میں فیل ہوجانے کے باوجودنزہت اقبال کو اگلے عہدہ ڈپٹی ڈائریکٹر پر ترقی دینے میں ان کی بھرپور معاونت کی گئی تھی۔

بتایا جاتا ہے کہ نزہت اقبال ایم اے اردو کی ڈگری کی حامل اور کراچی کی مستقل باشندہ ہونے کے باوجود سندھ دیہی ضلع دادو کے ڈومیسائل پر ملازمت کر رہی ہے۔جبکہ ای او بی آئی کے افسران کے سب سے چھوٹے عہدے ایگزیکٹیو افسرکے لئے بھی کم از کم تعلیمی قابلیت ماسٹرز ان سوشل سائنسز مقرر ہے۔ جبکہ ان کی ایم اے اردو کی ڈگری ای او بی آئی کے ملازمتی قوانین کے تحت بالکل غیر متعلقہ ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ ایم اے اردو کی ڈگری کی حامل خاتون افسر کو ماضی میں ان کی نا اہلیت، غفلت اور لاپروائی کے باعث انتظامیہ کی جانب سے بارہا تنبیہی لیٹرز جاری ہوچکے ہیں۔ نزہت اقبال رواں برس اگست میں ریٹائر ہونے والی ہیں۔

صہیب علی بیگ: اسسٹنٹ ڈائریکٹر ایچ آر ڈپارٹمنٹ نے دفتری معاملات میں انتہائی سنگین غفلت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ادارہ میں 400غیر قانونی بھرتیوں میں ملوث اور نیب ریفرنس میں نامزد ایک اعلیٰ افسر کلیم پرویز بھٹہ، ڈائریکٹر جنرل آپریشنز پنجاب کو دوسری بار جبری ریٹائرمنٹ کے باوجود اسے ای او بی آئی کا حاضر سروس افسر ظاہر کرکے ایچ آر ڈپارٹمنٹ کی جانب سے سرٹیفیکیٹ جاری کرنے پر چیئرمین شکیل احمد منگنیجو نے انتہائی سخت نوٹس لیتے ہوئے ڈائریکٹر جنرل شازیہ رضوی کونذہت اقبال اور صہیب علی بیگ دونوں افسران کے خلاف سخت کارروائی کی ہدایت کی تھی۔

چیئرمین کی ہدایت پر محض خانہ پری کے لئے ان دونوں افسران کو سنگین غفلت کا مظاہرہ کرنے پر شوکاز نوٹس جاری کئے گئے۔لیکن بعد ازاں نزہت اقبال ڈائریکٹر اور صہیب علی بیگ، اسسٹنٹ ڈائریکٹر کو بچانے کی ہر ممکن کوششیں کی جارہی ہیں اور ان دونوں افسران کو بچانے کے لئے ایچ آر ڈپارٹمنٹ کے دوبے قصور اسٹاف ملازمین عبدالرزاق،سینئر اسسٹنٹ اور خورشید خٹک نائب قاصد کو اس کیس میں قربانی کا بکرا بنایا جارہا ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ مقررہ طریقہ کار کے مطابق ان دونوں Explanation letters کا نہ تو ایچ آر ڈپارٹمنٹ میں کوئی ریکارڈ موجود ہے اور نہ ہی اسے طریقہ کار کے مطابق ای او بی آئی کی ویب سائٹ پر موجود آفس آرڈرز میں اپ لوڈ کیا گیا ہے۔ اس واقعہ سے ای او بی آئی کے قانون شکن افسران کے بھاری اثرورسوخ کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔

نذیر احمد جونیجو، ایمپلائی نمبر917908، اسسٹنٹ ڈائریکٹر آپریشنز، اس کا اصل محکمہ، محکمہ تعلیم حکومت، سندھ کا اور عہدہ ہائی اسکول ٹیچر جو3نومبر1993ء ڈیپوٹیشن پربطور ایگزیکٹیو افسر تعینات ہوا تھا۔ (فیلڈ آپریشنز میں کروڑوں روپے کمانے اور قیمتی اثاثہ جات بنانے کے بعد حال ہی میں ریٹائر ہوا ہے)۔

اعجاز حسین لاشاری، ایمپلائی نمبر918263،اس کا اصل محکمہ سندھ کچی آبادی اتھارٹی اور عہدہ سپرنٹنڈنٹ ہے، جو28ستمبر1994 کو ای او بی آئی میں ڈیپوٹیشن پر ایگزیکٹیو افسر کی حیثیت سے تعینات ہوا تھا (فیلڈ آپریشنز میں کروڑوں روپے کمانے اور قیمتی اثاثہ جات بنانے کے بعد حال ہی میں ای او بی آئی سے ریٹائر ہوا ہے)۔

محمد عرس بہلیم: ایمپلائی نمبر918105،ا س کا اصل محکمہ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اور عہدہ اسسٹنٹ پروڈیوسر، 28مئی1994ء کوای او بی آئی میں ڈیپوٹیشن پر ایگزیکٹیو افسر کی حیثیت تعینات ہوا تھا(فیلڈ آپریشنز میں کروڑوں روپے کمانے اور قیمتی اثاثہ جات بنانے کے بعد حال ہی میں ای او بی آئی سے ریٹائر ہوا ہے)۔

بدالواحد رونجھا: ایمپلائی نمبر918354 موجودہ اسسٹنٹ ڈائریکٹر آپریشنز، اس وقت کے پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے وفاقی وزیر محنت و افرادی قوت غلام اکبر لاسی کی سفارش پر12دسمبر1994ء کو ای او بی آئی میں ڈیپوٹیشن پر ایگزیکٹیو افسر کی حیثیت سے تعینات ہوا تھا۔ اس کا ا صل محکمہ اورسیز پاکستانی فاؤنڈیشن اسلام آباداور اس کا عہدہ اسسٹنٹ ویلفیئر افسر تھا۔یہ اس وقت اسسٹنٹ ڈائریکٹر آپریشنز کے منفعت بخش عہدہ پر فائز ہے۔

خورشید سومرو: ایمپلائی نمبر 920901 حال ہی میں ریٹائر ہونے والا اسسٹنٹ ڈائریکٹر آپریشنز جو 18اپریل1998ء کو ای او بی آئی میں ڈیپوٹیشن پر ایگزیکٹیو افسر کی حیثیت سے تعینات ہوا تھا۔اس کا اصل محکمہ کمیونیکیشن ورکس ڈپارٹمنٹ حکومت سندھ اور اس کاعہدہ اسسٹنٹ کا تھا۔(فیلڈ آپریشنز میں کروڑوں روپے کمانے اور قیمتی اثاثہ جات بنانے کے بعد حال ہی میں ریٹائر ہوا ہے)

غلام یاسین: ایمپلائی نمبر919051 اس کااصل محکمہ پاکستان اسٹیل ملز اور اس کا عہدہ جونیئر افسر کا تھا اور یہ 19جولائی 1995ء کو ڈیپوٹیشن پر ای او بی آئی میں ایگزیکٹیو افسر تعینات ہوا تھا اور کچھ عرصہ قبل اسسٹنٹ ڈائریکٹر آپریشنز ملتان کے عہدہ سے ریٹائر ہوا ہے۔

عبدالمجید جاوید:ایمپلائی نمبر920978 اس کااصل محکمہPEPAC اور اس کا عہدہ اکاؤنٹنٹ کا تھا اور یہ13اگست1998ء کو ڈیپوٹیشن پر ای او بی آئی میں بطور ایگزیکٹیو افسر تعینات ہوا تھا۔اب بھی صوبہ پنجاب میں زیر ملازمت ہے۔

ضیاء الحق: ایمپلائی نمبر921700 اس کاصل محکمہ ادارہ سماجی تحفظ سندھ SESSI اور عہدہ جونیئر انجینئر تھا اور 5دسمبر1998ء کو ای او بی آئی میں ڈیپوٹیشن پر بطور ایگزیکٹیو افسر تعینات ہوا تھا اور کچھ عرصہ قبل اسسٹنٹ ڈائریکٹر کی حیثیت سے ریٹائر ہوکر بھاری پنشن اور پرکشش مراعات وصول کر رہا ہے۔

حفیظ احمد: ایمپلائی نمبر 922270 اس کااصل محکمہ ادارہ سماجی تحفظ سندھ(SESSI) اور عہدہ جونیئر انجینئر تھا اور یہ 30 اکتوبر2000ء کو ای او بی آئی میں ڈیپوٹیشن پر ایگزیکٹیو افسر کی حیثیت سے تعینات ہواتھا اور آج کل اسسٹنٹ ڈائریکٹر، جنرل ایڈمنسٹریشن ڈپارٹمنٹ خدمات انجام دے رہا ہے۔ ٰٓ

محمد رمضان:ایمپلائی نمبر918149 اس کا اصل محکمہ نیشنل ٹریفک کمیونیکیشن اور اس کا عہدہ اسٹینوٹائپسٹ تھا اور یہ9 اگست1995ء کو ای او بی آئی میں ڈیپوٹیشن پرپرائیویٹ سیکریٹری تعینات ہوا تھا اور آج کل اسسٹنٹ ڈائریکٹر آپریشنز کے منفعت بخش عہدے پر تعینات ہے۔

نجم الدین نظامانی: ایمپلائی نمبر917931 اس کااصل محکمہ وزارت محنت و افرادی قوت،اسلام آباد اور اس کا عہدہ اسٹینو ٹائپسٹ تھا اور یہ28اگست1993ء کو ای او بی آئی میں اسٹینو گرافر کی حیثیت سے تعینات ہوا تھا۔اب بھی ریجنل آفس کوٹری میں زیر ملازمت ہے۔

نثار احمد مغل: ایمپلائی نمبر917919 اس کا اصل محکمہ بیورو آف اسٹیٹسٹکس، حکومت سندھ اور اس کا عہدہ اسٹینو ٹائپسٹ تھااور یہ 27ستمبر1995ء کو ای او بی آئی میں ڈیپوٹیشن پر پی اے کی حیثیت سے تعینات ہوا تھا۔ نثار احمد مغل نے اپنا تبادلہ کراچی سے ای او بی آئی ریجنل آفس سکھر کرالیا تھا۔ نثار احمد مغل کی تعیناتی ریجنل آفس سکھر میں ہے لیکن وہ ای او بی آئی میں ڈیوٹی انجام دینے کے بجائے سابق وزیر محنت و افرادی قوت، قائد حزب اختلاف اور سکھر کی اہم ترین سیاسی شخصیت سید خورشید احمد شاہ کے پرائیویٹ سیکریٹری کی حیثیت سے ڈیوٹی کرتا ہے اور ان کے سیاسی جلسوں اور پروگراموں کے انتظامات بھی کرتا ہے اور اپنی تنخواہیں اور پرکشش مراعات، گاڑیاں معہ پٹرول اور ڈارئیور ای او بی آئی سے وصول کرتا ہے۔

2018ء کے عام انتخابات کے دوران پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنماء سید خورشید احمد شاہ کی بھرپور انداز میں انتخابی مہم چلانے،سرکاری ملازم کی حیثیت کے ناجائز استعمال اور اور ای او بی آئی کی سرکاری گاڑیوں کے استعمال کی شکایات پر کمشنر سکھر ڈویژن نے اسے گرفتار کرکے ای او بی آئی کو اس کی غیر قانونی سیاسی سرگرمیوں کے خلاف تحریری شکایت کی تھی۔جس پر ای او بی آئی کی انتظامیہ نے نثار احمد مغل کو فوری طور پر معطل کرکے اسے ہیڈ آفس بلالیا تھا۔

لیکن کچھ ہی عرصہ بعد معاملہ ٹھنڈا ہونے پر اس کی تعیناتی دوبارہ ریجنل آفس سکھر کردی گئی تھی اوراب نثار احمد مغل ایک بار پھرای او بی آئی ریجنل آفس سکھر کے بجائے پھر سید خورشید احمد شاہ کے ساتھ ڈیوٹی کر رہا ہے اور اس نے اپنی جگہ کام کرنے کے لئے پیپلز پارٹی کے ایک جیالے اورسیاسی بنیادوں پر بھرتی شدہ اور2014ء میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلہ کی زد سے بچ جانے والے ایک ناتجربہ کار اور انتہائی جونیئر پرائیویٹ سیکریٹری میاں فرمان علی اندھڑ کو جنرل ایڈمنسٹریشن ڈپارٹمنٹ، ہیڈ آفس کراچی سے تبادلہ کراکے اس کی تعیناتی بھی ریجنل آفس سکھر کرالی ہے۔

اظہار الحق: ایمپلائی نمبر921697 اس کااصل محکمہ وزارت محنت و افرادی قوت اسلام آباد اور اس کا عہدہ اسٹینو ٹائپسٹ تھا اور یہ 9 اکتوبر1998ء کو ای او بی آئی میں ڈیپوٹیشن پر پی اے تعینات ہوا تھا اور اب بھی صوبہ پنجاب میں زیر ملازمت ہے۔

غلام یسین بٹ: ایمپلائی نمبر917806 اس کا اصل محکمہ لیبر ڈویژن اسلام آباد اور اس کا عہدہ لوئر ڈویژن کلرک تھا اور یہ یکم اپریل 1992ء کو ای او بی آئی میں ڈیپوٹیشن پر پی اے تعینات ہوا تھا اور اب بھی صوبہ پنجاب میں زیر ملازمت ہے۔

محمد سلیم: ایمپلائی نمبر920945 اس کا اصل محکمہ لیبر ڈویژن، وزارت محنت و افرادی قوت اسلام آباد اور اس کا عہدہ لوئر ڈویژن کلرک تھا اوریہ 5 مئی1998 ء کو ای او بی آئی میں اسسٹنٹ کی حیثیت سے تعینات ہوا تھا۔اگرچہ میٹرک پاس محمد سلیم عرف سلیم پروٹوکول جنرل ایدمنسٹریشن ڈپارٹمنٹ ہیڈ آفس میں تعینات ہے۔ لیکن اس کی اصل ذمہ داری ای او بی آئی کے موجودہ اور سابق وزیروں،چیئرمین حضرات، اعلی افسران،بورڈ آف ٹرسٹیز کے ارکان اور ان کے عزیز و اقارب اور دوستوں کو دن رات کراچی ایئر پورٹ پر پروٹوکول دینا ہے۔ اسے سابق اور بدعنوان چیئرمین ظفر اقبال گوندل نے غیر قانونی طور پر ایگزیکٹیو افسر کے عہدہ پر ترقی دیدی تھی جو بعدمیں انتظامیہ نے منسوخ کردی تھی۔

جاوید اقبال:ایمپلائی نمبر920514 اس کا اصل محکمہ ایگریکلچر ڈپارٹمنٹ بہاولپور ہے، ان کا عہدہ اسسٹنٹ اور یہ دسمبر1995 کو ای او بی آئی میں ڈیپوٹیشن پر اسسٹنٹ تعینات ہوئے تھے۔

پرویز نظام الدین: ایمپلائی نمبر922258 اس کا اصل محکمہ پاکستان ریلویز اور عہدہ قلی(Porter) کا تھا۔ پرویز نظام الدین ای او بی آئی کے ایچ آر ڈپارٹمنٹ ہیڈ آفس کے طویل عرصہ تک کرتا دھرتا اور اعلیٰ افسران کی آشیرباد سے سلیکشن کے ذریعہ ترقیوں پر ترقیاں پانے والے ایک اعلیٰ افسرمعراج نظام الدین، سابق ڈپٹی دائریکٹر جنرل ایچ آر ڈپارٹمنٹ کا حقیقی بھائی ہے۔جسے 18 اپریل2000 کو پہلے ریجنل آف ویسٹ وہارف کراچی میں سائیکلو اسٹائل مشین آپریٹر کی حیثیت سے تعینات کرایا گیا اور پھرمعاملہ ٹھنڈا ہونے پر اسی ہیڈ آفس ٹرانسفر کرادیا گیا۔ پرویز نظام الدین کچھ عرصہ قبل از وقت ریٹائرمنٹ پر چلاگیا تھا۔لیکن حال ہی میں وہ دوبارہ اپنی ڈیوٹی پر آگیا ہے اور ڈائریکٹر جنرل شازیہ رضوی کے آفس میں روزنامچہ پر خدمات انجام دے رہا ہے۔ اس فہرست میں ای او بی آئی میں خلاف ضابطہ طور پر ڈیپوٹیشن پرآکر ضم ہوجانے والے چھوٹے عہدہ کے چند ملازمین بھی شامل ہیں۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ خلاف ضابطہ طور پر ڈیپوٹیشن پر آکر ای او بی آئی میں تعینات ہونے اور پھر غیرقانونی طور پرضم ہوجانے کے اس سنگین اسکینڈل میں ای او بی آئی کی پچھلی انتظامیہ کے ساتھ ساتھ ایچ آر ڈپارٹمنٹ کے چند اعلیٰ افسران خصوصا ایچ آر ڈپارٹمنٹ میں ایک طویل عرصہ تک راج کرنے والاسابق اعلیٰ افسر معراج نظام الدین، سابق ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل ایچ آر ڈپارٹمنٹ پوری طرح ملوث ہیں اور دلچسپ بات یہ ہے کہ ا ی او بی آئی میں آنے والے ہرنئے ڈائریکٹر جنرل ایچ آر ڈپارٹمنٹ اور چیئرمین حضرات کو اس معاملہ میں مکمل اندھیرے میں رکھا جاتا ہے۔

ای او بی آئی میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے احکامات کے برخلاف بھاری سفارشوں کے ذریعہ غیر قانونی طور پر ڈیپوٹیشن پر آکر تعینات ہونے والے، غیر قانونی طور سے ڈیپوٹیشن پر تعینات ہوجانے والے اور پھر غیر قانونی طور پر ای او بی آئی کی ملازمت میں ضم ہوجانے اورOPSافسران کی بھرمار کے باعث ای او بی آئی کے اصل اور سینئر اور تجربہ کا افسران اور ملازمین اپنی جائز ترقیوں کی دوڑ میں بہت پیچھے رہ گئے ہیں اور ان میں سے بیشتر افسران اور ملازمین اپنی جائز ترقیوں کا انتظار کرتے کرتے یا تو ملازمت سے ریٹائر ہوگئے ہیں یا اس دنیا سے ہی چلے گئے ہیں۔

مزید پڑھیں: ای او بی آئی کے سینکڑوں ریٹائرڈ ملازمین 4 برس سے پینشن میں اضافے سے محروم

اس اسکینڈ ل کے منظر عام پر آنے کے بعد معاملہ ایک بار پھر سپریم کورٹ لے جانے کی تیاری کی جارہی ہے جس کی وجہ سے ادارے کے متعلقہ افسران کو توہین عدالت کیس کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس حوالے سے سیکرٹری بورڈ آف ٹرسٹیز جاوید شیخ سے رابطہ کیا گیا جن کا کہنا تھا کہ فی الحال میں مصروف ہوں اور کل دفتری وقت میں بات کر سکوں گا جب کہ یہ ڈیپوٹیشن والا معاملہ تو پرانا ہے۔

Related Posts