چیف جسٹس نے سندھ میں سرکاری اراضی کی واپسی سے متعلق بی او آر کی رپورٹ مسترد کردی

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

کراچی:سپریم کورٹ نے سرکاری زمینوں کے ریکارڈ کی کمپیوٹرائزیشن سے متعلق کیس میں سینئر ممبر کی رپورٹ مسترد کرتے ہوئے قبضے ختم کرانے کا حکم دیدیا۔

عدالت نے سینئر ممبر کو عدالتی حکم پر مکمل عمل درآمد کرانے اور ایک ماہ میں جامع رپورٹ جمع کرانے کا حکم دیدیا،سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد نے بورڈ آف ریونیو کے سینئر ممبر پر اظہارِ برہمی کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے ساتھ کھیل مت کھیلوآدھے کراچی پر قبضہ ہے۔

سندھ کی آدھی سے زیادہ زمینوں پر قبضے ہیں، کونوں سے تصاویر لے کر آ گئے اور کہانیاں سنا رہے ہیں۔جمعرات کو سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں بینچ نے سرکاری زمینوں کے ریکارڈ کی کمپیوٹرائزیشن کے کیس کی سماعت کی۔

عدالت نے سینئر ممبر بورڈ آف ریونیو سے استفسار کیا کتنی سرکاری زمین واگزار کرائی؟ عدالت نے اطمینان بخش جواب نہ دینے پر سینئر ممبر کی سرزنش کردی۔ چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ ہمارے ساتھ کھیل مت کھیلو۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آدھے سے زیادہ سندھ کی سرکاری زمینیں قبضے میں وہ نظر نہیں آتی؟ کونے کونے کی تصویریں لگا کر ہمیں بے وقوف بنانے کی کوشش کرتے ہو؟ منشی ہو؟ بابو ہو؟ کلرک ہو؟ کیا ہو تم؟ سینئر ممبر بنو۔ کمیٹی کی کہانیاں ہمیں مت سناؤ، قبضہ ختم کراؤ جاکر۔

اینٹی انکروچمنٹ عدالتیں بھی کچھ نہیں کررہیں سکھر جیسے شہر میں ایک کیس ہے صرف۔ سینئر ممبر نے بتایا ہم کوشش کررہے ہیں ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ کررہے ہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ حیدرآباد میں کوہی تجاوزات نہیں؟

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ پورا حیدر آباد انکروچڈ ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس میں کہا کہ حیدرآباد، لاڑکانہ، سکھر اور بے نظیر آباد میں کوئی کیس نہیں۔ پورے کراچی پر قبضہ ہے اور صرف 9 کیسز ہیں۔

چیف جسٹس گلزار احمد برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ سب اچھا ہے سب اچھا ہے۔ اے جی صاحب یہ افسران کیا کررہے ہیں، صرف اپنے مفادات کا تحفظ کررہے ہیں۔ کس کی خدمت کررہے ہیں یہ لوگ؟

کون سے وہ سائے ہیں جس کیلئے کام کرتے ہیں یہ؟ کہیں اور جاتے ہیں فوری عمل درآمد ہوتا ہے، قبضہ کراتے ہیں بھتہ لیتے ہیں یہ لوگ،جو فیلڈ میں کام کرنے والے ہوتے ہیں وہ الگ ہوتے ہیں، سینئر ممبر کا تمغہ لگالیا ہے سینئر ممبر والا کام کرنا ہے یا نہیں؟

جسٹس قاضی امین نے ریمارکس میں کہا کہ آپ ریاست کے ملازم ہیں کسی کے ذاتی ملازم نہیں، آپ کمپلین کیوں نہیں بھیجتے؟ کیا مفادات ہیں آپ کے؟ آپ مافیا کے ساتھ ملے ہوے ہیں؟ ان کا تحفظ کررہے ہیں؟

چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ آدھا کراچی قبضہ ہوا ہے، ملیر چلے جائیں، گلستان جوہر، یونیورسٹی روڈ سب دیکھ لیں، یہ جو پندرہ اور بیس بیس منزلہ عمارتیں بن گئیں کیا قانونی ہیں؟

آپ کو نہیں نظر آتا سب غیر قانونی ہے، سب ریونیو کی ملی بھگت سے بنی ہیں سب جعلی کاغذات پر بنی ہیں، ملیر ندی اور کورنگی برج کے پاس دیکھیں، سینئر ممبر بورڈ آف ریوینیو نے بتایا کورنگی میں کارروائی شروع کررہے ہیں۔

مزید پڑھیں: اسلام آباد میں ای وی ایم کے ذریعے بلدیاتی انتخابات، صدر نے آرڈیننس جاری کردیا

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اب تو وہاں ریٹ بڑھ گئے ہوں گے آپ کے، اب تو کہیں گے سپریم کورٹ کا حکم ہے گرانے کا زیادہ ریٹ ہوں گے، آپ باہر نکلتے ہیں یا دفتر میں بیٹھ کر گدی گرم کرتے رہتے ہیں؟