ہر 26 سیکنڈ بعد زمین کے دھڑکنے کی وجوہات جو سائنسدان آج تک نہ جان سکے

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

ہر 26 سیکنڈ بعد زمین کے دھڑکنے کی وجوہات جو سائنسدان آج تک نہ جان سکے
ہر 26 سیکنڈ بعد زمین کے دھڑکنے کی وجوہات جو سائنسدان آج تک نہ جان سکے

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

ماہرینِ ارضیات کا کہنا ہے کہ زمین ہر 26 سیکنڈ بعد دھڑکتی ہے یعنی اس میں بے حد معمولی ارتعاش پیدا ہوتا ہے جسے صرف زلزلہ پیما آلات محسوس کرسکتے ہیں، انسانی جسم نہیں۔

گزشتہ صدی کو جدید سائنس کیلئے اہم سمجھا جاتا ہے اور اکیسویں صدی نے بھی سائنسی نظریات میں بعض انقلابی تبدیلیاں پیدا کیں، تاہم زمین کے معمولی ترین زلزلے یا ارتعاش کو آج تک سمجھا نہ جاسکا۔

سب سے پہلے یہ ارتعاش 1962ء میں منظرِ عام پر آیا جب ماہرِ ارضیات جیک اولیور نے بیان کیا کہ زلزلوں کا مرکز بحرِ اوقیانوس کے جنوب کی سمت موجود ہے، تاہم یہ زلزلے اس وقت شدید ہوتے ہیں جب زمین کے نصف کرۂ شمالی میں گرمی ہو۔

آگے چل کر 1980ء میں ماہرِ ارضیات گیری ہولکو نے اس معمولی ارتعاش کی تصدیق کی جن کا کہنا تھا کہ جب طوفان آتے ہیں تو یہ معمولی ارتعاش بھی معمول کے مقابلے میں زیادہ ہوجاتا ہے۔

کافی عرصے تک یہ بات جوں کی توں دفن رہی، پھر 2005ء میں ڈاکٹر مائیک رٹزوولر اور گریگ بینسن نے معلوم کیا کہ زلزلوں کے معمولی سے سگنلز ہر 26 سیکنڈ بعد آج بھی کہیں نہ کہیں سے ضرور آتے ہیں جن کا مرکز افریقہ کے مغربی سمندروں میں واقع گلف آف گنی ہے۔ 

پھر 2011ء اور 2013ء میں اس حوالے سے نئے مفروضے پیش کیے گئے۔ چین میں انسٹی ٹیوٹ آف جیوڈیسی اینڈ جیو فزکس کا کہنا تھا کہ زلزلوں کی وجہ ہائٹ آف یونی کے قریب ساؤ تومے کا ایک آتش فشاں ہے جو چھوٹے چھوٹے زلزلے پیدا کرتا ہے۔

تمام تر مفروضوں اور قیاس آرائیوں کے باوجود آج تک یہ سوال کوئی درست جواب حاصل نہ کرسکا کہ اگر آتش فشاں یا بعض ماہرین کے نزدیک سمندری لہروں کا ساحلوں سے ٹکرانا ہی ارتعاش یا زلزلوں کی بنیادی وجہ ہے تو یہ زلزلے ہر 26 سیکنڈ بعد ہی کیوں پیدا ہوتے ہیں۔

  یہ بھی پڑھیں: دُنیا کا تیز رفتار ترین انٹرنیٹ لانے کی تیاریاں، 6 جی سٹیلائٹ روانہ

Related Posts