محنت کشوں کے ادارے EOBI میں مستقل چیئرمین کا تقرر کھیل بن گیا؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

کراچی: ایمپلائز اولڈ ایج بینیفٹ انسٹیٹیوشن (ای او بی آئی)کے چیئرمین کے عہدے کے امیدواروں کی دوڑ میں ای او بی آئی کے 48 لاکھ روپے کے نادہندہ سابق چیئرمین اظہر حمید اور بدعنوان اور جبری برطرف شدہ اعلیٰ افسر کلیم پرویز بھٹہ بھی شامل ہیں، اظہر حمید کے سیٹ اپ کے اعلیٰ افسران کی جانب سے موجودہ دیانتدار چیئرمین کے خلاف پرپیگنڈا اور کردار کشی کی مہم شروع کردی گئی ہے،ادارے میں سنگین انتظامی بحران کے سبب 700 ملازمین اور ہزاروں بیمہ دار افراد کے لئے اپنی جائز پنشن کا حصول جوئے شیر لانے کے مترادف بن گیا ہے، بااثر اور سفارشی ریجنل ہیڈز اور بیٹ افسران نے بھی مشاورت شروع کر دی ہے۔

وفاقی وزارت سمندر پار پاکستانی و ترقی انسانی وسائل، حکومت پاکستان کے ماتحت محکمہ محنت کشوں کی پنشن کے قومی ادارے ای او بی ایکٹ 1976ء کے مطابق وفاقی حکومت بوقت ضرورت کسی اعلیٰ افسر کو ضروری تجربہ اور صلاحیتوں کی بنیاد پر تین برس کے لئے ای او بی آئی کے چیئرمین کی حیثیت سے تقرری کرتی ہے۔ اس سلسلہ میں حال ہی میں وفاقی وزارت سمندر پاکستانی و ترقی انسانی وسائل حکومت پاکستان کے ایک افسر عاصم رشید، سیکشن افسر (EOBI)کی جانب سے 19 دسمبر 2021 کو اخبارات میں چیئرمین ای او بی آئی کی اسامی کے لئے ایک اشتہار شائع کرایا گیا تھا۔

اس اشتہار میں ای او بی آئی کے چیئرمین کے عہدے پر تین برس کی تقرری کے لئے فنانس ڈویژن کی جانب سے منظور شدہ مینجمنٹ پوزیشن اسکیل(MP-I) کے تحت تنخواہوں اور مراعات کے ساتھ ایچ ای سی سے منظور شدہ یونیورسٹی سے اکنامکس/فنانس یا فنانشل مینجمنٹ/ اکاؤنٹنگ/ پبلک ایڈمنسٹریشن/ بزنس ایڈمنسٹریشن/ لاء اینڈ لیجسلیچر کے مضامین میں پی ایچ ڈی اور 14 برس کے تجربہ کے حامل یا ماسٹران اکنامکس/ فنانس یا فنانشل مینجمنٹ/ اکاؤنٹنگ/ پبلک ایڈمنسٹریشن /بزنس ایدمنسٹریشن/ لاء ایند لیجسلیچر اور 18 برس کے تجربہ کے حامل اور 62 برس کی عمر کے امیدواروں سے اشتہار کی اشاعت کے 15روز کے اندر درخواستیں طلب کی گئی تھیں۔

ای او بی آئی کا آئندہ چیئرمین کون ہو گا؟

چیئرمین ای او بی آئی کی اسامی کے اس اشتہار کے جواب میں کل 12 امیدواروں نے کاغذات جمع کرائے،جن میں ریحان سعید خان، حفیظ اللہ شیخ، محمد آصف، اظہر حمید، محمد اسد، حماد علی منصور، محمد شاہد اشرف، ڈاکٹر غلام محمد چوہدری، یوسف ہارون، کلیم پرویز بھٹہ، (پی ایس ایف ملتان کا لیڈر، پیپلز پارٹی کے پہلے دور حکومت میں خلاف ضابطہ طور پر براہ راست ڈپٹی ڈائریکٹر کے عہدہ پر بھرتی شدہ، بعد ازاں ای او بی آئی کی ملازمت سے جبری برطرف شدہ انتہائی بدعنوان اعلیٰ افسر اور 2010-2-13 کے دوران ای او بی آئی میں سیاسی بنیادوں پر 400 خلاف قانون بھرتیوں کے الزام میں نیب ریفرنس میں نامزد شدہ)، شاہ سہیل مسعود اور بریگیڈیئر (ر) زاہد نواز مان نے درخواستیں جمع کرائی تھیں۔

جن میں سے وزارت سمندر پار پاکستانی و ترقی انسانی وسائل، اسلام آبادکی اسکروٹنی کمیٹی کی جانب سے ان جملہ امیدواروں کے انٹرویو کے بعد حیرت انگیز طور پر سابق اور بدعنوان چیئرمین اور 18 فروری2021 کو اپنی ریٹائرمنٹ کے دن ای او بی آئی کے غریب محنت کشوں کے پنشن فنڈ سے ڈیفنس اتھارٹی کنٹری اینڈ گولف کلب کراچی کی رکنیت فیس کے لئے 23 لاکھ روپے اور رخصت قبل از ریٹائرمنٹ (LPR) کے 23 لاکھ روپے اور اجلاسوں کی فیس2، لاکھ روپے (کل رقم 48 لاکھ روپے) کے نادہندہ اظہر حمید سمیت 9 امیدواروں کو بھی چیئرمین ای او بی آئی کے عہدے کے لئے اہل قرار دیدیا گیا ہے۔

عاصم رشید کون ہے؟

عاصم رشید اصل میں ای او بی آئی کے فنانس کیڈر کا ملازم ہے جو 2007ء میں ایک بھاری سفارش پر ڈپٹی ڈائریکٹر بھرتی ہوا تھا اور اس کا اصل مقام تقرری فنانس ڈپارٹمنٹ صدر دفتر کراچی میں ہے۔ لیکن ٹیکسلا سے تعلق رکھنے والا عاصم رشید، ٹیکسلا سے تعلق رکھنے والے پی ٹی آئی کے وزیر برائے ہوا بازی غلام سرور خان کی بھاری سفارش پر کافی عرصہ سے غیر قانونی طور پر وزارت کے اسلام آباد دفتر میں سیکشن افسر EOBI اورسیکشن افسر ILO کی حیثیت سے تعینات ہے۔لیکن اپنی بھاری تنخواہ اور پرکشش مراعات، بھاری میڈیکل، قرضہ جات اور گاڑیاں ای او بی آئی سے وصول کر رہا ہے۔ایک جانب ای او بی آئی میں افسران اور ملازمین کا کال پڑا ہوا ہے دوسری جانب ای او بی آئی کے بعض اعلیٰ افسران اپنے بھاری اثر ورسوخ کی بناء پر دیگر اداروں میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔

ای بی آئی فنڈ سے گالف کلب کی فیسیں کس کس نے لی ہیں؟

بتایا جاتا ہے کہ ای او بی آئی کے سابق چیئرمین اظہر حمید ریٹائرمنٹ کے روز اپنی گولف کی مہنگی ترین تفریحی سرگرمیوں اور دیگر مد میں 48 لاکھ روپے وصول کرنے کے خلاف قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے سمندر پار پاکستانی وترقی انسانی وسائل نے اپنے 9 اپریل 2021 کو اسلام آباد میں منعقدہ اجلاس میں سختی سے نوٹس لیتے ہوئے انتظامیہ کو فوری طور پر اظہر حمید سے رقم کی واپس وصولی کی ہدایت کی تھی۔

قائمہ کمیٹی کی ہدایات کی روشنی میں وفاقی سیکریٹری اور ای او بی آئی کے بورڈ آف ٹرسٹیز کے صدر عشرت علی نے 30 جولائی2021 کو بورڈ کا فوری اجلاس طلب کرکے نہ صرف سابق چیئرمین اظہر حمید بلکہ پچھلے دس برسوں کے دوران ای او بی آئی کے چیئرمین کے عہدے پر تعینات رہنے والے اعلیٰ افسران ظفر اقبال گوندل سے ای او بی آئی پنشن فنڈ سے تفریحی کلبوں کی رکنیت فیس کی مد میں 6،لاکھ روپے اورخاقان مرتضیٰ سے 50 ہزار روپے کی وصولی کا فیصلہ کیا تھا۔جس پر خاقان مرتضیٰ نے بورڈ کے فیصلے کے بعد فوری طور پر اپنے ذمہ واجب الادا رقم ای او بی آئی کوواپس کردی تھی۔

جبکہ انتہائی بدعنوان اور 34 ارب روپے کے ای او بی آئی میگا لینڈ اسکینڈل کے سرغنہ اور مرکزی ملزم ظفر اقبال گوندل نے نا صرف اپنے ذمہ واجب الادا رقم 6 لاکھ روپے اور اور اظہر حمیدنے بھی ای او بی آئی کے نام اپنے خط 8 اکتوبر 2021 ء میں اپنے ذمہ واجب الادا رقم 48 لاکھ روپے واپس کرنے سے انکار کردیا ہے بلکہ انتہائی ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ای او بی آئی کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کی دھمکی بھی دیدی ہے۔ جس کے بعد ای او بی آئی کی انتظامیہ نے ملک کے غریب محنت کشوں کے پنشن فنڈ سے گولف کلب کی فیس کی مد میں 48 لاکھ روپے ہڑپ کرنے والے سابق چیئرمین اظہر حمید کے معاملے پر پراسرا رخاموشی اختیار کر لی ہے۔

احساس پروگرام سے ای او بی آئی کے کس ملازم نے پیسے لئے؟

ای او بی آئی کی خلاف قانون ڈیپوٹیشن پر تعینات خاتون افسر شازیہ رضوی، ڈائریکٹر جنرل ایچ آر ڈپارٹمنٹ کے دوہرے نظام کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ کورونا کی وباکے دوران 2020ء کے انتہائی سخت لاک ڈاؤن کے دوران وفاقی حکومت کی جانب سے ٹی وی پراحساس پروگرام کی مسلسل اشتہاری مہم سے غلط فہمی کا شکار ہو کر 12,000 روپے کی امداد حاصل کرنے والے ای او بی آئی کے 29 چھوٹے ملازمین کو شوکاز جاری کر کے ان سے نہ صرف پوری رقم 12,000 روپے وصول کر لئے گئے بلکہ ستم بالائے ستم شازیہ رضوی ڈائریکٹر جنرل ایچ آر ڈپارٹمنٹ کے حکم پر سزا کے طور پر ان ادنیٰ ملازمین کے دو سالانہ انکریمنٹ بھی روک لئے گئے۔

اظہر حمید اس سے قبل بھی ادارے سے اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد کنٹریکٹ پر مزید 3 برس تعینات رہنے کے لئے 2 دسمبر 2020 کو وزیر اعظم کے معاون خصوصی زلفی بخاری کی آشیر باد سے اور وفاقی سیکریٹری ڈاکٹر محمد ہاشم پوپلزئی کی ملی بھگت سے ان کی صدارت میں ادارے کے بورڈ آف ٹرسٹیز کا ایک ہنگامی اجلاس بلوا کر اس اجلاس کے ذریعہ نہ صرف چیئرمین کی حیثیت سے اپنی مزید تین برس کے لئے تقرری کی منظوری حاصل کرلی تھی بلکہ اپنی خودساختہ غیر معمولی خدمات اور کارکردگی گنوا کر اپنے لئے حکومت پاکستان کے سول ایوارڈ کی نامزدگی کی سفارش بھی کرانے میں کامیاب ہوگئے تھے۔

تاہم زلفی بخاری کے راولپنڈی رنگ روڈ کرپشن اسکینڈل میں ملوث ہونے کے باعث مستعفی ہوجانے اور وفاقی سیکریٹری اور بورڈ آف ٹرسٹیز کے صدر ڈاکٹر محمد ہاشم پوپلزئی کی ریٹائرمنٹ کے بعد وزارت کے نئے اور موجودہ سیکریٹری اور ای او بی آئی کے بورڈ آف ٹرسٹیز کے صدر عشرت علی نے اظہر حمید کی جانب ای او بی آئی میں کنٹریکٹ پر تین سالہ تعیناتی کے منصوبہ کو مسترد کر دیا تھا۔

زلفی بخاری کو غلط معلومات کیوں دی گئیں؟

چیئرمین اظہر حمید پر یہ بھی سنگین الزام ہے کے پی ٹی آئی حکومت کے لئے ای او بی آئی کے پنشنروں کی ہمدردیاں حاصل کرنے کی غرض سے ای او بی ایکٹ 1976ء کے مطابق ادارے کے جملہ اثاثہ جات اور پنشن فنڈ کی معروف اور اچھی شہرت کے حامل ایکچورئیل اداروں سے ایکچورئیل ویلویشن کرائے بغیر ہی غیر قانونی طور پر پنشن میں اضافہ کا اعلان کرادیا تھا۔ لیکن وفاقی کابینہ کے اجلاس میں وزیر قانون بیرسٹر فروغ نسیم کی جانب سے ایکچورئیل ویلویشن کے بغیر پنشن میں اضافہ پر اعتراض اٹھانے پروفاقی کابینہ نے اس اضافہ پرعملدرآمد روک دیا تھا۔

بعد ازاں معاون خصوصی زلفی بخاری اور اظہر حمید سر جوڑ کر بیٹھے اور وفاقی حکومت کو اس زبردست سبکی سے بچانے کے لئے کراچی کی ایک غیر معروف ایکچورئیل کمپنی میسرز سر کنسلٹنٹس (پرائیویٹ) لمیٹڈ کو 20 لاکھ روپے کی ادائیگی کرکے ای او بی آئی کے اثاثہ جات اور پنشن فنڈ کے فرضی اعداد و شمار فراہم کرکے ان سے من مانی ایکچورئیل ویلویشن رپورٹ تیار کرائی تھی جس کی بنیاد پر پنشن مین اضافہ کیا گیا تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ اظہر حمید کی ریٹائرمنٹ کے بعد اعلیٰ سطح پر اس مشکوک ایکچورئیل ویلویشن رپورٹ پر انکوائری جاری ہے۔

مزید پڑھیں: ای او بی آئی کے سینکڑوں ریٹائرڈ ملازمین 4 برس سے پینشن میں اضافے سے محروم

ماہرین شعبہ محنت کا کہنا ہے کہ ای او بی آئی کے 48 لاکھ روپے کے نادہندہ اور سابق چیئرمین اظہر حمید کا نئے چیئرمین کی تقرری کے عہدے کی دوڑ میں شریک ہونا لمحہ فکریہ ہے۔ وفاقی حکومت کو ای او بی آئی کے معاملات پر سنجیدگی سے توجہ دینے کے لئے خواب غفلت سے بیدار ہونا پڑے گا۔ ملک کے لاکھوں محنت کشوں اور ان کے لواحقین کے محفوظ مستقبل کی ضمانت فراہم کرنے اور ای او بی آئی کو کامیابی سے چلانے کے لئے پنشن فنڈز کے ماہر، تجربہ کار اور دیانتدار سینئر افسر کو چیئرمین کے منصب پر فائز کرنے کی ضرورت ہے۔ بصورت دیگر ای او بی آئی تیزی سے تنزلی کا شکار ہوجائے گا۔ خاکم بدہن اس مخدوش صورت حال کے باعث ای او بی آئی کے دیوالیہ ہوجانے یا پنشن فنڈ کی تباہی کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے۔ اس صورت میں زبردست نقصان کا سراسر خمیازہ بھگتا پڑے گا۔