عالمی بینک نے کہا ہے کہ فلسطینی علاقوں میں اسرائیل کی پابندیاں اور بڑھتی ہوئی مالی رکاوٹیں فلسطینیوں کے معاشی حالات کو شدت سے متاثر کر رہی ہیں اور بر وقت زندگی بچانے والی صحت کی نگہداشت تک ان کی رسائی میں رکاوٹ بن رہی ہیں۔
“وقت کا مقابلہ” کے عنوان سے جاری ایک رپورٹ میں عالمی بینک نے کہا کہ مجموعی طور پر فلسطینی معیشت صلاحیت سے کم کارکردگی کا مظاہرہ کر رہی ہے جس کی فی کس آمدنی میں جمود کا امکان ہے۔
یہ بھی پڑھیں:
شہری کی فریاد پر ڈاکوؤں کا دل پگھل گیا، موبائل واپس کرکے چلتے بنے
واشنگٹن میں قائم عالمی قرض دہندہ نے کہا کہ فلسطینی علاقوں میں غربت بڑھ رہی ہے اور ہر چار میں سے ایک فلسطینی خطِ غربت سے نیچے زندگی گذار رہا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے مقبوضہ مغربی کنارے میں نقل و حرکت اور تجارت پر پابندیاں، غزہ کی پٹی پر مسلط کردہ ناکہ بندی اور دونوں فلسطینی علاقوں کے درمیان تقسیم سمیت کئی عوامل نے فلسطینی معیشت کو انتہائی خطرے میں ڈال دیا ہے۔
مغربی کنارے اور غزہ کے لیے عالمی بینک کے ڈائریکٹر اسٹیفن ایمبلڈ نے رپورٹ کے ساتھ جاری ایک بیان میں کہا، “مالی رکاوٹیں فلسطینی صحت کے نظام اور خاص طور پر غیر متعدی بیماریوں کے بڑھتے ہوئے بوجھ سے نمٹنے کی صلاحیت پر بہت بڑا دباؤ ہیں۔”
انہوں نے کہا کہ پابندیاں بشمول “پرمٹوں کا ایک طویل نوکر شاہی سلسلہ” اکثر فلسطینیوں کے لیے بروقت زندگی بچانے والی صحت کی نگہداشت کی فراہمی کو مشکل بنا دیتا ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ ظاہری اور انتظامی رکاوٹوں کی وجہ سے کینسر، امراضِ قلب اور زچگی اور بچے کی پیدائش سے متعلقہ علاج کے لیے بیرونی طبی حوالوں تک رسائی نمایاں طور پر متأثر ہوتی ہے۔
اس میں کہا گیا، “غزہ میں صورتحال خاص طور پر نازک ہے جہاں صحت کے نظام کی صلاحیت زیادہ محدود ہے اور وہاں مریضوں کو بروقت میڈیکل ایگزٹ پرمٹ کی درخواستیں حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔”
“تحقیق کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ غزہ کی قریبی ناکہ بندی نے شرح اموات میں اضافہ کیا ہے کیونکہ کچھ مریض اجازت نامے کے طویل عمل کی تاب نہیں لا سکتے اور فوت ہو جاتے ہیں۔”
مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی سے ہر سال ہزاروں فلسطینی طبی علاج کے لیے اسرائیل جاتے ہیں جو غریب فلسطینی علاقوں میں دستیاب میں نہیں۔
اسرائیل 1967 کی چھ روزہ جنگ کے بعد سے مغربی کنارے – جو اب تقریباً 30 لاکھ فلسطینیوں کا گھر ہے – پر قابض ہے جب اس نے غزہ کی پٹی پر بھی قبضہ کر لیا تھا۔
فلسطینی علاقوں میں شہری امور کی نگرانی کرنے والی اسرائیلی وزارتِ دفاع باڈی سی او جی اے ٹی کے مطابق گذشتہ سال اسرائیل نے مغربی کنارے کے رہائشیوں کے لیے 110,000 سے زیادہ طبی دوروں کے لیے داخلے کے اجازت نامے جاری کیے تھے۔
اسی عرصے کے دوران غزہ جہاں 2.3 ملین لوگ رہتے ہیں، سے تعلق رکھنے والے فلسطینیوں کو 17,000 سے زیادہ ایسے پرمٹ جاری کیے گئے۔
2007 میں اسلامی تحریک حماس کے اقتدار میں آنے کے بعد سے اسرائیل کی مسلط کردہ ناکہ بندی نے بھی انکلیو کو طبی سامان کی فراہمی میں رکاوٹ پیدا کی ہے۔
عالمی بینک نے اسرائیلی اور فلسطینی حکام پر زور دیا کہ وہ ایسے طبی معاملات کو بہتر طریقے سے سنبھالیں اور مریضوں اور ان کے ساتھیوں کو بروقت طبی امداد فراہم کرنے کے لیے اجازت نامے کے عمل کو آسان بنائیں۔
ایمبلڈ نے کہا کہ مجموعی طور پر فلسطینی معیشت گذشتہ پانچ سالوں سے جمود کا شکار ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جب تک زمینی پالیسیاں تبدیل نہیں ہوتیں اس میں بہتری کی توقع نہیں۔
عالمی بینک نے کہا، “آبادی میں اضافے کے رجحانات کے پیشِ نظر فی کس آمدنی میں جمود کا امکان ہے۔”