حیدرآباد میں پولیس کی مبینہ سرپرستی میں فحاشی کا دھندہ عروج پر پہنچ گیا

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

حیدرآباد میں پولیس کی مبینہ سرپرستی میں فحاشی کا دھندہ عروج پر پہنچ گیا
حیدرآباد میں پولیس کی مبینہ سرپرستی میں فحاشی کا دھندہ عروج پر پہنچ گیا

حیدر آباد: مختلف علاقوں میں پولیس سرپرستی میں فحاشی کا کاروبار عروج پر پہنچ گیا، مکروہ دھندے میں ملوث بااثر افرادکی جانب سے پنجاب اور دوسرے علاقوں سے نوجوان لڑکیوں کو نوکریوں کا جھانسہ دے کر جسم فروشی کے دھندے پر لگانے کا انکشاف ہوا ہے۔

عدالتی احکامات پر بازیابی کی کارروائی کے بعد لائی گئی خواتین نے سارے راز افشاں کردیے۔ذرائع سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق حیدرآباد کے مختلف علاقے قاسم آباد،نسیم نگر،بھٹائی نگر،آٹو بھان روڈ،حسین آباد،اسٹیشن روڈ،پھلیلی،سائیٹ،بلدیہ، اوردیگر علاقوں میں منظم طریقے سے فحاشی کے اڈے قائم کر رکھے ہیں۔

علاقہ پولیس مبینہ فحاشی کے اڈوں سے ماہوار لاکھوں روپے بھتہ وصول کرنے میں مصروف ہے، جبکہ علاقہ مکینوں کے شکایت کے باوجود حیدرآباد پولیس انتظامیہ اس گھناؤنے کاروبار کے خلاف کارروائی کرنے سے قاصر ہے۔

ذرائع کے مطابق حیدرآباد میں پچیس 25 کے قریب منظم گروہ پنجاب اور دوسرے صوبوں کے غریب علاقوں سے والدین کو نوکریوں کا لالچ دے کر کم عمر لڑکیوں کو جسم فروشی کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔

منظم گروہ پوش علاقوں میں کرائے پر بنگلے لے کر لڑکیوں کوفحاشی کے مکرہ دھندے میں لگا دیتا ہے، جہاں سے حیدرآباد کے مختلف علاقوں کے گیسٹ ہاؤسز ہوٹلوں اور مختلف جگہوں پر فحاشی کے لئے بھیجا جاتا ہے۔

ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ آٹوبھان روڈ پر موجود گیسٹ ہاؤسز،حیدر چوک کی ہوٹلیں اور اسٹیشن روڈ کی ہوٹلوں سمیت مختلف علاقوں میں عیاش لوگوں کی جانب سے ان کے بنگلے اس فحاشی کے اڈوں کے طور پر استعمال ہورہے ہیں جس کا ثبوت چار دن پہلے بھٹائی نگر کے علاقے سے برآمد ہونے والی چار لڑکیاں ہیں۔

جن کو قاسم آباد کی ایک بااثر آنٹی صبا  بیوٹی پارلر پر کام دلانے کا جھانسا دے کر ان سے فحاشی کا کاروبارکراتھی۔ جس پر حیدرآباد کے انسان دوست وکلاء میر ریاض، سہیل احمد باغرانی، سند س سومرو کی جانب سے عدالت میں اپیل داخل کی گئی، جس پر لڑکیوں کو بازیاب کرایا گیا اور ان لڑکیوں نے تمام صورتحال سے پردہ ہٹا دیا۔

ان لڑکیوں نے بتایا کہ انہیں پنجاب سے بیوٹی پارلر پر کام دلانے کا جھانسا دے کر حیدرآباد لایا گیا۔ انہیں سخت تشدد کا نشانہ بنایا جاتا تھا جس کا ثبوت برآمد ہونے والی لڑکیوں کے گردن بازو اور ٹانگوں پر کئے تشدد کے نشانات تھے۔اس تمام صورتحال پر حیدرآباد کے سیاسی اور سماجی حلقوں نے وزیر اعلیٰ سندھ اور اعلیٰ پولیس حکام سے سخت کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔

Related Posts