آج اسرائیل نے ایران کے مختلف علاقوں کو ہدف بنایا تاہم جس انداز میں اسرائیلی وزیراعظم اور ان کے سکیورٹی منسٹر خطرناک حملے کی دھمکیاں دیتے رہے، اس لحاظ سے اسرائیلی کارروائی کا اثر محدود نظر آتا ہے کیونکہ یہ حملے اہم تنصیبات جیسے کہ تیل کی پیداوار کے مراکز یا جوہری تنصیبات پر نہیں کیے گئے۔ اس سے آپریشن کی مؤثریت اور علاقائی استحکام پر وسیع اثرات کے بارے میں سوالات جنم لیتے ہیں۔
اس حملے کا ایک قابل ذکر پہلو امریکا کی اسرائیل پر اثر انداز ہوتے ہوئے محتاط کردار کی تلقین ہے جس کی اطلاع ایران کو بھی دے دی گئی تھی۔ اطلاعات کے مطابق امریکی عہدیداروں نے اسرائیل کو اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ ایسی حد تک نہ بڑھے جس سے ایران کے لیے شدید جوابی کارروائی اس کی مجبوری بن جائے۔ یہ معاملہ علاقے میں طاقت کے توازن اور سفارت کاری کی باریکیوں کو اجاگر کرتا ہے، جہاں امریکی مفادات کو مزید تنازعےسے بچانے کی کوشش ہے۔
رپورٹس کے مطابق اس آپریشن میں تقریباً 100 اسرائیلی طیارے شامل تھے، جن میں ری فیولنگ اور حفاظتی طیارے بھی شامل تھے، اور انھوں نے ایران کے تقریباً 20 مقامات کو نشانہ بنایا۔ اس پیچیدہ مشن کو انجام دینے کے لیے طیاروں نے سیکڑوں کلومیٹر کا سفر طے کیا، اردن اور دیگر عرب ممالک کی فضائی حدود عبور کرتے ہوئے۔ ایک اسٹریٹیجک حکمت عملی کے تحت اسرائیلی طیاروں نے حملے کا آغاز عراقی فضائی حدود سے کیا، جس نے ایران کے فضائی دفاعی نظام کو نظر انداز کرنے میں مدد دی جبکہ ایران کا فضائی دفاع کا نظام اسرائیلی طیاروں کو نقصان پہنچا سکتا تھا۔
اسرائیلی قیادت کی طرف سے جارحانہ رویے کے باوجود جس میں وزیر دفاع اور وزیر اعظم کے بیانات بھی شامل ہیں، حملے سے کوئی بڑا نقصان نہیں ہوا۔ زیادہ تر میزائل ایران کے روسی ساختہ دفاعی نظام کے ذریعے روک لیے گئے، جس سے ایران کی طاقت اور حوصلے میں اضافہ ہوا۔ یہ نتیجہ نہ صرف ایران کے عزم کو مضبوط کرتا نظر آرہا ہے اور اسرائیل سمیت دنیا کو پیغام دیتا ہے کہ وہ خطے میں حزب اللہ جیسی اتحادی قوتوں کو بھی مضبوط بنا سکتا ہے، جو لبنان میں زیر زمین دفاعی نیٹ ورک میں گہرائی سے جڑی ہوئی ہیں۔
مزید برآں ایران اپنے وقت کے مطابق جوابی کارروائی کے لیے تیار دکھائی دیتا ہے، جو تناؤ کو مزید بڑھا سکتا ہے۔ حالیہ حملہ ایران کی عسکری صلاحیتوں اور اسرائیلی اقدامات کا مقابلہ کرنے کے عزم کو ظاہر کرتا ہے، اور دنیا کو یہ پیغام دیتا ہے کہ ایران بیرونی جارحیت کا مقابلہ کرسکتا ہے۔
اس تنازعے کے اثرات نہ صرف علاقائی خطوں پر پڑنا ایک قدرتی امر ہے۔ سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک، جنہیں ماضی میں اسرائیلی فوجی کارروائیوں کا سامنا رہا ہے، اپنے اتحاد کا دوبارہ جائزہ لے سکتے ہیں۔ اگر یہ ممالک طاقت کے توازن میں تبدیلی ہوتی دیکھیں گے تو وہ امریکا اور اسرائیل سے ہٹ کر روس، چین اور ایران کے قریب ہوسکتے ہیں۔
یہاں اس بات کا تذکرہ بھی ضروری ہے کہ ایران پر فضائی حملے کے بعد سعودی عرب ، متحدہ عرب امارات ، عمان، اردن سب نے مل کر اسرائیلی حملے کی مذمت کی ہے۔ غور و فکر کا مقام یہ ہے کہ صیہونیت کے سخت گیر اکابرین اور جنرلز کوئی سنگین اقدام نہ اٹھالیں۔ یہ بات بھی دنیا جانتی ہے کہ نیتن یاہو ہمیشہ ایران اور دیگر مزاحمتی گروہوں کو اسرائیل کی بقاء کو لاحق خطرہ سمجھتے رہے ہیں جیسا کہ ان کے وزیر دفاع پہلے دھمکی دے چکے ہیں کہ کہیں اسرائیل اس سے زیادہ خطرناک قدم اٹھانے کیلئے تیار نہ ہوجائے اور سکیورٹی کے وزیر سمیت دیگر وزراء کی ماضی کی دھمکیوں کے مطابق اسرائیل جوہری ہتھیار کا استعمال نہ کر بیٹھے۔
ایسی صورت میں چین اور روس بھی پیچھے نہیں رہ سکتے۔ جیسا کہ بتایا جارہا ہے کہ اس مقام پر یا تو پہنچنے والا ہے یا پھر چند رپورٹس کے مطابق پہلے ہی خاموشی سے جوہری قوت بن چکا ہے۔ اگرایسا ہے تو ایران بھی ایسی قوت کو استعمال کرسکتا ہے جس سے دنیا میں ایک نیا بھونچال اور خطے میں تباہی پھیل سکتی ہے۔
اسرائیل میں عوامی سطح پر ممکنہ بےچینی پیدا ہو سکتی ہے کہ ان کی فوجی کارروائیوں کے اثر میں کمی واقع ہو رہی ہے۔ حکومت کو اپنی حکمت عملی کی ناکامی پر تنقید کا سامنا ہو سکتا ہے، اور عوام اپنی عسکری حکمت عملی پر دوبارہ غور و فکر کا مطالبہ کر سکتے ہیں۔
یہ صورتحال نہ صرف غزہ اور لبنان میں جاری تنازعات کے تناظر کو تبدیل کر سکتی ہے بلکہ 4 نومبر کو ہونے والے امریکی انتخابات پر بھی ممکنہ اثرات ڈال سکتی ہے، کیونکہ جوبائیڈن انتظامیہ علاقائی عدم استحکام اور امریکی خارجہ پالیسی پر اس کے مضمرات سے مزید منفی پیشرفت ہوسکتی ہے۔
پاکستان کو بھی صورتحال کی تہ در تہ پیچیدگیوں کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے اپنے پیشگی اقدامات کیلئے تیار رہنا چاہئے کیونکہ پاکستان جیسا ملک علاقے میں کسی بڑے بھونچال کا متحمل اور اس کے ناگفتہ بہ اثرات کا متحمل نہپیں ہوسکتا۔
آخر میں یہ کہنا بھی ضروری دکھائی دیتا ہے کہ آج کے اسرائیلی حملے سے فوجی اثر رسوخ، علاقائی اتحاد اور جیوپولیٹیکل منظرنامے کے حوالے سے اہم سوالات جنم لیتے ہیں۔ جیسے جیسے تناؤ بڑھتا ہے، دنیا قریب سے دیکھتی اور دونوں ممالک کے آئندہ اقدامات کی منتظر نظر آتی ہے، جو اس پیچیدہ اور اکثر غیر مستحکم تھیٹر کو مزید پیچیدہ کرسکتا ہے۔