مشرق وسطیٰ، امکانات اور اندیشے/ دوسرا حصہ

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

یہ نکتہ سمجھنا بہت ضروری ہے کہ اسرائیل کا غیر محفوظ ہوجانا اسرائیل کی تاریخ کا سب سے بڑا بحران ہے۔ یہ ان تین عرب اسرائیل جنگوں میں بھی محفوظ رہا تھا جن میں اسے کئی مسلم ممالک کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

وہ جنگیں اس کے زیر قبضہ علاقوں میں نہیں بلکہ مسلم ممالک کی سرزمین پر لڑی گئی تھی اور اسے مزید علاقے قبضہ کرنے کا موقع دے گئی تھیں۔ 50 سال قبل لڑی گئی آخری عرب اسرائیل جنگ کے بعد تو اسے کسی ملک کی جانب سے جنگ کا بھی سامنا نہیں کرنا پڑا۔ ان جنگوں کے بعد اس نے جو تین جنگیں لڑیں، ممالک نہیں, عسکری تنظیموں کے خلاف لڑیں۔ اس بحرانی عرصے کے دوران فلسطینیوں کے ہاتھ کا پتھر انتفاضہ کے نام سے مزاحمت کا استعارہ بنا۔ یوں گویا فلسطین کی آزادی کی تحریک کو “پتھر کا دور” دیکھنا پڑا۔

پتھر کے اس دور کے بعد غاروں کا دور بھی آیا۔ غزہ اور جنوبی لبنان کی ماڈرن غاریں۔ کتنی عجیب بات ہے۔ ہزاروں سال کی ترقی کے بعد انسان غار سے محلات میں پہنچا۔ عسکریت بھی پتھر کے بعد ڈنڈے، ڈنڈے کے بعد تلوار اور تلوار سے میزائل تک ترقی کرگئی۔ مگر آج کے سب سے ترقی یافتہ مغربی انسان کو بھی اب غاروں کا توڑ نہیں سوجھ رہا۔ غار اور میزائل، جدید و قدیم کا یہ امتزاج ہی اسرائیل کے لئے کوئی کم چیلنج نہ تھا کہ ایسے میں پہلی بار کسی ملک نے یہ بھی ثابت کردیا کہ اب اسرائیل کا کوئی کونہ، کوئی انچ محفوظ نہیں۔

ذرا غور کیجئے! ایران اسرائیل کے ائیر بیسز، تیل کے ذخائر، بجلی کے گرڈ، صاف پانی کے سپلائی نظام کو پوری طرح نشانہ بنادے تو؟ یہی تو اس وقت اسرائیل کا سب بڑا خوف بن کر کھڑا ہوگیا ہے۔ کبھی کہا جاتا تھا

“کتنا چھوٹا سا ملک ہے مگر کتنا طاقتور ہے”

اور یہ سن کر ہر اسرائیلی کا سینہ فخر سے پھول جاتا۔ مگر آج ہر اسرائیلی یہ سوچ رہا ہے کہ ہم تو اتنا چھوٹا سا ملک ہیں، کتنی آسانی سے تباہ ہوسکتے ہیں۔ وہی چھوٹا سا ہونا اب ان کی جان کا سب سے بڑا عذاب بن گیا ہے۔ یہ پنگے باز ممالک میں سے دنیا کا واحد ملک ہے جو ایٹمی ہتھیاروں کے بغیر بھی مکمل طور پر تباہ کیا جاسکتا ہے۔ ایران نے 3 ہزار سے زائد بیلسٹک میزائلوں کا ذخیرہ اسی کے لئے جمع کیا ہے۔

پہلے کہا گیا، یکم اکتوبر کا حملہ پوری طرح ناکام بنادیا گیا۔ ایران اسرائیل کا کچھ نہیں بگاڑ پایا۔ اب وہاں تھاڈ کی بیٹری پہنچائی جا رہی ہے۔ یہ امریکہ کا سب سے ماڈرن ائیر ڈیفنس سسٹم ہے۔ اب تک میدان جنگ میں اسے کارکردگی پیش کرنے کا موقع نہیں ملا سو واضح نہیں کہ کتنا مؤثر ہے۔جنگ زندگی اور موت کی سب سے ہولناک کشمکش ہے۔ اصول یہ ہے کہ اگر کسی ہتھیار کی جنگی نہیں صرف تجرباتی استعداد معلوم ہے تو اسے 100 فیصد مؤثر مان کر چلا جائے۔ اسی اصول پر تھاڈ کو سوفیصد مؤثر مان لیا جائے تو کیا اسرائیل محفوظ ہوگیا؟ نہیں، تھاڈ کے آج تک امریکہ نے 1000 میزائل بنائے ہیں۔ ان میں سے بھی 200 مختلف تجربات اور حادثات میں خرچ ہوچکے۔ اب 100 فیصد تیاری کے اصول پر اگر یہ فرض کرلیا جائے کہ تھاڈ کے تمام بقایا 800 میزائل اسرائیل میں ہیں۔ اور یہ بھی سمجھ لیا جائے کہ ایران کا بلیسٹک میزائلوں کا ذخیرہ کئی سال بعد آج بھی 3000 میزائل ہے۔ تو ان 3000 میں سے تھاڈ 800 ہی گرا پائے گا ناں؟ پیچھے بچے 2200 میزائل۔ اور یہ صیہونیوں کو ایک بار پھر یورپین بنانے کے لئے کافی سے بھی زیادہ ہیں۔

مگر معاملہ صرف اسرائیل کے مستقبل کا ہی تو نہیں۔ ایران کے مستقبل کے حوالے سے بھی تواندیشے ہیں کہ جنگ کی تالی بھی ایک ہاتھ کا کام نہیں۔ کیا ایران اسرائیلی وار سہنے کی صلاحیت رکھتا ہے؟ کیا ایران کا ہر کونہ اور ہر انچ محفوظ ہے؟ اس زاویے سے ایران کا پہلا پلس پوائنٹ یہی ہے کہ یہ اسرائیل کے مقابلے میں ایک بڑے سائز کا ملک ہے۔ آبادی بھی 9 کروڑ کے قریب ہے۔ ملک کا بڑا حصہ پہاڑی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ ایسا ملک تو بالکل نہیں جسے ایٹمی ہتھیاروں کے بغیر ختم کیا جا سکتا ہو۔ ایٹمی ہتھیاروں کے بغیر ختم ہونے کی “سہولت” صرف اسرائیل کو حاصل ہے۔

یہ بات ہم پچھلی سیریز میں واضح کرچکے کہ ایران وہ ملک ہے جس نے اپنے دفاعی انحصار میں میزائلوں کو ہی فوقیت دے رکھی ہے۔ سو اس کا میزائلوں کا ذخیرہ غیر معمولی ہے۔ اس کے برخلاف اسرائیل کے پاس ایران تک رسائی رکھنے والے میزائل بہت ہی محدود تعداد میں ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ یہ امریکہ کا لے پالک ہے۔ اور امریکہ نے اپنی دفاعی حکمت عملی میں ہمیشہ فضائیہ کو فوقیت دیئے رکھی ہے۔ اس کا ماننا رہا ہے کہ بڑی فضائیہ ہی جیت کی کنجی ہے۔ چنانچہ اس نے رنگ رنگ کے طیارے بنانے اور انہیں ایئرکرافٹ کیریئر پر سجانے کی پالیسی کو ہی کافی سمجھا۔ بڑے میزائل اس نے ایٹمی ہی بنائے۔ نتیجہ یہ کہ اس کا لے پالک بھی فضائیہ پر انحصار پر مجبور ہے۔ گویا ایران پر حملے کے لئے اسرائیل کو اپنی فضائیہ ہی بھیجنی پڑے گی۔

مگر یہاں بھی اس کے لئے کئی بڑے دردِ سر تیار کھڑے ہیں۔ پہلا یہ کہ اسرائیلی طیاروں کو ایران پر حملے کے لئے عرب ممالک کی فضائی حدود استعمال کرنی پڑیں گی۔ اور عرب ممالک پہلے ہی واضح کرچکے کہ ایران پر حملے کے لئے ان کی فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت نہیں۔ چلئے فرض کر لیتے ہیں کہ اسرائیل یہ فضائی حدود بلا اجازت استعمال کر لیتا ہے۔ اس صورت میں دوسرا دردِ سر تیار کھڑا ہے۔ وہ یہ کہ ایران تک آنے جانے کے لئے اسرائیلی طیاروں کو ایئر ری فیولنگ کی ضرورت ہوگی۔ جس بڑے پیمانے پر ایئر ری فیولنگ درکار ہوگی وہ اسے صرف امریکہ فراہم کرسکتا ہے۔ اور پینٹاگون کا فی الحال ایسا کوئی ارادہ نہیں۔ تیسرا دردِ سر یہ کہ فرض کیجئے ایئر ری فیولنگ کا بند وبست ہو بھی جائے تو ہوگی تو یہ ایسے علاقے میں جس میں ایئر ٹینکر ایران ہی نہیں اس کی پراکسیز کے بھی نشانے پر ہوں گے۔

چلئے فرض کر لیا کہ ایئر ری فیولنگ بھی کسی دردِ سر کے بغیر ہوگئی۔ اسرائیلی طیارے ایران کی حدود میں بھی داخل ہوگئے۔ یہاں چوتھا اور نہایت مہلک دردِ سر منتظر ہوگا۔ اس دردِ سر کو دنیا ایس 400 کے نام سے جانتی ہے۔ ایس 400 کا اثر دیکھئے کہ یوکرین کی جنگ میں نیٹو محض شوبازی کے لئے بھی یوکرین کی حدود میں اپنے طیارے داخل کرنے کی جرأت نہیں کرپائی۔ یہ رسک نیٹو محض اظہار یکجہتی کے لئے بھی لینے کو تیار نہیں۔400 کلومیٹر کی رینج والے اس مہلک رشین ایئرڈیفنس سسٹم کے میزائل سے بچنا لگ بھگ ناممکن بتایا جاتا ہے۔ سو عسکری امور کے ماہرین کا ماننا ہے کہ جس علاقے میں یہ سسٹم لگا ہو وہاں فضائیہ داخل کرنے سے قبل لازم ہے کہ اس سسٹم کو تباہ کیا جائے۔

آیئے ایک بار پھر فرض کریں۔ فرض کیجئے اسرائیل کے طیارے ایس 400 سے بھی بچ کر نکل گئے۔ تو جانا تو انہیں اسرائیل ہی ہے ناں ؟ اس صورت میں پانچواں دردِ سر تیار کھڑا ہے۔ ان کے پہنچنے سے پہلے ایران کے میزائل اسرائیل کے ہر ایئربیس پہنچ گئے، وہاں صرف رن وے کو ہی نشانہ بنا ڈالا تو اسرائیلی طیارے اتریں گے کہاں؟ دور تو جا نہیں سکیں گے، واحد آپشن یونان ہی ہے۔ وہاں بس اتر سکتے ہیں۔ کچھ لوڈ کرکے پھر نہیں آسکتے۔ مگر یہ اترنا بھی یونان کے لئے عذاب کھڑا کردے گا۔ کیونکہ لبنان والی پراکسی پہلے ہی کہہ چکی ہے کہ اگر یونان نے اسرائیل کی کوئی سہولت کاری کی تو ہم اسے نشانہ بنائیں گے۔ گویا فضائیہ والی آپشن بھی کوئی گڈا گڈی کا کھیل نہیں، یہ مہلک خطرات سے پر راہ ہے۔ یہ ہم نے محض ایک فضائی حملے کی صورت میں درپیش خطرات بتائے ہیں۔ اسرائیل محض ایک حملہ تو نہیں کرنا چاہتا۔ وہ تو باقاعدہ جنگ کے خواب دیکھ رہا تھا۔ کسی ایک سرپرائزنگ ایئرسٹرائیک میں پھر بھی بچ جانے کا امکان کسی نہ کسی درجے میں موجود ہوتا ہے۔ جب اسرائیل کے ایک فضائی حملے کو ہی اتنے خطرات لاحق ہیں تو باقاعدہ جنگ میں یہ تواتر سے اپنی فضائیہ کیسے استعمال کر پائے گا؟ (جاری ہے)

Related Posts