سوال تو یہ بھی اہم ہے کہ کیا محض ایئراسٹرائیکس سے کسی بڑے رقبے والے ملک کو تباہ کرنا چھوڑیئے اس کی صرف ملٹری استعداد کو ہی ختم کرنا ممکن ہے ؟اس سوال کے جواب کے لئے یوکرین کی جنگ کا جائزہ ہی کافی ہے۔
یوکرین میں روس 500 سے 3000 پاؤنڈ والے سمارٹ بموں کا ہی بے دریغ استعمال نہیں کر رہا بلکہ اپنے نہایت مہلک و مؤثر میزائلوں کا بھی تھوک کے حساب سے استعمال کر رہا ہے۔ صرف یہ دو آئیٹم ہی وہ ہزاروں کی تعداد میں استعمال کرچکا۔ توپ خانے، ٹینک اور ڈرون کی مدد سے برسایا جانے والا لاکھوں ٹن بارود اس کے علاوہ ہے۔ دو سال کی اس مہم کے بعد اب جاکر روس یوکرین کی حربی استعداد کو ختم کرنے کے قریب پہنچا ہے۔
یوکرین کے حوالے سے ان دنوں یہی سوال ہر طرف زیر غور ہے کہ اس کی بچی کھچی فوج اسی سال ہتھیار ڈال دے گی یا یہ اگلے سال ہوگا ؟ اس سوال کی نوبت آنے میں عرصہ کتنا لگا ؟ دو سال۔
اور یہ دو سال اس روس کو لگے جس کے دفاعی کارخانے بم اور میزائل یوں بنا رہے ہیں جیسے کھولنے بنا رہے ہوں۔ پوری نیٹو کی حربی پیداوار سے 7 گنا زیادہ پیداوار روسی اسلحے کے کاخانے دے رہے ہیں۔ کیا اسرائیل کے پاس ہر طرح کا اسلحہ بنانے والے کارخانے ہیں ؟ وہ تو توپ کے گولوں کے لئے بھی امریکی سپلائی پر انحصار کرنے والا ملک ہے۔
لے دے کر ٹینک بنانے والا کارخانہ ہے اور اس کی استعداد بھی یہ ہے کہ جب غزہ میں اس کے ٹینک تباہ ہونے شروع ہوئے تو اسے ٹینکوں کے ایکسپورٹ آڈر ہی کینسل کرنے پڑ گئے۔ اس کے تو چار چھ اسلحہ ڈپو ہی ایران نے اڑادیئے تو لبنان والی پراکسی جنگ تل ابیب کی گلیوں تک پہنچا دے گی۔
ممکن ہے کسی کے ذہن میں یہ خیال آئے کہ امریکہ نے تو مختصر عرصے میں عراق کی فوجی استعداد ختم کردی تھی تو ایران کی استعداد کیوں جلد ختم نہ ہوسکے گی ؟۔ سو جوابی سوال یہ ہے کہ کیا عراق کوئی فوجی طاقت تھا ؟ عراق چھوڑیئے کوئی بھی عرب ملک کوئی سنجیدہ نوعیت کی ملٹری اہمیت رکھتا ہے؟ تیل کی دولت سے مالامال ان ممالک کو اسلحے کی “شاپنگ” کے علاوہ کیا آتا ہے ؟ یہ ہتھیار خرید کر سجا دیتے ہیں اور فوجی بھرتی کرکے انہیں ملٹری پریڈ سکھا دیتے ہیں تاکہ وقتا فوقتا سلطان معظم کو گارڈ آف آنر پیش کرکے ان کا جی خوش کیا جاسکے۔ اور کسی بڑے سٹیڈیم میں سالانہ پریڈ کی صورت رعایا کو دکھا سکیں کہ سلطان کی اسلحے کی “شاپنگ” کتنی مہنگی ہے۔
جہاں تک جنگ لڑنے کا تعلق ہے تو وہ انہیں آتی ہی نہیں۔ کیا آپ نے ان میں سے کسی ایک بھی ملک کی “ملٹری اکیڈمی” کا نام سنا ہے ؟ ہماری ملٹری اکیڈمی کاکول کا نام آپ نے سنا ہی ہے۔ وہاں درجنوں ممالک کے کیڈٹس بھی زیر تربیت ہوتے ہیں۔ صرف یہی نہیں ہماری نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں بھی دنیا کے مختلف ممالک کے افسران زیر تعلیم ہوتے ہیں۔
کیا عربوں کے پاس ایسی کوئی ملٹری اکیڈمی یا ملٹری کالج ہے ؟ جنگ ایک آرٹ ہے۔ اور ہتھیار اس کا اوزار۔اسلحے کا ڈھیر لگا رکھا ہو مگر آرٹ نہ آتا ہو تو یہ ایسا ہی ہے کہ مارشل آرٹ تو نہ آتا ہو مگر ننچکو ہاتھ میں پکڑ رکھا ہو۔ خنجر زنی نہ آتی ہو مگر بیلٹ میں ہیرے اور جواہرات سے سجا خنجر اڑس رکھا ہو۔
بہت اعلی حربی استعداد والا ملک ایران بھی نہیں۔ مگر اسرائیلی ملٹری سے پھر بھی بہتر ہے۔ اس کی سب سے بڑی کمزوری بس اس کی فضائیہ ہے۔ اور اب یہ اس کمزوری کو دور کرنے کی جانب متوجہ ہوچکے ہیں۔ مگر اس میں کئی سال لگیں گے۔ وہ بھی تب جب یہ فی الحال کسی بڑی جنگ سے بچا رہے۔ اس کا سعودی عرب سے دوستانہ ا معاہدہ اس ضمن میں غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے۔ آپ ہر طرف پنگے لے کر حربی استعداد حاصل نہیں کرسکتے۔
کسی بھی استعداد کے حصول کے لئے پرامن ماحول ضروری ہوتا ہے۔ اس ضمن میں ایران کو اپنی پوری خارجہ پالیسی کا از سر نو جائزہ لینا چاہئے۔ عراق کے علاوہ اپنے تمام پڑوسیوں سے اس کے تعلقات کشیدہ ہیں۔ پاکستان اور افغانستان کے ساتھ اس کے تعلقات کا معاملہ ایک طرف رکھ کر آپ صرف آذربائیجان کے ساتھ ہی اس کے خراب تعلقات کا نقصان دیکھ لیجئے۔
اسرائیل کو تیل اور گیس کی سپلائی آذربائیجان سے جا رہی ہے۔ اور براستہ ترکی جا رہی ہے۔ صرف یہ سپلائی ہی رک جائے تو اسرائیل کے ہوش اڑ جائیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر ایران کے آذربائیجان کے ساتھ دوستانہ تعلقات ہوتے تو یہ سپلائی جاتی ؟ کتنی حیران کن بات ہے کہ ایران کا یہ پڑوسی اسرائیل کے ساتھ سٹریٹیجک تعلقات رکھتا ہے۔
وہ تو روس نے آزربایجان کو حال ہی میں عین بروقت کنٹرول کرلیا ورنہ آذربائیجان کے ایئر بیسز پر اس وقت اسرائیل کے ایف 35 کھڑے ہوتے۔ اسے ایئر ری فیولنگ والا چیلنج ہی درپیش نہ ہوتا۔ ذرا ایک لمحے کو تصور کیجئے کہ تہران کے عین پروس میں اسرائیلی طیارے ٹیک آف کے لئے تیار کھڑے ہوں تو ؟
ہم گزشتہ سطور میں بتا چکے کہ ایران کے یکم اکتوبر والے حملے کے موقع پر روس کی نیشنل سکیورٹی کونسل کے سیکریٹری سرگئی شیگو تہران میں تھے۔ وہ تہران سے آذر بائیجان ہی گئے تھے۔ اور یہی کہنے گئے تھے کہ آذر بائیجان اسرائیل کی کوئی مدد کرنے کی غلطی نہ کرے۔ وہ تو ایران شکر کرے کہ آذربائیجان روس کا قریبی دوست ملک ہے۔ اس کے صدر الہام علیوف ماسکو کے تعلیم یافتہ ہی نہیں بلکہ روسی صدر ویلادیمیر پیوٹن کے ذاتی دوست بھی ہیں ورنہ آذربائیجان اور اسرائیل کی دوستی کا خمیازہ اس وقت ایران کو بھگتنا پڑتا۔
ہم کیا اور ہماری تجاویز کیا مگر پھر بھی یہ تجویز دیئے بغیر رہ نہیں سکتے کہ ایران اپنی پوری خارجہ پالیسی کا از سر نو جائزہ لے۔ ہم یہ بالکل نہیں کہتے کہ وہ پاکستان کو دوست بنا لے اور بھارت کو دشمن۔ بس یہ کہتے ہیں کہ دونوں ہی ممالک کو دوست بنائے رکھنے کی پالیسی اختیار کرے۔ یہ کوئی مشکل کام ہے بھی نہیں۔
پاکستان کے ساتھ کوئی ایسا معادہ نہ کرے جس سے بھارت کو نقصان ہو، اور بھارت کے ساتھ بھی کوئی ایسا معاملہ کرنے سے گریز کرے جس میں پاکستان کا نقصان ہو۔
اس کا فائدہ اسے یہ ہوگا کہ بوقت ضرورت اسے اپنے ان دونوں ہی دوستوں کی مدد میسر ہوگی۔ اور یہ بونس الگ کہ کسی بھی نازک وقت پر ان دونوں ممالک سے کوئی خطرہ نہ ہوگا۔ یہ کہاں کی عقل ہے کہ ایک طرف دنیا کی سب سے بڑی سپر طاقت نے آپ کا گلا دبا رکھا ہو اور دوسری طرف آپ پڑوسیوں کو بھی لاتیں مار رہے ہوں ؟ عقل و خرد کے کسی بھی پیمانے پر اس حکمت عملی کو درست ثابت کیا جاسکتا ہے ؟
ایران سے فارسی اور پاکستان سے اردو زبان میں عربوں کو گالیاں دینے دلوانے کا شوق اپنی جگہ مگر سوال یہ ہے کہ عربوں کے ساتھ دشمنی کا آغاز کس نے کیا تھا ؟ انقلاب ایکسپورٹ کرنے کا شوق کس نے پالا تھا ؟ اگر وہ غلطی نہ کی گئی ہوتی تو آج کی تاریخ میں عرب یہ کہتے کہ ہم غیر جانبدار ہیں ؟ عربوں کے ساتھ بہتر تعلقات کے قیام کی پالیسی نہایت دانشمندانہ ہے۔ مگر اس کے ثمرات راتوں رات تو نہیں سمیٹے جاسکتے۔
تعلقات پہلے قائم اور پھر بتدریج مضبوط و مستحکم کئے جاتے ہیں۔ ابھی تو وہ دن ہیں کہ تاریخی پیش رفت کے باوجود ایران اور سعودی عرب دونوں ہی ایک ایک قدم پھونگ پھونک کر رکھیں گے۔ سو سردست یہ بھی غنیمت ہے کہ عرب غیرجانبدار ہیں۔ وہ ایران کے خلاف امریکہ تک کی سہولت کاری کے لئے تیار نہیں۔
آپ ہماری یہ رواں اور پچھلی سیریز ہی دیکھ لیجئے۔ ہم سنی ہیں۔ اگر بیجنگ والا معاہدہ نہ ہوا ہوتا تو یہ سیریز ہم لکھتے ؟ ہمارا دنیا کے کسی بھی فرقہ پرست گروہ یا سوچ سے کوئی تعلق نہیں۔ لیکن ہم سنی تو ہیں، سنی ممالک کا جینا حرام کرنے والے ایران کی سپورٹ ہم کیوں کرتے ؟ہم تو پاپ کارن کا ایک بڑا سا باؤل لے کر نیم دراز ہوجاتے۔
کوئی پوچھتا کہ فاروقی صاحب آپ ایران اور اسرائیل کی ممکنہ جنگ پر کیا رائے رکھتے ہیں ؟ تو جواب دیتے”دیکھو میاں ! ایران تباہ ہوا تب بھی اپنا فائدہ ہے، اسرائیل تباہ ہوا تو یہ بھی اپنا ہی مفاد ہے۔ بس دعاء کرو ان دونوں میں سے کوئی ایک تو کم ہو۔ کسی ایک کا تو قصہ تمام ہو۔ ہمارے لئے تو دونوں ہی درد سر ہیں۔ ایک درد سر تو کم ہو”
یہ ہوتا ہمارا جواب۔ لیکن یہ بیجنگ معاہدے کی برکت ہے کہ ہم طویل عرق ریزی کرکے ایران کے حق میں سیریز پر سیریز لکھے جا رہے ہیں۔ اور اس کے لئے “ٹیوشن والے قاری صاحب” کے طعنے بھی سہ رہے ہیں۔
طویل باتوں کو آخری بات پر ختم کرتے ہیں۔ اور وہ یہ کہ اس وقت امکانات دو ہی ہیں۔ پہلا یہ کہ اسرائیل ایک عدد ائرسڑائیک کرکے کچھ دن یہ شور مچالے “دیکھا ! میں نے لے لیا ناں اپنا بدلہ ؟” اور نوبت کسی باقاعدہ جنگ کی نہ آئے۔ دوسرا امکان یہ کہ باقاعدہ جنگ چھڑ جائے۔ اس دوسرے امکان کو ہم یکسر مسترد تو نہیں کرتے مگر یہ ضرور کہتے ہیں کہ اس کا امکان کم ہے۔
یہ امکان کم ہونے کی چند موٹی موٹی وجوہات یہ ہیں کہ ایک تو اس جنگ کی لاجسٹک ہی امریکہ کے بھی بس سے باہر ہے۔ الٹا یہ خطرہ الگ کہ مشرق وسطی میں امریکہ کے تمام فوجی اڈے نشانے پر آجائیں گے۔ اور ایران اس کی نیوی کو بھی ڈبونے سے نہیں ہچکچائے گا۔
دوسری وجہ یہ کہ یہ خبر گرم ہے کہ روسی پائلٹ ایران پہنچائے جا چکے۔ طیاروں پر ایرانی پرچم وغیرہ پینٹ ہو رہے ہیں، وہ بھی کسی بھی وقت پہنچتے ہوں گے۔ دنیا میں دو ممالک ایسے ہیں جس کے پائلٹ دوسرے ممالک کی جنگوں میں اپنے پائلٹ بھیج چکے۔ ایک پاکستان دوسرا روس۔ روس کوریا، ویتنام، اور تیسری عرب اسرائیل جنگ میں اپنے پائلٹ بھیجنے کی تاریخ رکھتا ہے۔
سو اس بار بھی یہ کوئی نئی بات نہ ہوگی۔ روس کا ایس 400 سسٹم بھی ظاہر ہے کہ روسی خود ہی اپریٹ کریں گے۔ کیونکہ اتنے مختصر وقت میں ایرانیوں کی تربیت ممکن نہیں۔ گویا اسرائیل میں امریکہ موجود ہے تو ایران میں روس۔
تیسری اور بہت ہی اہم وجہ یہ کہ ایک طرف اسی ہفتے چین تائیوان کی نیول ناکہ بندی کی مشقیں کرچکا تو دوسری طرف شمالی کوریا نے بھی جنوبی کوریا کے ساتھ صورتحال کشیدہ کردی ہے۔ یہ دونوں ہی اقدامات درحقیقت امریکہ کو دیا گیا مہلک پیغام ہیں۔
چین اور شمالی کوریا اس پیغام کے ذریعے امریکہ کو صاف صاف بتا رہے ہیں کہ اگر ایران پر جنگ مسلط ہوئی تو تائیوان اور جنوبی کوریا کو بھول جانا۔ ایران تو پتہ نہیں لے پاؤ یا نہیں مگر اپنے ان دونوں لے پالکوں سے ہاتھ ضرور دھو بیٹھوگے۔ یہ اتنا جان لیوا میسج ہے کہ امریکہ نظر انداز کر ہی نہیں سکتا۔ (ختم شد)