باراک اوباما کے پہلے دور میں اچانک عرب سپرنگ شروع ہوا۔ اس سے بظاہر ان حکومتوں کو خطرہ لاحق تھا جنہیں امریکی پشت پناہی میسر تھی مگر حیران کن طور پر امریکہ “ٹینشن فری” نظر آرہا تھا۔
یہ عرب سپرنگ ہی تھا جس نے فیس بک کی مقبولیت کو آسمان پر پہنچایا اور صاف مانا جانے لگا کہ اس تحریک میں فیس بک کلیدی کردار ادا کر رہا ہے۔ جلد واضح ہوا کہ فیس بک کی ایکٹوٹی بے سبب نہیں بلکہ کھیل یہ شروع ہوگیا ہے کہ امریکہ مشرق وسطی کا پورا سیاسی نقشہ تبدیل کرنے جا رہا ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد سے عرب امریکہ کے دوست بن کر خطے کے بالادست تھے جبکہ شیعہ ممالک معتوب چلے آرہے تھے۔ اب شیعہ ممالک کو بالادستی دے کر عربوں کو 70 سال کے لئے معتوب کرنے کی باری تھی
وجہ ؟ بس اتنی سی کہ سعودی عرب کا تیل کا ذخیرہ نچڑ چکا تھا جبکہ ایران اور عراق والا ذخیرہ سالم تھا۔اب اگلے 70 سال اسے نچوڑنا تھا۔
سعودی شہزادے بظاہر ایسے شہزادوں کا تاثر رکھتے ہیں جنہیں عیاشی کے سوا کچھ نہیں آتا۔ مگر ان کا یہ تاثر بس پاکستان اور انڈیا کے مسلمانوں میں ہی ہے۔ پڑھی لکھی دنیا سعودی شاہی خاندان کو بڑا عالمی پلیئر مانتی ہے۔ وہ پلیئر جو کھیل جانتا بھی ہے اور جیتتا بھی ہے۔ سعودیوں نے بہت ہشیاری سے شیعہ ملک شام میں عسکریت کا الاؤ دہکا کر گویا باراک اوباما اور امریکی اسٹیبلیشمنٹ سے کہا:
“آؤ کھیلیں !”
یہ کام سعودیوں کے لئے کچھ زیادہ مشکل یوں نہ تھا کہ شام کی حکومت تو شیعہ تھی مگر یہ سنی اکثریت والا ملک ہے۔ کچھ عرصہ تو امریکی سٹپٹاتے پھرے، پھر اپنا پلان لے آئے۔ انہوں نے عراق سے ایک خونخوار تنظیم کھڑی کردی۔ اس تنظیم نے شام کو توجہ کا مرکز بنایا اور ساتھ ہی سعودیوں کو آنکھیں دکھاتے ہوئے کہا:
“ذرا شام میں تمہارے مہروں سے نمٹ لیں، پھر تمہاری بھی باری ہے۔”
سعودیوں نے پاکستان سے فوج بھیجنے کا مطالبہ کردیا۔ ہم نے علامتی طور پر بس جنرل راحیل کو وہاں بٹھا دیا جو امریکہ کو پیغام تھا کہ یہ عراقی گروپ اس طرف آیا تو جنرل پہنچ چکا، فوج بھی پہنچ جائے گی۔ پیغام سمجھ لیا گیا۔ یوں فوج بھیجنے کی نوبت نہ آئی۔ عراقی دہشت گرد شام گئے تو پہلا ٹارگٹ وہی بنے جن کی پشت پناہی سعودی عرب کر رہا تھا۔ اور ساتھ ہی واضح کردیا کہ چھوڑیں گے ہم بشار کو بھی نہیں۔ گویا امریکہ نے شام کے متعلق فیصلہ کرلیا تھا کہ اس شیعہ ملک کو براہِ راست اپنی تحویل میں لینا ہے۔
یہ صورتحال دیکھ کر بشار نے ایران اور روس دونوں کو مدد کے لئے پکار لیا۔ یوں ایران اور اس کا لبنانی پارٹنر ہی نہیں بلکہ روس بھی شام آپہنچا۔ اسی شام کے ایک کونے سے کرد بھی سرگرم ہوگئے۔ انہیں بھی عراق والی تنظیم کی طرح امریکہ کی پشت پناہی میسر تھی۔ مگر ان کا ہدف ترکی بنا۔ یاد ہے ناں، طیب اردگان امریکیوں کو زہر لگتا تھا؟ آگے چل کر اس کے خلاف فوجی بغاوت بھی کرائی تھی؟
اب شام ایک ایسی کھچڑی بن گیا تھا جہاں بشار، ایران، حزب، اور روس ایک ٹیم تھے۔ ان کا ہدف امریکہ، عراقی گروپ، کرد اور سعودی گروپس تھے۔امریکہ، عراقی گروپ اور کرد دوسری ٹیم تھے۔ ان کا ہدف بشار والی ٹیم اور سعودی گروپس تھے۔ جب شام میں روسی فضائیہ نے اپنے اہداف کو نیست و نابود کرنا شروع کیا تو امریکہ نے عراقی گروپ کے ساتھ “خ راس ان” جوڑ کر افغانی بھی انٹر کردیئے تاکہ کمی کو پورا کیا جا سکے۔
مگر اچانک ایک بڑا واقعہ ہوگیا۔ امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ 2016ء کا الیکشن جیت گیا۔ یہ امریکی اسٹیبلیشمنٹ کے لئے بہت بڑا جھٹکا تھا۔ کیونکہ ان کے خیال کے مطابق الیکشن اس ہیلری کلنٹن نے جیتنا تھا جو عرب سپرنگ کی “باس” تھی۔ اور یوں ان کے دور میں عرب سپرنگ نے اپنی منزل مراد تک پہنچنا تھا۔مگر جیت ٹرمپ گیا۔ چنانچہ یہ ریکارڈ پر ہے کہ انتخابی نتائج کے اگلے روز امریکی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے تمام سربراہان ٹرمپ سے ملے اور ان سے کہا:
“آپ کا کچھ نازیبا ریکارڈ روسیوں کے پاس ہے۔ آپ نے صدارت سنبھالی تو وہ امریکہ کو بلیک میل کریں گے۔ لہٰذا آپ صدارت سے دستبردار ہوجائیے۔”
ٹرمپ کو اس کی پوری الیکشن مہم کے دوران امریکی اسٹیبلیشمنٹ نے قدم قدم پر رُسوا کروایا تھا، سو وہ تو پہلے تپا بیٹھا تھا۔ جب الیکشن جیتنے کے بعد بھی اسے اقتدار سے دُور رکھنے کا کھیل نہ رُکا تو گویا اس نے بھی امریکی اسٹیبلیشمنٹ سے کہہ دیا
“آؤ کھیلیں!”
چنانچہ اس نے اقتدار سنبھالتے ہی پہلا بڑا قدم یہ اٹھایا کہ ایران کے ساتھ ہونے والا مغربی ممالک کا وہ ایٹمی معاہدہ پھاڑ کر پھینک دیا جس کے تحت شیعہ ممالک کو مشرقِ وسطٰی میں برتری ملنی تھی۔ دوسرا قدم یہ اٹھایا کہ جس عراقی گروپ کا خالق باراک اوباما تھا، اس کے فنڈز روک دیئے۔ آج بھی جب ٹرمپ سے انٹرویو میں سوال ہوتا ہے:
“آپ نے عراقی دہشت گرد گروپ کا خاتمہ کیسے کیا ؟”
تو وہ سمپل جواب یہ دیتا ہے:
“میں نے اس گروپ کو امریکہ سے ملنے والے فنڈز بند کرائے، اور امریکی فوج کی مدد سے اس کے سربراہ کو مار دیا۔”
ٹرمپ نے اس عراقی گروپ کو شام میں نشانہ بنانا شروع کیا تو اس کا افغانی ٹکڑا دوڑ کر افغانستان آگیا مگر ٹرمپ نے انہیں یہاں بھی نہ بخشا۔ کسی کو یاد ہے ٹرمپ نے جلال آباد کے قریب “مدر آف آل بمز” کا استعمال کیا تھا ؟ گوگل پر سرچ کر لیجئے اس کا نشانہ یہی گروپ بنا تھا۔
ٹرمپ یہیں تک نہ رہا بلکہ جس سعودی شاہی خاندان کو امریکہ اسٹیبلیشمنٹ نے آگے چل کر عراقی گروپ کے ہاتھوں نیست و نابود کروانے کا خواب دیکھ رکھا تھا، اسی شاہی خاندان کو ایک بار پھر امریکی کیمپ میں لے آیا۔ مگر ٹرمپ کا کھیل ابھی باقی تھا۔ اس نے امریکی اسٹیبلیشمنٹ کو سب سے بڑا جھٹکا اس وقت دیا جب خبر آئی کہ ایرانی کمانڈر جنرل سلیمانی مارے گئے۔
سن 2020ء کا امریکی صدارتی الیکشن آیا تو باراک اوباما کے نائب صدر جو بائیڈن ٹرمپ کے مقابل صدارتی امیدوار تھے۔ بائیڈن نے انتخابی تقاریر میں تواتر سے کہنا شروع کردیا:
“میں محمد بن سلمان کو تنہائی کا شکار کردوں گا، اسے خشوگی قتل کیس میں انصاف کے کٹہرے تک پہنچایا جائے گا۔”
خشوگی قتل تو محض بہانہ تھا۔ اصل کھیل وہی تھا جس کا آغاز عرب سپرنگ سے ہوا تھا، اور جس میں امریکی اسٹیبلیشمنٹ چاروں شانے چت ہوگئی تھی۔ بائیڈن الیکشن جیتے تو پہلا حکم یہ جاری کیا کہ خلیج سے امریکی بحری بیڑہ ہٹایا جائے۔ یہ گویا ایرانیوں کو دانہ ڈالا گیا کہ واپس آؤ، مارو سعودیوں کو۔ مگر ایرانی بہت سمجھدار نکلے۔ وہ یہ دانہ چگنے کو نہ بڑھے۔ ایرانیوں نے دیکھا کہ بائیڈن سے نمٹنے کے لئے ایک تو محمد بن سلمان ڈٹ کر کھڑا ہوگیا ہے اور دوسرا یہ کہ سعودی عرب کو چین اور روس کے کیمپ میں تیزی سے شفٹ کر رہا ہے۔ سو اسی کا فائدہ اٹھا کر ایرانیوں نے چین سے کہا، ہماری سعودی عرب سے صلح کروایئے۔ اور یوں وہ مشہورِ زمانہ بیجنگ معاہدہ سامنے آیا جس نے امریکہ ہی نہیں، اس کے تمام اتحادیوں کو بھی ہکا بکا کردیا۔
اور پھر ہوگیا 7 اکتوبر۔ سنی تنظیم حماس اسرائیل سے روبرو ہوئی تو لبنانی تنظیم مدد کو آگئی۔ وہی تنظیم جسے کئی سال قبل عرب لیگ نے دہشت گرد ممالک کی فہرست میں شامل کردیا تھا۔ اس نے حماس کی بھرپور مدد شروع کی تو جون 2024ء میں عرب لیگ نے اسے دہشت گرد ممالک کی فہرست سے نکال دیا۔ یہ بڑا قدم ساری دنیا کو کو نظر آگیا، دنیا بھر کے اخبارات نے اس کی خبر شائع کی۔ اگر نظر نہ آیا تو بس پاکستانی فرقہ پرستوں کو نظر نہ آیا۔ موجودہ جنگ میں لبنانی تنظیم کا اسرائیل سے بس یک نکاتی مطالبہ تھا۔ غزہ سے نکل جاؤ، جس لمحے تم غزہ سے نکلے، اسی لمحے ہمارے حملے بھی رک جائیں گے۔ حسن نے غزہ کے لئے جان قربان کردی مگر اس مؤقف سے نہ ہٹا۔ کتنی عجیب بات ہے، سنی اسماعیل شیعوں کے ایران میں شہید ہوتا ہے۔ اور شیعوں کا حسن سنیوں کے غزہ پر “فدائی” ہوجاتا ہے، ایسا لگتا ہے خونی دشمنیاں اب خونی رشتے میں بدل رہی ہیں۔ مگر ہماری یہ تحریر بھی اندھوں کے شہر میں آئینے بانٹنے والی سرگرمی ہے۔ کیا کریں؟ کوئی اور کام آتا بھی تو نہیں!