حکومت اور عوام موسم سرما میں گیس کے شدید بحران کیلئے تیار رہیں، عرفان کھوکھر

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

Irfan Khokhar

کراچی :ایل پی جی انڈسٹریز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے چیئرمین عرفان کھوکھر نے کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے عوام کو آگاہ کیا کہ حکومت مخالف عناصر اور بیوروکریسی اہلکار وافسران ملک کو ایک اور بڑے بحران سے دوچار کرنے کے لیے سرگرم ہیں۔

کسٹم انٹیلی جینس اینڈ انویسٹی گیشن کراچی کے ڈائریکٹر عاصم افتخار ایک مخصوص سیاسی جماعت سے تعلق ہے، جو اس وقت ملک میں افراتفری پھلارہی ہے، تفتان سے ایل پی جی کی اسمگلنگ کے الزماات اسی سازش کا حصہ ہیں جس پر پوری ایل پی جی انڈسٹری میں سخت غم و غصہ پایا جاتا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ مخصوص مفادات کے لیے عوام کو بحران دے دوچار کرنے اور ایل پی جی انڈسٹری کو بدنام کرنے کے ساتھ حکومت کے لیے مشکلات کھڑی کرنے والے کسٹم افسر کے خلاف تحقیقات کرائیں جائیں۔

ایل پی جی انڈسٹریز ایسوسی ایشن ایل پی جی کی قانونی تجارت کو بدنام کرنے اور ملک میں گیس کا بحران کھڑا کرنیو الے ان عناصر کے خلاف سخت احتجاج کریگی اور قانونی چارہ جوئی بھی کی جائیگی۔

عرفان کھوکھر نے کہا کہ ایل پی جی کی دستیابی مشکل بناکر گیس کے بحران کو شدید بنانیو الے عناصر کی وجہ سے آنے والے موسم سرما میں گیس کی قلت کی وجہ سے پورے ملک کی طرح کراچی کے صارفین کو بھی شدید مشکلات کا سامنا ہوگا۔

قدرتی گیس کا متبادل ایل پی جی بھی نایاب ہوگی جس کی وجہ سے گھروں کے چولہے ٹھنڈے ہوجائیں گے، ٹرانسپورٹ کا پہیہ رک جائے گا اور عوام کے لیے سخت سردیوں میں مقابلہ کرنا مشکل ہوجائے گا۔

ایل پی جی انڈسٹریز ایسوسی ایشن نے سازشی عناصر اور کسٹم افسر کے خلاف تحقیقات کے لیے وزیر اعظم کو باضابطہ درخواست ارسال کردی ہے اگر بروقت کارروائی نہ کی گئی تو احتجاجی مہم چلائی جائیگی۔

عرفان کھوکھر کے مطابق موسم سرما کی آمد سے قبل ہی ملک میں گیس کا بحران شدت اختیار کرگیا ہے۔ ملک بھر کی طرح کراچی کے صارفین بھی گیس کی لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے دہری پریشانی کا شکارہیں ایک جانب گھروں میں کھانا پکانے کے لیے گیس دستیا ب نہیں ہے سی این جی کا ناغہ بڑھ گیا ہے ۔

دوسری جانب کے الیکٹرک کو گیس کی مطلوبہ مقدار نہ ملنے کی وجہ سے بجلی کی لوڈ شیدنگ کا دورانیہ بھی بڑھ گیا ہے۔ گیس کی قلت کی صورتحال روز بہ روز بد سے بد تر ہوتی جارہی ہے جس کے پیش نظر اس حقیقت کا اندازہ لگانا مشکل نہیں رہا کہ آنے والے موسم سرما میں عوام کو گیس کی دستیابی کے حوالے سے بدترین صورتحال کا سامنا ہوگا اور ملک بھر میں گیس کی قلت ہوگی جس کا زیادہ اثر ملک کے معاشی حب کراچی پر بھی مرتب ہوگا جہاں موسم سرما سے قبل ہی گیس کی قلت پیدا ہوگئی ہے اور سی این جی صارفین کے ساتھ گھریلو اور صنعتی صارفین بھی مشکلات کا شکار ہیں۔

حکومتی سطح پر گیس کی قلت اور بحرانی صورتحال کا کسی حد تک ادراک کیا گیا اور وزیر اعظم پاکستان نے ایل پی جی انڈسٹریز ایسوسی ایشن آف پاکستان کی بار بار کی نشاندہی اور درخواستوں کے بعد اپنی ٹیم کو موسم سرما میں گیس کی دستیابی ممکن بنانے اور ایل پی جی کی درآمد کی راہ میں حائل رکاوٹوں کے خاتمے کی ہدایت کی ہے تاہم اس پر ابھی تک کوئی ایکشن نہیں ہوسکا ۔

دوسری جانب عوام کو ریلیف دینے کے لیے حکومت کی کاوشوں پر پردہ ڈالنے اور سیاسی مقاصد کے لیے آئے روز ایک نیا بحران پیدا کرنے والے عناصر بھی اس صورتحال میں سرگرم ہوگئے ہیں اورایران سے گیس کی درآمد کے متعلق بے بنیاد پراپیگنڈہ کرکے تفتان بارڈر سے ایل پی جی کی درآمد کو دشوار تر بنادیا گیا ہے جس سے ملک میں ایل پی جی کی دستیابی بھی ناممکن ہوتی جارہی ہے۔

دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے موسم ہر سال سخت ہورہا ہے حالیہ بارشوں اور گرمی کے بعد ماحولیاتی ماہرین سخت سردیوں کی بھی پیش گوئی کررہے ہیں اس صورتحال میں اگر ملک میں قدرتی گیس نایاب اورایل پی جی دستیاب نہ ہوگی تو عوام کے لیے سخت سردیوں کا مقابلہ کرنا اور معمولات زندگی جاری رکھنا بھی ناممکن ہوجائے گا۔

عرفان کھوکھر نے کہا کہ پاکستان میں گیس کی قلت تیزی سے بڑھ رہی ہے جس کی ایک وجہ بڑے ذخائر کی عدم دستیابی ہے دوسری جانب لائن لاسز کی وجہ سے سوئی سدرن اور سوئی ناردرن گیس کمپنیاں خسارے کا شکار ہیں ایس ایس جی سی کو سالانہ 25ارب اور سوئی نادرن گیس کمپنی کو سالانہ 30ارب روپے اس طرح دونوں کمپنیوں کو مجموعی طور پر سالانہ 55ارب روپے کے خسارے کا سامنا ہے۔ گیس کی قلت دور کرنے کے لیے ایل این جی درآمد کی گئی لیکن لائن لاسز کی وجہ سے درآمدی ایل این جی کا خسارہ مزید بڑھ گیا ۔

ایک تخمینہ کے مطابق ایل این جی شامل کرنے سے لائن لاسز کے خسارے میں مزید 218ارب روپے کا نقصان ہوا اس طرح گیس کمپنیوں کا مجموعی خسارہ 268ارب روپے تک پہنچ گیا۔ گیس کی قلت دور کرنے کا ایک ہی موثر ذریعہ ہے جو ایل پی جی کی شکل میں دستیاب ہے۔ ایل پی جی سیکٹر ملک کے دور دراز علاقوں میں جہاں پائپ لائن کے ذریعے گیس پہنچنا ممکن نہیں گیس کی کمی کو پورا کرتی ہے خاص کر موسم سرما میں جہاں ایل پی جی توانائی کی طلب پوری کرتی ہے وہیں سخت سردی میں حرارت مہیا کرکے لاکھوں زندگیوں کو بچانے کا بھی ذریعہ بنتی ہے۔

بدقسمتی سے بعض عناصر روز اول سے موجودہ وفاقی حکومت کو ناکام بنانے پر تلے ہوئے ہیں اور ایک کے بعد ایک بحران پیدا کیا جارہا ہے جس سے براہ راست عوام کی زندگیاں متاثر ہوتی ہیں اور نتیجہ مہنگائی کی شکل میں نکلتا ہے اور عوام حکومت سے نالاں ہوتے ہیں جس کا فائدہ حکومت کے مخالف عناصر اور اپوزیشن کو ملتا ہے اور وہ حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کرتے ہوئے حکومت کی ان کاوشوں پر بھی پردہ ڈال دیتی ہے جو کرونا کی وباء اور معاشی چیلنجز کے دوران حکومت کی جانب سے عوام اور بزنس کو سپورٹ اور ریلیف فراہم کرنے کے لیے کیے گئے۔

عرفان کھوکھر کے مطابق ایل پی جی انڈسٹریز ایسوسی ایشن وفاقی حکومت کو کئی ماہ سے ملک میں گیس کی قلت دور کرنے کے لیے ایل پی جی جیسی ماحول دوست گیس کی دستیابی کو آسان بنانے کے لیے رابطے میں ہے اور مربوط سفارشات پیش کرتی رہی۔

اس صورتحال میں وزیر اعظم پاکستان کی ہدایت پر پلاننگ کمیشن کے چیئرمین جہانزیب خان کی سربراہی میں انرجی کے تمام اداروں کے سربراہان، وفاقی وزیر توانائی عمر ایوب، معاون خصوصی ندیم بابر، چیئرمین ایف بی آر اور سیکریٹری خزانہ مشتمل کمیٹی بھی تشکیل دی گئی جس کا پہلا اجلاس یکم جولائی کو اور عرفان کھوکھر کی خصوصی درخواست پر 7جولائی کو دوسرا اجلاس منعقد ہوا اس اجلاس میں ایل پی جی کے تمام اسٹیک ہولڈرز نے شرکت کی اور گیس بحران سے نمٹنے کے لیے ایل پی جی کو فروغ دینے اور مقامی پیداوار کم ہونے کی وجہ سے درآمدی ایل پی جی تک عوام کی رسائی آسان بنانے کی تجاویز دیں ان اجلاسوں میں کمیٹی کے ڈپٹی چیئرمین نے واضح طور رپر اعلان کیا کہ گیس کمپنیوں کا خسارہ اور بوجھ کم کرنے کے لیے ایل پی جی کو فروغ دیا جائے گا ۔

مقامی پیداوار بڑھائی جائیگی اور 50فیصد ملکی ضرورت پوری کرنے کے لیے درآمدی ایل پی جی پر انحصار کے باعث ایل پی جی سیکٹر کو ریلیف دیا جائے گا۔ اس سے قبل پاور سیکٹر کے اہم اسٹیک ہولڈر کی حیثیت سے ایل پی جی انڈسٹریز ایسوسی ایشن نے 20فروری 2019کو وزیر اعظم ہاؤس میں منعقدہ اجلاس میں سابق وزیر خزانہ اسد عمر اور وزیر مملکت حما داظہر سے ملاقات کرکے ایران سے گیس کی درآمد میں درپیش مشکلات دور کرنے کے لیے بینکنگ چینل کو موثر بنانے پر تبادلہ خیال کیا اور 25فروری کو تفتان بارڈر ٹرید کے لیے بینکنگ چینل وضع کرنے کی باضابطہ درخواست بھی جمع کرائی ۔

اس سلسلے میں پاکستان کسٹم کے ایک وفد نے 15جولائی 2020کو پاکستانی قونصل خانہ زاہدان میں ایران کے ہم منصب افسران سے بھی ملاقات کی۔ عرفان کھوکھر نے بتایا کہ حکومتی کی حکمت عملی کو ناکام بنانے کے لیے ایک بار پھر بیوروکریسی میں موجود کچھ عناصر سرگرم ہوگئے اور کسٹم انٹیلی جینس اینڈ انویسٹی گیشن کراچی کے ڈائریکٹر عاصم افتخار نے ایک ٹی وی پروگرام میں من گھڑت الزامات عائد کیے کہ تفتان بارڈر سے آنے والی گیس اسمگل کرکے لائی جاتی ہے جو پاکستان کے لیے مشکلات کا سبب بن سکتی ہے جس کے بعد قانونی طور پر تفتان بارڈر سے گیس درآمد کرنے والی کمپنیوں کے لیے گیس درآمد کرنا دشوار تر ہوگیا۔

عرفان کھوکھر نے کہا کہ کسٹم کے الزمات بے بنیاد ہیں اور اس پر کراچی سے خیبر تک ایل پی جی ڈیلرز میں تشویش پائی جاتی ہے کہ حکومت کو گمراہ کرکے ملک میں گیس کی قلت کی صورتحال کو مزید خراب کرکے یہ عناصر کون سے مقاصد پورے کرنا چاہتے ہیں۔ حقیت یہ ہے کہ تفتان بارڈر سے آنے والی گیس پر تمام ٹیکس اور محصولات ادا کیے جاتے ہیں اور نیشنل بینک میں چالان جمع کرائے جاتے ہیں جن کی رسیدیں کسی بھی فورم پر مہیا کی جاسکتی ہیں۔

عرفان کھوکھر نے واضح کیا کہ تفتان بارڈر سے ایل پی جی کی درآمد کو مشکل بنانے کے لیے پیدا کی جانے والی یہ تمام افراتفری باقاعدہ منصوبہ بندی کا حصہ ہے اور ایک ایجنڈے کے تحت یہ صورتحال پیدا کی جا رہی ہے تاکہ حکومت کے لیے ایک نیا بحران پیدا کرکے حکومت پر عوام کے اعتمادکو کم کیا جائے اور حکومت کی ساکھ کو نقصان پہنچایا جائے۔ دوسری طرف اس سازش کے تحت گیس کمپنیوں کو حکومت کے خلاف کرنے کے لیے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کیے جا رہے ہے یہ عناصر چاہتے ہیں کہ ملک میں گیس کے نرخ دگنے ہوجائیں اور سردیوں میں گیس کی قلت ہوتی اس ہتھکنڈھوں کی وجہ سے یہ گیس ناپید ہو جائے۔

عرفان کھوکھر نے کہا کہ تفتان کے ذریعے ایل پی جی درآمد کی جاتی ہے اور اسکے بدلے ایران پاکستان سے چاول، پھل سبزیاں درآمد کرتاہے ایل پی جی کی بندش سے نہ صرف برادر اسلامی ملک کے ساتھ تجاتی تعلقات متاثر ہوں گے بلکہ ملک کے پسماندہ اور وسائل سے محروم بلوچستان کے عوام پر روزگار کے رہے سہے دروازے بھی بند ہوجائیں گے۔

ایل پی جی کی درآمد سے نہ صرف بلوچستان میں وسیع پیمانے پر روزگار ملتا ہے بلکہ حکومت پاکستان کو ٹیکس ڈیوٹی اور بلوچستان حکومت کو ڈیولپیمنٹ سیس کی شکل میں آمدن ہوتی ہے۔ اگر فی الفور تفتان بارڈر سے ایل پی جی کی درآمد کے لیے بینکنگ چینل مہیا نہ کیا گیا تو موسم سرما میں گیس کی قیمت میں 20روپے کلو تک اضافہ ہوجائے گا اور کراچی تا خیبر عوام کو شدیدمشکلات کا سامنا ہوگا۔

مزید پڑھیں:کراچی والے ہوجائیں تیار، بجلی کے بعد گیس کے بڑے بحران کی پیشگوئی

عرفان کھوکھر نے مطالبہ کیا کہ وزیر اعظم پاکستان اور وفاقی وزیر توانائی تفتان بارڈر کے ذریعے ایل پی جی کی درآمد کو مشکلات سے دوچار کرنے والے کسٹم افسران کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائی جائے اور اس بات کی تحقیق کی جائے کہ مذکورہ ڈائریکٹر کا تعلق حکومت کی مخالف کن جماعتوں سے ہے اور وہ کس کے ایماء پر حکومت کو گمراہ اور عوام کو حکومت سے بد ظن کرنے کی سازش کررہے ہیں۔

تفتان بارڈ سے ایل پی جی کی درآمد کے لیے فی الفور بینکنگ چینل کا مکینزم وضع کیا جائے، عوام کو موسم سرما کے دوران سستی ایل پی جی فراہم کرنے کے لیے ایل پی جی پر عائد سیلز ٹیکس اور دیگر وفاقی محصولات ختم کیے جائیں۔

Related Posts