اسلام آباد: چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس عمر فاروق کا کہنا ہے کہ انٹیلی جنس رپورٹس کے مطابق عمران خان پر حملے کے خدشات ہیں، حکومت اور ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ اِس چیز کو مدِ نظر رکھے۔
پی ٹی آئی کی جلسے اور دھرنے کے لیے این او سی کے اجرا کی درخواست پر سماعت چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس عامر فاروق کی سربراہی میں ہوئی۔ دوران سماعت عمران خان پر جلسے کے دوران حملے کے خدشے کے حوالے سے رپورٹ عدالت میں پیش کی گئی۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ انٹیلی جنس رپورٹس کے مطابق عمران خان پر حملے کے خدشات ہیں، حکومت اور ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس چیز کو بھی مدنظر رکھے۔
جسٹس عامر فاروق کا کہنا تھا کہ احتجاج کرنا سیاسی اور غیر سیاسی جماعتوں کا حق ہے لیکن عام شہریوں اور پٹیشنرز تاجروں کے بھی حقوق ہیں جو متاثر نہیں ہونے چاہئیں۔
عدالت نے کہا کہ انگلینڈ میں بھی مظاہرین ٹین ڈاؤننگ اسٹریٹ پر آجاتے ہیں اور احتجاج کرتے ہیں لیکن سڑک بلاک نہیں کرتے۔
پاکستانی نژاد صحافی آمنہ نواز کا اعزاز، پی بی ایس نیوز آور کی شریک اینکر مقرر
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہائیکورٹ ڈپٹی کمشنر کی ذمہ داریاں نہیں سنبھال سکتی، اگر آپ ڈپٹی کمشنر کے کسی آرڈر سے متاثر ہوئے تو عدالت آئیں۔
ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے عدالت میں کہا کہ سپریم کورٹ نے کہا کہ لانگ مارچ نہیں روک سکتے۔
چیف جسٹس عمر فاروق نے پی ٹی آئی کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے جی ٹی روڈ، موٹر وے اور دیگر شاہراہیں بلاک کیں، آپ کو بھی ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔تحریک انصاف کے وکیل نے کہا کہ نئی درخواست کے لیے پارٹی قیادت سے مشاورت کرنی ہے۔
عدالت نے پی ٹی آئی وکیل کی استدعا پر سماعت 22 نومبر تک ملتوی کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی نے اگر جلسہ کرنا ہے تو انتظامیہ کو نئی درخواست دے، اگر جلسےکی اجازت دیں گے تو یقینی بنائیں گے کہ سڑکیں بلاک نہ ہوں، انتظامیہ نے یقینی بنانا ہے کہ عوام کے حقوق متاثر نہ ہوں۔