قومی اسمبلی میں شاہ محمود قریشی اور بلاول بھٹو کے ایک دوسرے پر سنگین الزامات

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

Bilawal Bhutto, FM Qureshi hold fiery debate during NA session

اسلام آباد :قومی اسمبلی میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور بلاول بھٹو ایک دوسرے پر برس پڑے ، دونوں رہنماؤں کے خطاب کے دور ان اپوزیشن اور حکومتی اراکین ایک دوسرے کے خلاف نعرے بازی اور ویڈیو بناتے رہے۔

بدھ کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں وزیراعظم عمران خان کے متوقع خطاب سے قبل پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے مابین گرما گرمی دیکھنے میں آئی۔

اپنی تقریر میں چیئرمین پی پی پی نے کہا کہ اگر حکومت بجٹ پر ووٹنگ میں دھاندلی نہیں کرتی تو دنیا دیکھتی کہ وزیراعظم کے پاس 172 ووٹس بھی نہیں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بجٹ پر قوم کے 172 نمائندوں نے ووٹ دے کر اعتماد کا اظہار کیااور جب ووٹ کی عزت کی بات آئے تو اپوزیشن اور حکومت دونوں کی جانب سے عزت ملنی چاہیے، یکطرفہ عزت نہیں ہوسکتی۔

پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے قومی اسمبلی کے اسپیکر اسد قیصر کو مخاطب کرکے کہا ہے کہ اگر آپ دھاندلی نہیں کرتے تو وزیر اعظم عمران خان کے پاس فنانس ترمیمی بل کی تحریک کے حق میں 172 ووٹ نہیں تھے۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ اگر آپ وقت نہ دیتے تو حکومت کے پاس فنانس ترمیمی بل کی تحریک منظور کرنے میں کیلئے ان کے پاس مطلوبہ تعداد نہ ہوتی لیکن اسپیکر صاحب! آپ نے ہم سے ہمارا حق چھینا ہے۔

انہوں نے اعتراض اٹھایا کہ اپوزیشن کی ترمیم کو سننے بغیر ہی مسترد کردیا جائے اور وہ بھی ایک غیر منتخب شخص مسترد کردے، حکومت کو ترمیم مسترد کرنے کا جواز پیش کرنا چاہیے تھا۔بلاول بھٹو زرداری نے اسپیکر قومی اسمبلی کو ایک مرتبہ پھر مخاطب کرکے کہا کہ آپ نے نہ صرف اس مرتبہ بلکہ مختلف مراحل میں پارلیمنٹ کے قواعد کی خلاف ورزی کی ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ یہ بجٹ سیشن ہر پاکستانی کیلئے باعث شرمندگی ہے۔

انہوں نے کہا کہ رولز کے مطابق اسپیکر قومی اسمبلی اپوزیشن کے چیلنج پر دو مرتبہ وائس آف ووٹ لے سکتا ہے لیکن تیسری مرتبہ تو ووٹوں کی گنتی ہی نہیں کی گئی، یہ جو ووٹ لیے گئے ہیں معاشی تباہی کا باعث بنیں گے۔

بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ اگر آپ گنتی کروا دیتے تو اپوزیشن کے ریکارڈ میں آجاتا اور آخری مرتبہ ووٹ کی گنتی کو چیلنج کرنے کیلئے مجھے اٹھنا تھا تاہم بدقسمتی سے آپ چلے گئے۔

انہوں نے کہا کہ ہمارا کام ہی بجٹ کی مذمت کرنا ہے لیکن آپ نے ہمارے حق کا معمولی سا بھی تحفظ نہیں کیا کیونکہ ہم زیادہ توقع رکھتے ہیں کہ آپ اپنے منصب کے تقدس کو غیر جانبدار رکھیں۔

افغانستان کی صورتحال کے حوالے سے وزیر خارجہ نے بتایا اس سلسلے میں اعتماد میں لینے کے لیے پارلیمانی کمیٹی برائے نیشنل سیکیورٹی اور اہم اپوزیشن رہنماؤں کو یکم جولائی کومدعو کیا گیا ہے جہاں انہیں اعتماد میں لیا جائیگا۔اجلا س کے دور ان سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے وضاحت کی کہ فنانس بل تمام قواعد پورے کرکے پاس کیا گیا،تحریک کے حق میں 172 اور مخالفت میں 138 ووٹ آئے تھے۔

مزید پڑھیں: وزیراعظم عمران خان نے حزب اختلاف کو انتخابی اصلاحات پر مذاکرات کی دعوت دے دی

بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے قواعد کی بات کا تذکرہ کرتے ہوئے شاہ محمود پریشی نے کہاکہ اپوزیشن اراکین نے یکے بعد دیگرے اسپیکر کی ذات کو نشانہ بنایا، ان کے طریقہ کار سے اختلاف ہوسکتا ہے جس پر ان کے چیمبر میں ملاقات کی جاتی ہے اسے تضحیک کا نشانہ نہیں بنایا جاتا۔

شاہ محمود قریشی نے چیئرمین پی پی پی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کن پارلیمانی روایات کی بات کرتے ہیں آپ، سندھ میں جہاں آپ کی حکومت ہے وہاں قائد حزب اختلاف کو تقریر کرنے کا موقع نہیں دیا، سندھ کا وزیر خزانہ اختتامی تقریر کیے بغیر رخصت ہوجاتا ہے، کیا سندھ میں اپوزیشن لیڈر کو پبلک اکاؤنٹس کمیٹ کا چیئرمین بنایا گیا۔

انہوں نے کہا کہ یہاں ہم سے تقاضے کیے جاتے ہیں، جمہوریت کا راگ الاپا جاتا ہے جبکہ سندھ میں قائمہ کمیٹیوں میں اپوزیشن کی نمائندگی ہی نہیں دی گئی۔

انہوں نے کہاکہ بجٹ پیش کرنے کے بعد اپوزیشن کو ان کے لیے مختص وقت سے زیادہ بولنے کا موقع دیا گیا ،سندھ میں اپوزیشن کو بولنے کا موقع ہی نہیں دیا جارہا۔شاہ محمود قریشی نے کہا کہ آپ جو یہاں مطالبے کرتے ہیں بہتر ہوتا کہ ہی بتاتے کہ سندھ میں یہ مثال قائم کی گئی، آئینہ دکھاتے ہیں، دیکھتے نہیں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اپوزیشن نے کٹ موشنز پیش کیے جن پر انہیں بات کرنے کا مکمل موقع دیا گیا اور جواب دیا گیا، ووٹ ہوا اب اس میں شکست ہوگئی تو اسے تسلیم کرلیں یہ بھی پارلیمانی روایت ہے۔

انہوں نے کہا کہ چیئرمین پی پی پی کن پارلیمانی روایات کی بات کرتے ہیں تو روایت تو یہ ہے کہ جب انہیں بات کرنے کا موقع دیا گیا تو بات کا جواب لیں۔ ا

نہوں نے کہاکہ یہ کونسی پارلیمانی روایت کی بات کرتے ہیں، اگر آپ سمجھتے ہیں کہ آپ غل غپاڑہ شور شرابا کر کے ہمیں دبا دیں گے تو یہ نہیں ہوگا، اس ایوان کے ماحول کو بگاڑنے کی ابتدا اپوزیشن نے کی اگر وہ عمران خان کو اپنی تقریر کرنے دیتے تو یہ نوبت نہیں آتی۔انہوں نے خبردار کیا کہ اگر عمران خان کو بات نہ کرنے دی گئی تو نہ بلاول اور نہ ہی شہباز شریف بات کریں گے، میٹھا میٹھا ہپ ہپ کڑوا کڑوا تھو تھو نہیں چلے گا۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ اگر آپ روایات پر عمل اور قواعد کی پیروی کرنا چاہتے ہیں تو ہم تیار ہیں تااہم اگر آپ ہمیں دبانا چاہیں گے تو ہم نہیں دبیں گے۔شاہ محمود قریشی کی تقریر کے دور ان اپوزیشن نے لوٹے لوٹے کے نعرے لگا تے ہوئے شدید شورشرابہ اور احتجاج کیا اس دور ان کئی وزراء پابندی کے باجود ایوان مین موبائل پر آغاء رفیع اللہ کی وڈیوز بناتے رہے۔

بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے قواعد کی بات کا تذکرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ آج اپوزیشن اراکین نے یکے بعد دیگرے اسپیکر کی ذات کو نشانہ بنایا، ان کے طریقہ کار سے اختلاف ہوسکتا ہے جس پر ان کے چیمبر میں ملاقات کی جاتی ہے اسے تضحیک کا نشانہ نہیں بنایا جاتا۔

شاہ محمود قریشی نے چیئرمین پی پی پی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کن پارلیمانی روایات کی بات کرتے ہیں آپ، سندھ میں جہاں آپ کی حکومت ہے وہاں قائد حزب اختلاف کو تقریر کرنے کا موقع نہیں دیا، سندھ کا وزیر خزانہ اختتامی تقریر کیے بغیر رخصت ہوجاتا ہے، کیا سندھ میں اپوزیشن لیڈر کو پبلک اکاونٹس کمیٹ کا چیئرمین بنایا گیا۔

انہوں نے کہا کہ یہاں ہم سے تقاضے کیے جاتے ہیں، جمہوریت کا راگ الاپا جاتا ہے جبکہ سندھ میں قائمہ کمیٹیوں میں اپوزیشن کی نمائندگی ہی نہیں دی گئی۔

انہوں نے کہاکہ بجٹ پیش کرنے کے بعد اپوزیشن کو ان کے لیے مختص وقت سے زیادہ بولنے کا موقع دیا گیا جبکہ سندھ میں اپوزیشن کو بولنے کا موقع ہی نہیں دیا جارہا۔شاہ محمود قریشی نے کہا کہ آپ جو یہاں مطالبے کرتے ہیں بہتر ہوتا کہ ہی بتاتے کہ سندھ میں یہ مثال قائم کی گئی، آئینہ دکھاتے ہیں، دیکھتے نہیں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اپوزیشن نے کٹ موشنز پیش کیے جن پر انہیں بات کرنے کا مکمل موقع دیا گیا اور جواب دیا گیا، ووٹ ہوا اب اس میں شکست ہوگئی تو اسے تسلیم کرلیں یہ بھی پارلیمانی روایت ہے۔

انہوں نے کہا کہ چیئرمین پی پی پی کن پارلیمانی روایات کی بات کرتے ہیں تو روایت تو یہ ہے کہ جب انہیں بات کرنے کا موقع دیا گیا تو بات کا جواب لیں۔

انہوں نے کہ اکہ یہ کونسی پارلیمانی روایت کی بات کرتے ہیں، اگر آپ سمجھتے ہیں کہ آپ غل غپاڑہ شور شرابا کر کے ہمیں دبا دیں گے تو یہ نہیں ہوگا، اس ایوان کے ماحول کو بگاڑنے کی ابتدا اپوزیشن نے کی اگر وہ عمران خان کو اپنی تقریر کرنے دیتے تو یہ نوبت نہیں آتی۔

انہوں نے خبردار کیا کہ اگر عمران خان کو بات نہ کرنے دی گئی تو نہ بلاول اور نہ ہی شہباز شریف بات کریں گے، میٹھا میٹھا ہپ ہپ کڑوا کڑوا تھو تھو نہیں چلے گا۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ اگر آپ روایات پر عمل اور قواعد کی پیروی کرنا چاہتے ہیں تو ہم تیار ہیں لیکن اگر آپ ہمیں دبانا چاہیں گے تو ہم نہیں دبیں گے۔شاہ محمود قریشی کی تقریر کے بعد بلاول بھٹو نے اسپیکر قومی اسمبلی سے درخواست کی کہ انہیں ذاتی وضاحت کا موقع دیا جائے اور اجازت ملنے پر کہا کہ جہاں جہاں میرا نام لیا گیا ہے میں جواب دوں گا۔

انہوں نے کہا کہ جتنا ہم ملتان کے فاضل رکن کو جانتے ہیں اتنا تو آپ بھی نہیں جانتے، ابھی عمران خان کو معلوم ہوجائے گا کہ یہ کیا چیز ہیں۔

چیئرمین پی پی پی نے کہا کہ انہوں نے بار بار میرا نام لیا لیکن میں انہیں اتنی اہمیت نہیں دیتا کہ ان کا نام لوں اور اگر وہ وزیراعظم کی تقریر کروانا چاہتے تھے تو انہیں چاہیے تھا کہ احترام کے ساتھ میری بات سنتے۔

بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ہمارے پاس لودھراں سے بہت سی خبریں آرہی ہیں، مجھے بات مکمل کرنیدیں آپ اپنا آرڈر لے کر آئیں ورنہ میں یہاں ہوں عمران خان یہاں آئیں اور تقریر کریں میں دیکھتا ہوں کہ کیسے تقریر کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اراکین کو قواعد کی پاسداری کرنی پڑے گی ورنہ یہ ایوان نہیں چلے گا، فاضل رکن ملتان نے اس پارٹی پر تنقید کی جس نے انہیں وزیر خزانہ، صدر پنجاب بنایا تھا، آپ خان صاحب کو بتائیں کہ اس شخص کو پہچانیں۔

چیئرمین پی پی پی نے کہا کہ میں انہیں بچپن سے دیکھتے ہوئے آرہا ہوں میں نے انہیں جیے بھٹو کا نعرہ لگاتے ہوئے دیکھا ہے، اپنی وزارت بچانے کے لیے میں نے اس رکن کو ‘اگلی باری پھر زرداری’ کا نعرہ لگاتے دیکھا ہے اور اب آپ دیکھیں گے کہ وہ آپ کے وزیراعظم کے ساتھ کیا کرتے ہیں۔

Related Posts