ورلڈ کپ اسکواڈیا نئے تجربات

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

 کرکٹ کو جنٹلمین گیم کہا جاتا تھا لیکن انگلستان کے گوروں کا مرغوب کھیل آج دنیا کے گلی کوچوں تک پہنچ چکا ہے، ماضی میں کئی کئی روز کے مقابلوں کے بعد نتیجہ برآمد ہوتا تھا اور تاریخ گواہ ہے کہ ماضی میں کئی مقابلے تو ایسے بھی تھے کہ جن میں ٹیمیں کئی روز کی محنت کے بعد نتیجہ نہ نکلنے پر اپنا جہاز روانہ ہونے کے خوف سے میچ ادھورا بھی چھوڑ کر چلی گئیں لیکن بعد میں ٹیسٹ میچ سکڑ کر ایک روز تک محدود ہوا تو دنیا کی دلچسپی میں کئی گنااضافہ دیکھنے میں آیا اور آج کے دور میں دنیا بھر میں ٹی ٹوئنٹی کرکٹ کا طوطی بولتا ہے۔

کرکٹ ہی نہیں بلکہ دنیا کا کوئی بھی کھیل کھلاڑی کی فٹنس کا امتحان ہوتا ہے لیکن کرکٹ چونکہ طویل دورانیہ اور صبر آزما کھیل ہے اس لئے اس میں کھلاڑیوں کی فٹنس بہت اہمیت کی حامل ہوتی ہے اوراگر ٹی ٹوئنٹی کی بات کی جائے تو یہ اور بھی زیادہ فٹنس کی متقاضی ہے کیونکہ مختصر دورانیہ کے اس کھیل میں ایک کھلاڑی کو تینوں شعبوں میں اپنی مہارت دکھانی اور منوانی ہوتی ہے لیکن اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ آپ کوٹی ٹوئنٹی میں اپنے شعبہ کے ماہر بلے بازاور گیند باز کی ضرورت نہیں ہوتی۔

کرکٹ کا کوئی بھی فارمیٹ اس میں باصلاحیت اور منجھے ہوئے کھلاڑی کھیل کا نقشہ اور نتیجہ بدلتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ دنیا کی کوئی بھی ٹیم چاہے وہ آسٹریلیا،بھارت ،نیوزی لینڈ یا انگلینڈ ہویا کوئی بھی ملک ہو،جب وہ وہاں ٹیم کا انتخاب کیا جاتا ہے تو اس میں سینئراور جونیئر کے امتزاج سے ٹیم تشکیل دی جاتی ہے۔

اس کی ایک اہم وجہ یہ ہوتی ہے کہ جونیئر کھلاڑی کئی جگہ پر دباؤ میں کھیلنے اور جیت تک جانے کیلئے اپنے سینئرز سے سیکھتے اور کھیل کے دوران دباؤ اور مشکل حالات سے نکلنے کیلئے سینئرز کا تجربہ ہی جونیئر کو مایہ ناز کھلاڑی بناتا ہے اور ٹیم کی جیت میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے۔

اس کی ایک مثال یوں بھی دیکھی جاسکتی ہے کہ 2009 کا ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ جو پاکستان نے جیتا تھا اس میں جونیئرز کے ساتھ شاہد آفریدی اور یونس خان نے جیت کی بنیاد رکھی۔ شاہد آفریدی نے ورلڈ کپ میں اپنی بہترین کارکردگی سے قومی ٹیم کو فائنل میں پہنچایا اور ایونٹ میں فتح کا تاج پاکستان کے سر پر سجانے میں اہم کردار ادا کیا۔

2007 سے لیکر آج تک جتنے بھی ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ ہوئے ہیں ان میں زیادہ تر وہی ٹیمیں کامیابی ہوئیں جن میں سینئراور جونیئر کا بہترین امتزاج تھا لیکن اگر پاکستان کی بات کی جائے تو ہمارا باوا آدم ہی نرالا ہے۔ کبھی تو ہم ٹیسٹ ٹیم میں نوآموز کھلاڑیوں کو ڈال کر ان کے کیریئر داؤ پر لگادیتے ہیں تو کبھی ورلڈ کپ جیسے میگا ایونٹ میں نامور کھلاڑیوں کو نکال کر نئے تجربات کی کوشش کرتے ہیں اور تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان کو ان بے وقت کے تجربات سے کبھی فائدہ نہیں بلکہ ہمیشہ نقصان ہی ہوا ہے۔

اس کا ہرگز مطلب نہیں کہ آپ نوجوانوں کو موقع نہ دیں بلکہ یہ نوجوان ہی ہیں آگے چل کر مستقبل کے اسٹار بنیں گے اور انہیں نوجوانوں کے دم پر پاکستان میں کرکٹ آگے بڑھے گی لیکن یہاں اہم کردار پاکستان کرکٹ بورڈ کا ہے کہ وہ اپنے کھلاڑیوں کو کس انداز سے استعمال کرتا ہےکیونکہ کل ہم نے پی سی بی کے چیف سلیکٹر محمد وسیم کی پریس کانفرنس سے کچھ نتائج اخذ کئے جس کے مطابق ایسا نہیں لگتا کہ انہوں نے مستقبل کی کوئی تیاری کی ہو۔

خوشدل شاہ اورآصف علی کو ٹیم میں شامل کرکے فہیم اشرف اورسرفراز احمد کو باہر کردیا گیا ہےجبکہ سینئرز کو نکالنے کے ساتھ ساتھ اعظم خان اور عمران خان جونیئر کو ٹیم میں شامل کرکے شعیب ملک،محمد عامر اور وہاب ریاض کو نظر انداز کردیا گیا ہے۔

محمد وسیم نے خود اپنی پریس کانفرنس میں اقرار کیا کہ بطور چیف سلیکٹر نامور کھلاڑیوںکو باہر کرکے نوآموز کھلاڑیوں کو ٹیم میں شامل کرنا ایک مشکل فیصلہ تھا لیکن یہ ہماری ڈیوٹی ہے ، ان کے مطابق اگر 4سے 5ہارڈ ہٹر کھلاڑیوں کے پول میں اگر سب کی پرفارمنس برابر ہوتو اس بات کو ترجیح دی جاتی ہے کہ انٹرنیشنل میچز میں کس کا تجربہ زیادہ ہے۔

پی سی بی نے تمام تر چیزوں کے باوجود آصف علی اور خوشدل شاہ کو میگا ایونٹ کیلئے ٹیم میں شامل کرلیا ہے جبکہ ان دونوں کھلاڑیوں کو کئی بار انٹرنیشنل میچز میں قومی ٹیم کی طرف سے موقع دیا جاچکا ہے لیکن یہ دونوں کھلاڑی خاطر خواہ کھیل پیش کرنے میں ہمیشہ ناکام رہے ۔ چیف سلیکٹر کی منطق اور توجیحات کو دیکھا جائے تو یہ دونوں کھلاڑی کسی صورت ورلڈ کپ کیلئے موزوں قرار نہیں دیئے جاسکتے لیکن شومئی قسمت کہ یہ دونوں ٹیم کا حصہ ہیں۔

اگر سندھ کے دانش عزیز کو دیکھا جائے تو وہ حالیہ پی ایس ایل یا کشمیر پرئمیر لیگ میں بطور ہارڈ ہٹراور مڈل آرڈر بلے باز کے طور پر انہوں نے اپنی صلاحیتوں کا بھرپور لوہا منوایا ہے لیکن وہ ٹیم تو درکنار اسکواڈ کا حصہ بننے کے بھی اہل نہیں ٹھہرے اور اس کے ساتھ ساتھ چیف سلیکٹر نے حارث رؤف کی تعریفوں کے پل باندھ دیئے اور یہ تک کہہ ڈالا کہ حارث رؤف ڈیتھ اوور ز کے دنیا کے بہترین باؤلرز میں سے ایک ہیں اور انہوں نے پاکستان کو کئی بار میچز میں فتح دلوائی ہے لیکن اگر ایسی ہی بات ہے تو مداح حارث رؤف سے مایوس کیوں رہتے ہیں اور ان کو رنز مشین کا لقب کیوں دیا گیا ہے۔

محمد عامر جو ریٹائرمنٹ کا اعلان کرچکے ہیں وہ دوبارہ انٹرنیشنل کرکٹ میں واپسی کیلئے پرتول رہے ہیں تو پی سی بی کو ان سے ضرور رابطہ کرکے ٹیم میں شامل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے تھی کیونکہ پاکستانی عوام کی ایک بڑی تعداد انہیں ٹیم میں واپس دیکھنا چاہتی ہے اور اگر ان کی پرفارمنس کی بات کی جائے تو عصر حاضر کے تیز گیند بازوں میں محمد عامر ایک بہت نمایاں نام ہے اور دنیا کے ان چندکھلاڑیوں میں ان کا شمار ہوتا ہے جو کسی بھی وقت میچ کا پانسہ پلٹ سکتے ہیں اور محمد عامر بارہا اپنی پرفارمنس سے یہ ثابت کرچکے ہیں۔

پاکستان نے نیوزی لینڈ، انگلینڈسیریز اور ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ کیلئے جس15 رکنی اسکواڈ کا اعلان کیا ہے وہ ٹیم بظاہر نوجوانوں پر مشتمل دکھائی دیتی ہے ،ایک محمد حفیظ ہی سینئر کھلاڑی ہیں جو اس ٹیم کا حصہ ہیں دلچسپ بات تو یہ ہے کہ قومی ٹیم کے کپتان بابر اعظم نے بھی ٹیم کے اعلان پر ناراضگی کا اظہار کیا ہے اور اطلاعات یہ ہیں کہ اس اسکواڈ کو آنیوالے ممکنہ چیئرمین رمیز راجہ نے حتمی شکل دی ہے۔

اب اگر چیئرمین ٹیم کے اسکواڈ کا اعلان کرینگے تو کپتان سے آپ یہ توقع کیسے رکھ سکتے ہیں کہ وہ آپ کو کسی میگا ایونٹ یا سیریز میں مطلوبہ نتائج فراہم کریگا کیونکہ ہار کے بعد ہمیشہ کی طرح ایک دوسرے پر الزام تراشی کی جائیگی کہ ٹیم میری پسند کی نہیں تھی اور نتیجہ یہ ہوگا کہ چیف سلیکٹر کو ہٹا کر معاملہ ہمیشہ کی طرح دبادیا جائیگا کیونکہ چیئرمین کو کچھ کہنا شیر کی کچھار میں ہاتھ ڈالنے کے مترادف ہوگا۔

Related Posts