ورلڈکپ اور سوشل میڈیا

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

 23اکتوبر 2021 ء کو ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ آغاز کے بعد پاکستان کرکٹ ٹیم نے پہلی بار اپنی تمام سابقہ روایات کو توڑتے ہوئے اس بار شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سب سے پہلے فائنل فور میں جگہ بناکر جہاں ناقدین کو انگلیاں دانتوں تلے دبانے پر مجبور کیا ہے وہیں اس ایونٹ میں سب سے مضبوط ٹیم ہونے کا ایک انمٹ نقش بھی چھوڑا ہے۔

اس عالمی مقابلے سے پہلے جب ٹیم کا چناؤ ہوا تو ہمیشہ کی طرح شائقین یا مخالفین نے بہت شور مچایا کہ حارث رؤف تو بہت مارکھاتا ہے، آصف علی کی تو جگہ نہیں بنتی لیکن ہم نے دیکھا کہ پاکستان کو اس عالمی مقابلے میں ناقابل شکست بنانے میں ان دو کھلاڑیوں نے نمایاں کردار ادا کیا اور دلچسپ بات تو یہ کہ 4 میں سے دو مقابلوں میں حارث رؤف اور آصف علی مرد میدان قرار پائے۔

اس سے ایک بات واضح ہوتی ہے کہ بیشک کھیل اورمداح دونوں ایک دوسرے کیلئے لازم وملزم ہیں لیکن پاکستانی مداح اکثر پسند و ناپسند کی بنیاد پر بہت زیادہ آگے نکل جاتے ہیں اوربورڈ اور سلیکشن کمیٹی کو اس بار قومی ٹیم کی فتوحات کا کریڈٹ نہ دینا زیادتی ہوگی کیونکہ ٹیم سلیکشن میں کمیٹی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور سلیکٹرز نے کئی تبدیلیوں کے بعد بالآخر ایسی ٹیم اتاری جس نے ماضی کے برعکس پاکستان ٹیم کو عالمی مقابلوں میں اگر مگر کے درد سر کے بجائے فیورٹ کے مقام پر لاکھڑا کیا ہے۔

شائقین کا مقام اور عزت اپنی جگہ حقیقت ہے لیکن مداحوں کو ایک بات ہمیشہ ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ کبھی بھی کوئی بھی چیز مستقل نہیں ہوتی۔ ہم نے ویسٹ انڈیز کا عروج بھی دیکھا اور زوال بھی سامنے ہے، پاکستان کی لڑکھڑاہٹ بھی دیکھی اور آج کا مقام بھی نمایاں ہے۔

اسی طرح اگر بھارت کی بات کریں تو بھارت بلاشبہ دنیا کی سب سے مضبوط کرکٹ ٹیم ہے اور بھارت کا کرکٹ اسٹرکچر پوری دنیا کیلئے ایک نمونہ ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ کسی بھی ٹیم یا کھلاڑی کیلئے ہمیشہ ایک جیسا کھیل پیش کرنا ممکن نہیں ہے۔

ہم نے برائن لارا، سچ ٹنڈولکر کو گیند سے الجھتے دیکھا ہے اور وسیم اکرم اور کورٹنی والش کو چھکے کھاتے بھی شائقین دیکھ چکے ہیں اور عالمی کرکٹ پر راج کرنے والی ویسٹ انڈین ٹیم کو اپنی ساکھ بچانے کی جنگ کرتے بھی دنیا چکی ہے تو ایسے میں ٹیم انڈیا اگر برا کھیل گئی تو اس میں کیا نیا تھا۔

اس میں کوئی شک یا دو رائے نہیں کہ بھارتی کرکٹ ٹیم آئی پی ایل کی وجہ سے اس وقت ٹی ٹوئنٹی کیلئے فیورٹ ٹیم بن چکی ہے اور ناصرف بھارت بلکہ دنیا کے کئی نامور کھلاڑی انڈین پرئمیر لیگ کی بھٹی میں پک کر کندن بن چکے ہیں لیکن اس ایک ایونٹ میں بری کارکردگی پر آئی پی ایل پر پابندی اور بھارتی کھلاڑیوں کی ذات کو نشانہ بنانا کھیل کی روح کے خلاف ہے۔

ایسا بالکل نہیں کہ شائقین ہمیشہ غلط ہوں ، پاکستان میں فواد عالم ایک دہائی کے بعد اگر آج دوبارہ قومی کرکٹ ٹیم کا حصہ بنے تو اس کا کریڈیٹ شائقین کو ہی جاتا ہے جبکہ ویرات کوہلی اور روہت شرما دونوں ایسے کھلاڑی ہیں جنہوں نے ٹیم انڈیا کیلئے گرانقدر خدمات انجام دی ہیں اور یہ دونوں کھلاڑی شاندار ریکارڈ رکھتے ہیں اور کسی بھی وقت میچ کا نقشہ بدلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں لیکن ایک ایونٹ میں برے کھیل کی وجہ سے انہیں سنگین دھمکیاں دینا کسی صورت مناسب نہیں ہے۔

کھیل ہو یاجنگ کا میدان ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ سامنے والا بھی انسان ہے اور اس سے بھی غلطی یا کوتاہی ہوسکتی ہے اور یہ بھی یاد رکھیں کہ کوئی بھی انسان دانستہ غلطی نہیں کرتا اور خاص طور پر جب انٹرنیشنل لیول پر ذمہ داری ہوتو ہر انسان اپنا سوفیصد دینے کی کوشش کرتا ہے اور بعض اوقات کامیاب اور کبھی ناکام بھی ہوسکتا ہے ۔ ایسے میں شائقین کا رویہ اپنے ہیروز کیلئے بہت اہمیت رکھتا ہے۔

اگر آپ کا رویہ مثبت ہوگا تو ہارنے والا اگلی بار جیت کیلئے سردھڑ کی بازی لگاکر آپ کی امیدوں پر پورا اترنے کی کوشش کریگا لیکن اگر آپ کا رویہ منفی ہوگا تو کھلاڑی بدل ہوکر یا تو میدان چھوڑ جائیگا یا اس کی پرفارمنس پہلے سے بھی بدتر ہونے کا خدشہ ہوگا۔

شائقین کو چاہے کہ آپ کسی بھی چیز میں اعتدال کا مظاہرہ کریں کیونکہ شائقین کے منفی رویوں کی وجہ سے کھلاڑیوں نے سوشل میڈیا کا استعمال ترک کررکھا ہے۔

شائقین کھیل اور کھلاڑی کیلئے وسیع القلبی کا مظاہرہ کرتے ہوئے جیت پر تعریف کے ساتھ ہار پر برداشت کا حوصلہ بھی پیدا کریں تاکہ کھلاڑیوں کو بھی حوصلہ ملے اور مزید اچھی پرفارمنس کے ساتھ ساتھ معمول کی زندگی بھی گزار سکیں۔

Related Posts