پاکستانی ٹیم کے ہارنے پر افغان کیوں خوش ہوئے؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

ہم کابل کے ایک بارونق علاقہ میں تھے۔ مجید مال نامی ایک کئی منزلہ بڑے شاپنگ پلازہ کے گراﺅنڈ فلور پر ترک بیکری تھی، جہاں ترکش مٹھائیاں اور بیکری آئٹمز ملتے ہیں۔ اسی پلازہ کی چوتھی منزل پر وہ ترک ریستوران تھا، جہاں ہمیں آج اپنا ڈنر کرنا تھا۔

یہاں ترک افغان کیوزین پر مشتمل ایک شاندار ڈنر ہمارا منتظر تھا، مگر ہم اوپر جانے کے بجائے نیچے کھڑے تھے۔ ہوٹل والوں نے نیچے بڑی سکرین لگا کر کرکٹ میچ دکھانے کا اہتمام کیا تھا۔ متعدد افغان نوجوان کرسیوں پر بیٹھے میچ دیکھ رہے تھے، غالباً وہاں بیٹھنے کے لئے قہوہ، کافی یا شیشہ وغیرہ منگوانا لازمی تھا، یہ لوازمات ہر ایک کی میز پر سجے تھے۔ افغان نوجوان قہوے کی چسکیاں لیتے کرکٹ میچ دیکھ رہے تھے۔

یہ ایشیا کپ کا فائنل میچ تھا، سری لنکا اور پاکستان کے مابین۔ سری لنکن بیٹنگ کر رہے تھے، پاکستان کی پوزیشن مضبوط تھی، کم سکور پر پانچ کھلاڑی آﺅٹ کر لئے تھے، میں نے محسوس کیا کہ کہ افغان نوجوان کچھ زیادہ خوش نہیں۔ اچانک ایک سری لنکن بلے باز نے اونچاشاٹ کھیلا، شاداب خان جو پاکستان کے اچھے فیلڈروں میں سے ایک ہیں ، گیند کی طرف بھاگے مگر کیچ عین وقت پر ان کے ہاتھ سے پھسل گیا۔ اچانک فضا تالیوں اور پرمسرت نعروں سے گونج اٹھی، افغان اس پر خوشی منا رہے تھے۔

حیرت سے میں نے اپنے ساتھ کھڑے دیگر دو ساتھیوں کی طرف دیکھا۔ جلد ہی اندازہ ہوگیا کہ افغان آڈینس سو فی صد سری لنکا کے ساتھ تھی۔ ان کے ہر چوکے ، چھکے پر باقاعدہ تالیاں گونجتی اور سیٹیاں بجائی جاتیں، پاکستانی کھلاڑی وکٹ لیتے تو” اوہ“ کی متاسف آواز گونجتی۔ جلد ہی ہم نے فیصلہ کیا کہ یہیں کھڑے میچ دیکھنے کے بجائے اوپر جا کر ڈنر کے مزے لئے جائیں۔ میچ کا نتیجہ پاکستان کے خلاف نکلا، پاکستان ہار گیا۔ ہم لوگ ڈنر کے بعد اپنی مصروفیت میں الجھ گئے ، غور نہیں کیا، مگر مجھے یقین ہے کہ جس طرح افغان خوشی منا رہے تھے، کوئی بعید نہیں کہ انہوں نے ہوائی فائرنگ یا آتش بازی وغیرہ بھی کی ہو۔

سچی بات ہے کہ اس رات جو ہم نے دیکھا، اس نے افسردہ کر دیا۔ یہ سوال اپنے کابل قیام کے دوران بہت لوگوں سے پوچھا کہ آخر ایک عام افغان پاکستانی ٹیم کی ہار پر خوش کیوں تھا؟ ہم نے ان کا کیا بگاڑا ہے؟ کیا اس لئے کہ پاکستانی ٹیم نے افغان ٹیم کو ہرایا تھا یا ہمیشہ ایسا ہی ہوتا ہے؟
اس سوال کے ہمیں کئی جواب ملے، ان پر بات کرتے ہیں، مگر یہ بہرحال اپنی جگہ حقیقت ہے کہ افغان نوجوان کی بڑی تعداد پاکستانی ٹیم کی ہارکی خواہش مند اور اس پر خوش تھی۔ اس کی تین چار وجوہات ہوسکتی ہیں۔
ایک بڑی وجہ تو شائد نفسیاتی ہو ۔ افغان کرکٹ ٹیم پر پاکستان کے گہرے اثرات ہیں، کئی افغان کھلاڑی اپنے بچپن، لڑکپن میں پاکستان میں کھیلتے رہے ہیں، افغان کرکٹ ٹیم کے ابتدائی کوچ بھی پاکستانی تھے، کبیر خان وغیرہ، بعد میں انضمام الحق بھی رہے، آج کل بھی باﺅلنگ کوچ عمر گل ہیں۔ جس طرح ہر نوزائیدہ ٹیم کی خواہش ہوتی ہے کہ اپنے سے سینئر اور بڑی ٹیم کو ہرائے، یہ خواہش افغان کرکٹ ٹیم میں ہونا فطری ہے، افغان کرکٹ شائقین بھی یقینی طور پر یہ سوچتے ہیں۔

اسے یوں سمجھ لیجئے کہ قیام پاکستان کے بعد بھارتی کرکٹ ٹیم اور ان کے کھلاڑی پاکستانی کھلاڑیوں کا مذاق اڑاتے تھے، پھر جب پاکستان نے فضل محمود، نذر محمد وغیرہ کی غیر معمولی کارکردگی کے طفیل بھارت کو ہرایا توگویا ایک کرشمہ تخلیق ہوا۔ پاکستان اور انڈیا دونوں کی ٹیموں کو انگلینڈ ٹیم لفٹ نہیں کرایا کرتی تھی۔ انگلینڈکے کھلاڑیوں کو یہ زعم تھا کہ کرکٹ انہوں نے ایجاد کیا اور وہ بہت اعلیٰ پروفیشنل کرکٹ کھیلتے ہیں۔ جب پاکستان نے پہلی بار اوول، انگلینڈ میں فضل محمود کے جادوئی سپیل کے باعث انگلش ٹیم کو ہرایا تو ہر جگہ دھوم مچ گئی۔ بعد میں عمران خان کی ٹیم نے بھی انگلینڈ کو ہرایا اور وہ آج تک گوروں کو ہرانے کا کریڈٹ لیتے ہیں ۔یہ عین ممکن ہے کہ افغان کرکٹ ٹیم بھی پاکستان کو اسی انداز میں ہر حال میں ہرانا چاہتی ہوں، اپنے اعتماد کی بحالی اور اپنی نفسیاتی برتری ثابت کرنے کے لئے۔

ایک فیکٹر بہرحال یہ بھی ہے کہ افغانستان کے اندر، خاص کر ان کی نوجوان نسل میں پاکستان مخالف جذبات اور احساسات وافر مقدار میں موجود ہیں۔ اس کی ایک وجہ تو بیس سالہ امریکی دورحکومت ہے۔ اس بیس برسوں کے دوران افغان میڈیا کو بہت ترقی ملی، بے شمار نیوز چینلز، اخبارات اور ایف ایم ریڈیو کھلے۔ان میں سے بیشتر چینلز، اخبارات، میڈیا ہاﺅسز فارن فنڈڈ تھے ۔ امریکی، یورپی ، ایرانی، انڈین حلقوں کی جانب سے انہیں فنڈ کیا جاتا رہا۔

افغانستان میں اشتہاری انڈسٹری نہ ہونے کے برابر ہے، یہ ممکن ہی نہیں کہ صرف اشتہارات سے اتنا ریونیو ملے کہ یہ سب چینل چل سکیں۔ اس لئے ان کا زیادہ تر انحصارمختلف طریقوں سے حاصل کردہ فارن فنڈز پر رہا۔ بدقسمتی سے پاکستان وہ واحد ملک ہے جس نے افغان میڈیا پر کوئی انویسٹمنٹ نہیں کی، کسی بھی صورت میں اپنا تعلق، اثرورسوخ پیدا نہیں کیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہواہر چینل، اخبار اور ایف ایم ریڈیو پر پاکستان کے خلاف مسلسل زہر یلا پروپیگنڈہ چلتا رہا۔

افغان نوجوان نسل میڈیا اور(کرزئی، اشرف غنی) حکومتوںکا پروپیگنڈہ سن سن کر بڑی ہوئی ۔یہ سمجھ لیں کہ جو بچہ نائن الیون کے وقت پانچ برس کا تھا، اب وہ پچیس سال کا ہے، اس کی یاداشت اور حافظے میں گزرے بیس برس کا اگلا ہوا زہر موجود ہے۔ وہ پاکستان کو افغانستان کا نمبرون دشمن سمجھتا ہے جس نے ہمیشہ افغانستان کو غیر مستحکم کرنے کی سازشیں کیں۔
چوتھا بڑا فیکٹر یہ ہے کہ کابل روایتی طو رپر پاکستان مخالف شہر رہا ہے، یہاں تاجک آبادی اکثریت میں آباد ہے ، امریکہ کے بیس برسوں میں تاجک زیادہ خوشحال ہوئے اور سرکاری، نجی ملازمتوں، کاروبار وغیرہ میں بہت آگے آ گئے۔ یہ تاجک اینٹی طالبان موقف اور سوچ رکھتے ہیں۔ ماضی میں طالبان انہی تاجک کمانڈروں اور تاجک آبادی کے ساتھ نبردآزما رہی ہے۔ احمد شاہ مسعود تاجک تھا، مارشل فہیم ، عبداللہ عبداللہ وغیرہ تاجک آبادی کے نمائندہ ہیں۔
اسے دلچسپ بات کہیں یا ستم ظریفی کہ یہ سب تاجک، ہزارہ، ازبک وغیرہ نے امریکی دور میں ترقی کی، خوشحالی پائی، اقتدار میں اپنے جائز شیئر سے زیادہ حصہ پایا، مگر انہیں یہ خطرہ دامن گیر تھا کہ جیسے ہی طالبان واپس آئیں گے، ہمارا یہ سب کچھ ہاﺅس آف کارڈز کی طرح بکھر جائے گا، ہمارے ہاتھ کچھ نہیں رہے گا۔
مجھے یاد ہے کہ دو ہزار پندرہ میں کابل گیا تو ایک سیمینار میں کئی افغان مقررین نے یہ بات کی کہ پاکستان طالبان کو سپورٹ کر رہا ہے، لیکن یہ بات واضح ہے کہ اگر طالبان واپس آ گیا تو ہمارا یہ(پرتعیش) لائف سٹائل ، خوشحالی اور مزے سب کچھ فوری طور پر صفر ہوجائیں گے، ہمارے ہاتھ کچھ بھی نہیں رہے گا۔
ممکن ہے طالبان رہنماﺅں یا ان کے حامیوں کی رائے مختلف ہو، مگر ایک تلخ حقیقت بہرحال یہ ہے کہ جس خطرے کا اظہار کئی برس پہلے کیا گیا تھا، ویسا ہی ہوا ہے۔ وہ لوگ جو پہلے چھائے ہوئے تھے، آج صفر ہوگئے ، بیشتر کو ملک سے فرار ہونا پڑا۔یہ سب اب تلملا رہے ہیں اور پاکستان ان کا نمبر ون ہدف ہے۔
کابل کی نسبت دیہی علاقوں خاص کر پکتیا، پکتیکا، خوست، ننگرہار ، لوگر وغیرہ میں پشتون بڑی تعداد میں آباد ہیں، ان میں سے بے شمار پاکستان میں بطور مہاجر رہے، آج بھی بہت سوں کا ایک گھر پاکستان ، دوسرا افغانستان میں ہے۔ ان کا رویہ زیادہ عملی، منطقی اور ہمدردانہ ہے۔ مجھے کئی ایسے لوگ ملے، جنہوں نے تاسف سے کہا کہ ان لڑکوں کو کچھ سمجھ نہیں ہے، سری لنکا تو غیر مسلم ملک ہے جبکہ پاکستانی ہمارے مسلمان بھائی ہیں۔ انہیں کرکٹ میچ میں پاکستان کو سپورٹ کرنا چاہیے تھا۔دلچسپ بات یہ ہے کہ ان علاقوں کے فارسی بولنے والوں کا رویہ بھی کابل کے فارسی بان سے مختلف اور پاکستان کے لئے زیادہ دوستانہ تھا۔
باغ بابر جہاں مغل بادشاہ ظہیر الدین بابر کا مقبرہ ہے، وہاںگھومنے گئے توایک طالب علم ملا، وہ کابل یونیورسٹی میں ایگری کلچرسائنس پڑھ رہا تھا۔ یہ نوجوان تاجک تھا ، فارسی بولنے والا۔ اپنی ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں اس نے ہمارے ساتھ مکالمہ کیا اور دلچسپ معلومات فراہم کیں۔ میں نے اس سے کرکٹ میچ کے بارے میں ڈائریکٹ سوال پوچھ لیا تو وہ جھینپے ہوئے انداز میں مسکرا کر بولا سچی بات ہے کہ میں نے بھی سری لنکا کی حمایت کی تھی، ہمیں غصہ تھا کہ پاکستان نے افغانستان کی ٹیم کو ہرایا، نسیم شاہ کے آخری دو چھکوں پر غصہ تھا۔ اس لڑکے نے مگر بتایا کہ اسکے والدین، بہن وغیرہ پاکستانی ٹیم کی حامی تھی، جن کا کہنا تھا کہ پاکستان ہمارا ہمسایہ اور مسلمان ملک ہے، اسے سپورٹ کرنا چاہیے، سری لنکاویسے غیر مسلم ہے اور اس سے ہمارا کیا لینا دینا۔
اس حوالے سے ایک دلچسپ رویہ طالبان رہنماﺅں کا بھی ہے۔ طالبان کے میڈیا افیئرز کے سربراہ مفتی انعام اللہ سمنگانی نے بتایا کہ انہوں نے میچ سے قبل ایک ٹوئیٹ کیا، جس میں لکھا کہ یہ کرکٹ میچ ہے، پانی پت کی جنگ نہیں، اسے میچ ہی رہنے دیں اور لطف اٹھائیں۔ مفتی سمنگانی صاحب کے بقول اس ٹوئٹ پر بیرون ملک مقیم افغان جن میں اکثریت طالبان مخالف ہے، انہوں نے بڑا ٹرول کیا اور خوب اودھم مچایا، ان کا کہنا تھا کہ نہیں یہ میچ نہیں بلکہ پانی پت کی جنگ ہی ہے اور افغانستان کو یہ جنگ جیتنی چاہیے وغیرہ وغیرہ۔ بعض اور طالبان رہنماﺅں نے بھی میچ سے پہلے اور بعد میں اسی انداز کے مثبت ٹوئٹس کئے اور کوشش کی کہ کشیدگی کم کی جائے۔
سوشل میڈیا پر نظر رکھنے والے ہمارے بعض پشتون صحافی دوستوں نے بتایا کہ بیرون ملک موجود سیکولر افغان لابی بہت مضبوط اور نہایت متحرک ہے۔ ان میں سے بہت سے امریکی ایگزٹ کے ساتھ ہی باہر نکل گئے اور اب وہ اپنی جھنجھلاہٹ، غصہ اور ناراضی ٹوئٹس کی صورت میں نکالتے ہیں۔عرب امارات میں ہنگامہ کرنے اور پاکستانی شائقین پر کرسیاں پھینکنے والے بھی ایسے ہی طالبان مخالف افغان تھے۔
جب ہماری ملاقات طالبان کے آفیشل ترجمان ذبیح اللہ مجاہد سے ہوئی تو میں نے یہ نکتہ اٹھاتے ہوئے انہیں مشورہ دیا کہ ایک حل یہ ہے کہ پاک افغان کرکٹ تعلقات بہتر بنائے جائیں، افغان ٹیم پاکستان کا وزٹ کرے، پاکستانی ٹیم افغانستان جائے، اے ٹیم اور انڈ ر نائنٹٹین سطح پر بھی ٹیموں کے میچز ہوں۔ زیادہ کرکٹ ہوگی تو یہ کشیدگی ازخود ختم ہوجائے گی اور لوگ ان میچز کے عادی ہوجائیں گے، تب وہ اسے کرکٹ ہی سمجھیں گے اورہار جیت پر مشتعل ہونے کے بجائے اچھے کھیل کا لطف لیں گے۔
مجاہد صاحب نے اس تجویز پر مسرت کا اظہار کیا، ان کا کہنا تھا کہ ہم پہلے ہی اس بارے میں خاصا کچھ کرنا چاہتے ہیں، یہ آئیڈیا اچھا ہے، اس پر عمل درآمد کی کوشش کرتے ہیں۔ اللہ کرے چیزیں بہتر ہوں، سردست تو ہمارے جیسے لوگ پاک افغان میچوں کے درمیان کشیدگی اور میچ کے بعد درآنے والی مخاصمت کی لہر پر دکھی ہوجاتے ہیں۔

Related Posts