عمران خان نو حلقوں سے الیکشن کیوں لڑ رہے ہیں؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

عمران خان نے ضمنی انتخابات میں قومی اسمبلی کے تمام نو حلقوں سے خود الیکشن لڑنے کا اعلان کر کے ہر ایک کو حیران کر دیا ہے۔
پی ڈی ایم جماعتوں ، میڈیا اور سیاسی کارکنوں کے ساتھ ساتھ یہ تحریک انصاف کے رہنماﺅں کے لئے بھی سرپرائز ہے۔ کسی کو اس اقدام کی توقع نہیں تھی۔ شاہ محمود قریشی نے تو ملتان کی خالی سیٹ سے اپنی صاحبزادی کو الیکشن لڑانے کا اعلان بھی کر دیا تھا، اسی طرح دیگر حلقوں میں بھی تحریک انصاف کے امیدواران پر تول رہے تھے۔ عمران خان کا خود میدان میں اترنا سب کے لئے حیران کن ثابت ہوا۔

روایت نئی نہیں

پاکستانی سیاست میں چار پانچ حلقوں سے بیک وقت الیکشن لڑنے کی روایت نئی نہیں، کئی رہنما ایسے کرتے رہے ہیں۔ بھٹو صاحب نے ایسا کیا تھا، وہ سندھ کے علاوہ پنجاب اور سرحد سے بھی لڑے تھے ۔ محترمہ بے نظیر نے بھی ایسا کیا، وہ لاڑکانہ کے ساتھ لاہور اور ایک بار پشاور سے بھی الیکشن لڑیں۔ میاں نواز شریف بھی ایسا کرتے رہے۔
عمران خان نے بھی کئی بار ایسا کیا۔ پچھلے عام انتخابات میں بھی وہ پانچ جگہوں سے الیکشن لڑے تھے ، جن میں اسلام آباد کے علاوہ میانوالی، لاہور، کراچی اور بنوں شامل ہیں۔وہ پانچوں سیٹیں جیت بھی گئے تھے اور بعد میں میانوالی کی سیٹ برقرار رکھی۔ جولائی اٹھارہ کے الیکشن میں جمشید دستی سات قومی اور صوبائی کے حلقوں سے لڑے تھے اور ایک بھی نہ جیت سکے۔ ایک زمانے میں میر مرتضیٰ بھٹو نے سندھ کی دو درجن کے لگ بھگ نشستوں سے الیکشن لڑا تھا، مقصد پیپلزپارٹی کے لئے مشکلات پیدا کرنا تھا، اگرچہ انہیں بمشکل ایک نشست ملی ، وہ بھی بیگم نصرت بھٹو کی کوشش سے۔
عمران خان کا ضمنی الیکشن لڑنااس اعتبار سے مختلف اور دلچسپ ہے کہ وہ اسمبلی سے استعفے دے چکے ہیں اور ان کا خود یا اپنے دیگر ارکان اسمبلی کو قومی اسمبلی بھیجنے کا کوئی ارادہ نہیں۔ ان کا مطالبہ عام انتخابات کرانا ہے، وہ قومی اسمبلی کے ضمنی انتخابات میں دلچسپی نہیں رکھتے ،انہیں مجبوراً ایسا کرنا پڑ رہا ہے۔ اسی وجہ سے کئی سوالات پیدا ہوئے ہیں۔ کوشش کرتے ہیں کہ ان کا جائزہ لیں۔
ایکشن نہیں ری ایکشن ہے
عمران خان کا نو حلقوں سے الیکشن لڑنے کے بارے میں پہلے یہ سمجھ لینا چاہیے کہ یہ ایکشن نہیں ، ری ایکشن ہے یعنی یہ دراصل ردعمل ہے حکومت کی پولیٹیکل موو کا۔ اس لئے عمران خان پر تنقید کرنے سے پہلے اس عمل پر بات کرنی ضروری ہے ، جس کے ری ایکشن میں ایسا کرنے کی نوبت آئی۔ اس کے بغیر کچھ کہنا دیانت داری اور انصاف نہیں ہوگا۔
چالاکی پر مبنی حکومتی موو
میرے نزدیک حکومت کی پولیٹیکل مووضرورت سے زیادہ چالاکی پر مبنی ہے، اسی لئے وہ غلط اور ڈرٹی موو ہے۔ تحریک انصاف کے سوا سو کے قریب ارکان اسمبلی نے پانچ ماہ قبل اپنی نشستوں سے استعفے دے دئیے تھے۔ تحر یک انصاف نے کوشش کی کہ تب قائم مقام سپیکر قاسم سوری ان استعفوں کو منظور کر الیکشن کمیشن کو بھجوا دیں تاکہ یہ سیٹیں خالی ہوجائیں۔ الیکشن کمیشن کا جھکاﺅ واضح طور پر پی ڈی ایم حکومت کی طرف اور عمران خان کے خلاف ہے۔ اسی لئے یہ استعفے ابھی تک منظور نہیں ہوئے۔ قومی اسمبلی کے موجودہ سپیکر راجہ پرویز اشرف نے دعویٰ کیا کہ تکنیکی وجوہات کی بنا پر استعفے منظور نہیں ہوئے تھے اور اب میں انہیں خود تصدیق کر کے منظور کروں گا۔
عملی طور پر راجہ پرویز اشرف نے اس حوالے سے کوئی بھی قدم نہیں اٹھایا۔ یہ عجیب وغریب بات ہے۔ ہم سب کہیں نہ کہیں کام کرتے ہیں یا ہمارے پاس کوئی کام کرتا ہے۔ جب بھی کوئی استعفا دے دے ، اسے منظور نہ کرنے کا کوئی جواز یا دلیل موجود نہیں۔ فوری طور پر استعفا منظور کر لیا جاتا ہے۔ نجانے قومی اسمبلی کے سپیکر کو یہ سادہ بات سمجھ نہیں آ رہی۔ اگر انہیں یہ شبہ ہے کہ تحریک انصاف کے کسی رکن اسمبلی کا استعفا جعلی طور پر جمع کرایا گیا تو ان تمام کے فون نمبرز، ای میل، ایڈریس قومی اسمبلی کے ریکارڈ میں موجود ہیں۔ سینکڑوں افراد کا عملہ موجود ہے۔ چند گھنٹوں یا زیادہ سے زیادہ تین چار دنوں میں انہیں فون، واٹس ایپ، ای میل اور خط لکھ کر تصدیق کی جا سکتی ہے۔ وہ ایم این اے ہیں کوئی نابالغ بچے نہیں کہ سپیکر انہیں اپنے چیمبر میں بلا کر انٹرویو کر کے پھر تصدیق کرے گا۔ سپیکر نے اس کے باوجود دانستہ طور پر بدنیتی سے استعفے منظور نہیں کئے ۔
استعفے اچانک کیوں منظور کئے گئے ؟

ملین ڈالر سوال ہے کہ حکومت نے چلیں اگر استعفے منظور نہیں کئے، غلط کیا، مگر پھر بھی کہہ لیں کہ معاملہ لٹکا ہوا تھا، اب اچانک سے گیارہ استعفے کیوں منظور کر لئے ؟(کل گیارہ استعفے منظور کئے گئے، مگر دو مخصوص نشستیں ہیں، اس لئے الیکشن صرف نو پر ہوگا۔) اس سے بھی زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ کس بنیاد اور معیار پر استعفے منظور کئے گئے ؟ یہ دونوں سوال بہت اہم ہیں۔
سپیکر کے لئے آسان طریقہ یہ تھا کہ حروف تہجی (الفا بیٹیکل)کے اعتبار سے استعفے منظور کرنا شروع کر دیتے، پہلے اے سے شروع ہونے والے نام پھر بی اور سی ، ڈی ….۔ اگر ایسا کیا جاتا تو منطقی اور قابل فہم ہوتا۔ اگر کسی ایک صوبے سے تعلق رکھنے والے ارکان اسمبلی کے استعفے منظور کئے جاتے تو پھر بھی کوئی معیار یا پیمانہ ہوتا۔
پی ڈی ایم حکومت اور ان کے سپیکر نے اس کے برعکس نہایت بدنیتی کی بنیاد پر پورے ریکارڈ کو کھنگالا اور وہ نو حلقے تلاش کئے جہاں تحریک انصاف کی جیت کا مارجن بہت کم تھا، ڈیڈھ دو ہزار کا فرق ۔ وہ بھی ملک بھر کے مختلف حلقوں میں۔ یعنی پہلے یہ پلاننگ کی گئی کہ کہاں کہاں تحریک انصاف نے مشکل سے سیٹ جیتی تھی، وہاں پی ڈی ایم کی پارٹیوں کا اثرورسوخ زیادہ ہے اور اب وہاں الیکشن جیتا جا سکتا ہے۔ پوری تحقیق کے بعد ان سیٹوں پر استعفے منظور کر کے الیکشن کمیشن کو بھجوائے گئے، جس نے فوری ضمنی الیکشن کا اعلان کر دیا۔ یہ صرف کہانی بیانی نہیں کی جارہی بلکہ پی ڈی ایم کے بعض رہنماﺅں نے خود ٹی وی انٹرویوز میں بڑے فخر سے یہ بتایا ہے۔
حکومتی موو کا مقصد
اس کے دو مقاصد ہیں۔ ایک تو تحریک انصاف کو مشکل صورتحال میں ڈالا جائے ۔ صرف نو حلقے ، وہ بھی ایسے جہاں تحریک انصاف کو واضح برتری نہیںاور پھر سوال یہ کہ اگر الیکشن جیت گئے تو تحریک انصاف کے منتخب ارکان اسمبلی جب قومی اسمبلی جا کر حلف ہی نہیں اٹھائیں گے تو پھر اس پوری ایکسرسائز کا کیا فائدہ ؟ظاہر ہے ووٹر بھی یہ پوچھیں گے کہ اگر اسمبلی میں جانا نہیں تو الیکشن کیوں لڑا؟
دوسرا مقصد جس میں پی ڈی ایم زیادہ دلچسپی رکھتا ہے، وہ ان کلوز مقابلوں والے حلقوں کو جیت کر عمران خان کی پنجاب کے ضمنی انتخابات میں شاندار کامیابی کے تاثر کو زائل کرنا۔ پنجاب کے ضمنی الیکشن نے واضح کر دیاکہ عمران خان کو بڑے پیمانے پر عوامی حلقوں کی حمایت حاصل ہے اور پی ڈی ایم کی تیرہ جماعتوں کے ووٹر مل کر بھی اس کا مقابلہ نہیں کر پائے۔ اب ان کلوز مقابلوں والے حلقے جیت کر پی ڈی ایم اپنی عوامی مقبولیت کا تاثر بنانا چاہتا ہے۔ ان کی شکست خوردگی اور ڈر کا اندازہ اس سے لگائیں کہ کوئی سے بھی حلقوں یا ترتیب وار سیٹیں منتخب کرنے کے بجائے اپنی پسند کی جگہ اور محاذ ڈھونڈا ہے۔ انہیں اندازہ ہے کہ تحریک انصاف سے جیتنا آسان نہیں۔ اس لئے حکومت میں ہونے کے باوجود اس قدر احتیاط کی جا رہی ہے۔

عمران خان کی جوابی موو
عمران خان نے جوابی چال چل کر اسے بیانیہ کی جنگ بنا دیا ہے۔ ظاہر ہے عمران خان الیکشن جیت کر اسمبلی میں نہیں جانا چاہتے، مگر وہ اپنے ووٹر اور حامیوں کو یہ پیغام دیں گے کہ انہیں جتوا کر پی ڈی ایم حکومت اور پوری قوم کو یہ بتایا جائے کہ ووٹر عمران خان کے بیانیہ کے ساتھ ہے۔
اعتراضات
عمران خان کی اس موو پر سوشل میڈیا میں اعتراضات چل رہے ہیں۔ تین چار نمایاں ہیں۔

عمران کے پاس امیدوار نہیں
یہ بچکانہ بات احسن اقبال نے کہی ہے ۔ عمران خان کے لئے امیدواروں کا کوئی مسئلہ نہیں کیونکہ یہ تو بہت آسان کام ہے۔ جن ارکان اسمبلی نے استعفے دئیے، وہ امیدوار کے طور پر موجود ہیں، ان سے بہتر سلیکشن کیا ہوگی ؟ہر جگہ سیاسی جماعتیں موجودہ (Sitting) ارکان اسمبلی کو ٹکٹ دیتی ہیں، کبھی کبھار کوئی استثنائی کیس آ جائے تو الگ بات ہے۔
عمران خان نے دراصل اپنے امیدواروں کو اس پریشانی یا خفت سے بچانے کی کوشش کی ہے ، جس کا سامنا انہیں پی ڈی ایم امیدواروں کی جانب سے طنز کے تیر برسائے جانے سے ہوسکتا ہے۔ اگر تحریک انصاف کے امیدوار الیکشن لڑتے تو مخالف یہ پروپیگنڈہ کرتے کہ تم اگر جیت کر اسمبلی نہیں جاﺅ گے تو پھر الیکشن کیوں لڑ رہے ہو۔
عمران خان کے لڑنے کی صورت میں یہ صورتحال نہیں بنے گی۔ ایک تو ہر حلقے میں عمران خان کا خود جانا ان کے ووٹر اور حامیوں کو چارج کر دے گا۔ دوسرا انہیں معلوم ہوگا کہ وہ عمران خان کے بیانیہ کو ووٹ دے رہے ہیں اور اس سے فرق نہیں پڑتا کہ اسمبلی میں جانا ہے یا نہیں جانا۔
ایک اعتراض پڑھا کہ عمران خان اپنی انا کا اسیر ہے ، اس لئے خود لڑ رہا ہے۔ (اس میں انا کا کیا تعلق ؟ اس نے الیکشن لڑنے کا فیصلہ اسمبلی میں جانے کے لئے تو نہیں کیا۔)

عوام کا پیسہ ضائع ہوگا
(ایسا سوال پوچھنے والوں کی دردمندی کو یقیناً اکیس توپوں کی سلامی دینی چاہیے، ان کی معصومیت اور بھولپن کے بھی اضافی پانچ نمبر دینے چاہئیں۔ بھئی سوال یہ ہے کہ سپیکر قومی اسمبلی جب پانچ ماہ سے استعفوں کو گود میں لئے بیٹھا تھا تو اچانک اس نے نو حلقوں پر الیکشن کی صورتحال کیوں پیدا کی ؟ وہ جیسے پانچ ماہ سے خاموش بیٹھا تھا، تین چار ماہ مزید بیٹھا رہتا۔ قوم کا ایک روپیہ بھی ضائع نہ ہوتا۔)

جیت گئے پھر
اعتراض ہے کہ تحریک انصاف الیکشن جیت گئی تو پھر استعفے دے دے گی ،اس کی کیا تک ہے ؟
(تک تو ویسے اس قدر شدید معاشی اور سیاسی بحران کے باوجود نئے انتخابات نہ کرانے کی بھی نہیں۔ آسان ترین حل ہے کہ عوام سے فریش مینڈیٹ لیا جائے، جو پارٹی جیت جائے وہ آ کر حکومت بنائے۔ پی ڈی ایم کہتی تھی کہ عمران خا ن سلیکٹڈ ، نااہل اور غیر مقبول ہے تو الیکشن میں اس کا صفایا کیوں نہ کر دیتے ؟ عمران خان سے ڈر کیوں رہے ہو؟)

اورکیاآپشنزتھیں؟
عمران خان کے پاس اور کیا آپشن ہے؟ استعفے وہ اس لئے دے چکا ہے کہ دباﺅ ڈال کر نئے الیکشن کرا سکے ۔اب نو حلقوں میں ضمنی الیکشن کرا کر اس کے لئے جو مشکل صورتحال پیدا کی گئی ، اس کا جواب کس طرح دے ؟ اگر ان حلقوں کا بائیکاٹ کرے تو اس سے بھی سیاسی نقصان ۔ اگر الیکشن لڑے اور اسمبلی میں اپنے لوگ بھیج دے تب بھی نقصان کہ باقی استعفوں کا کیا بنے گا؟ اگرجیتنے کے بعد اپنے منتخب ارکان کو حلف اٹھانے نہ بھیجے ، تب بھی نقصان۔ عمران خان نے اسی لئے خود لڑنے کی آپشن منتخب کی ۔
بیانیہ کی جنگ
اس طرح اس نے عمران خان کا بیانہ بمقابلہ پی ڈی ایم کا بیانیہ کی صورتحال پیدا کر دی ہے۔ اب ہونا تو یہ چاہیے کہ پی ڈی ایم کے مرکزی رہنما عمران خان کے مقابلے پر اتریں اور اسے شکست دیں۔
مولانا فضل الرحمن کو کے پی کے کسی حلقے سے لڑنا چاہیے، ویسے بھی وہ اسمبلی میں آنے کے لئے بے تاب ہیں۔ لاہور سے مریم نواز یا حمزہ شہباز کو لڑنا چاہیے۔ لیاری کراچی سے آصفہ بھٹو الیکشن لڑیں، مردان سے اے این پی کے اسفند یار ولی خود الیکشن لڑیں۔ انہیں چاہیے کہ غیر مقبول، نالائق ، سلیکٹیڈ عمران خان کو بدترین شکست دینے کے لئے خود میدان میں اتریں۔

رسک کتنا ہے
رسک تو ظاہر ہے عمران خان نے بڑا لیا ہے ۔ یہ تمام حلقے ایسے ہیں جہاں تحریک انصاف نسبتاً کمزور ہے، وہاں پی ڈی ایم کا ووٹ زیادہ ہے اور الیکشن لڑنا آسا ن نہیں۔۔ ان میں لیاری کا حلقہ بھی شامل ہے، جہاں روایتی طور پر سندھی، بلوچ امیدوار ہی جیت پاتا ہے۔ دیگر کئی حلقے مشکل ہیں۔ عمران خان تمام حلقے بھی ہار سکتے ہیں، تمام جیت بھی سکتے ہیں، یہ بھی کہ کچھ جیت جائیں، کچھ ہار جائیں۔ بہرحال انگریزی محاورے کے مطابق کچھ بن جائے یا تباہ ہوجائے (Make or Break)والی پوزیشن ہے۔ عمران خان کی اس موو پر جتنی مرضی تنقید کی جائے، اس کی جرات اور آﺅٹ آف باکس تھنکنگ کے نمبر تو بہرحال دینے پڑیں گے۔

قانونی پوزیشن
ایک رکاوٹ ہے کہ عمران خان کا ابھی تک استعفا منظور نہیں کیا گیا ، عمران مخالف حلقے کی رائے ہے کہ وہ ایم این اے ہوتے ہوئے دوسرا الیکشن نہیں لڑ سکتا۔ قانونی حلقے اس کی تردید کرتے ہیں۔ ان کے مطابق ایک رکن قومی اسمبلی پر ایسی کوئی پابندی نہیں کہ وہ کسی دوسرے حلقے سے الیکشن نہ لڑ سکے۔ البتہ جب وہ دوسرے حلقے سے جیت کر حلف اٹھا لے تو اس کی پہلی سیٹ ختم سمجھی جا ئے گی۔ ویسے ممکن ہے یہ معاملہ عدالت میں جائے ۔ ایسا شائد تحریک انصاف بھی چاہتی ہو۔ جتنا زیادہ گھڑمس مچے گا، سیاسی افراتفری ہوگی، اتنا ہی اپوزیشن کو فائدہ ہوتا ہے اور اب تحریک انصاف اپوزیشن میں ہے۔

Related Posts